وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔۔
شاید پی ٹی آئی حکومت کے بائیس ماہ کے دور میں پہلا موقع تھا کہ وزیراعظم نے حکمران جماعت اور اتحادیوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا ہو۔ ویسے تو بطور وزیراعظم بشمول اپوزیشن انھیں تمام پارلیمنٹیرینز کو عشائیہ میں مدعو کرنا چاہیے تھا تاہم چونکہ اپوزیشن کے بارے میں ان کا مخصوص نکتہ نگاہ ہے کہ یہ کرپٹ ہیں ان سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا لہٰذا انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ عشائیہ میں بھی خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ حکومت یقینی طور پر مدت پوری کرے گی، اپوزیشن کو مطعون کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ہر روز حکومت کے جانے کی نئی تاریخیں دیتے رہتے ہیں۔ یقینا اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو معلوم ہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت نہ گئی تو ان کو جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ خان صاحب اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہیں کہ نہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اپنی پانچ سالہ مدتیں تو پوری کیں لیکن ان کے نامزد وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور میاں نوازشریف کو دوران مدت ہی گھر جانا پڑا لیکن خان صاحب کو زعم ہے کہ ہمارے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہے یقینا جس ماڈل کے تحت کام کیا جا رہا ہے اس میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کو فارغ کرنا شامل ہے، گویا کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزایار پھرے۔ سیاست کے کچھ اپنے مدوجزر ہوتے ہیں۔ خان صاحب اپنی حکومت کے بائیس ماہ بعد ہی اپوزیشن کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے حواریوں اور اتحادیوں کی وجہ سے عین بجٹ کی منظوری سے پہلے پریشر میں آ گئے۔ سب سے دلچسپ مسلم لیگ (ق) کا رویہ ہے، چودھری برادران نے عاجزانہ طور پر یہ کہہ دیا کہ ہم بجٹ کی منظوری کیلئے ووٹ تو ضرور دیں گے لیکن اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث عشائیے میں شرکت نہیں کریں گے۔ چودھری برادران خاصے عرصے سے خان صاحب سے ناراض ہیں جس کا دبے دبے الفاظ میں ذکر بھی ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ برس جب چودھری شجاعت شدید علیل تھے تو خان صاحب نے ان کی مزاج پرسی کے لیے جانا تو کیا فون تک نہیں کیا، نیز ان کو گلہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کو فنڈز سے محروم رکھا گیا ہے اور ایک طے شدہ فارمولے کے مطابق ان کے حلقوں میں ان کی آشیرباد سے پوری طرح انتظامی تبدیلیاں نہیں کی گئیں۔ چودھری پرویزالٰہی سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ صاحبزادے مونس الٰہی کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا جائے گا لیکن اس کے بجائے بعدازاں چودھری برادران کو یہ دانہ ڈالا گیا کہ شجاعت حسین کے بیٹے کو وزیر بنایا جا سکتا ہے لیکن چودھری برادران نے انکار کر دیا۔
مسلم لیگ (ق) بوجوہ حکومت کی خاموش حمایت کرنے پر فی الحال مجبور ہے لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ بی این پی (مینگل) بہلانے پھسلانے کے باوجود ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں لیکن سب سے پُرخطر بات یہ ہے کہ حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ناراض ارکان قومی اسمبلی آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ یہ چودہ ارکان اسمبلی جن میں حاجی امتیازاور نواب کرامت شامل ہیں، سپیکر اسد قیصر کی کاوشوں کے نتیجے میں عشایئے کے بعد وزیراعظم سے ملے۔ ایم کیو ایم اپنے مخصوص طریقہ کار کے تحت سودے بازی کر رہی ہے۔
اگرچہ کہ وفاقی بجٹ منظور ہو گیا ہے، فنانس بل کی حمایت میں 160 اور اس کی مخالفت میں 119 ووٹ دئیے گئے لیکن حکمران اتحاد کی کوئی اچھی حالت نہیں ہے۔ حالات اگر مزید خراب ہوئے تو تانا بانا بکھر سکتا ہے، اسی لیے آہستہ آہستہ وزیراعظم کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہے کہ اگر اپوزیشن سے کٹی ہے تو کم از کم اپنی جماعت اور اتحادیوں سے رابطہ رکھا جائے لیکن ناراض اتحادی اور پارٹی کے ارکان یہی کہتے ہونگے "بہت دیر کی مہرباں آتے آتے"۔ اسی بنا پر مسلم لیگ (ق ) کے ایک رکن نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم کوئی ہرکارے تو نہیں کہ ہمیں دھتکارا جائے اور جب ضرورت پڑے تو عشایئے پر بلا لیا جائے۔ اپوزیشن نے حسب توقع بجٹ کو مسترد کر دیا اور ان کے دعوے کے مطابق پوری قوم بجٹ کے خلاف متحد ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کے درمیان رابطے بھی تیز تر ہو چکے ہیں لیکن موجودہ حالات میں وہ شاید حکومت کے لیے کوئی بڑا خطرہ نہ ہوں۔
پیر کی صبح کراچی سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر دہشت گردی کی دیدہ دلیری سے کی گئی کارروائی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے دعوے درست نہیں۔ دہشت گردی کا زخمی سانپ وقتاً فوقتاً پھنکارتا رہتا ہے۔ اس افسوسناک واقعہ میں ایک پولیس اہلکار، تین سکیورٹی گارڈ شہید جبکہ چاروں دہشت گرد مارے گئے۔ یہ دہشت گرد جدید ترین اسلحہ بیگوں میں بھر کر لائے تھے، اگر ہماری پولیس اور سکیورٹی ادارے بروقت کارروائی نہ کرتے تو بہت زیادہ نقصان ہوسکتا تھا۔ یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ سٹاک ایکسچینج جو پورے ملک کی معاشی سرگرمیوں کی شہ رگ ہوتی ہے، ملک دشمن وطن فروش اس پر شب خون مار سکتا ہے۔ یہ دہشت گرد اس ہائی سکیورٹی ایریا میں کیسے پہنچے اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کراچی کو دہشت گردوں، ان کی کمین گاہوں، بھتہ خوری اور لوٹ مار سے پاک کر دینے کے دعوے درست ہو سکتے ہیں لیکن اب بھی کراچی میں دہشت گردوں، غیر ملکی اسلحے اور پناہ گاہوں کی بھر مار ہے۔ اگر ہمارے سکیورٹی ادارے بروقت کارروائی نہ کرتے توخدانخواستہ یہ بمبئی طرز کا سنگین واقعہ ہو سکتا تھا جس میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ ایک اطلاع کے مطابق دہشت گردی کے اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کر لی ہے۔ ایسی کارروائیوں کے پیچھے بھارتی انٹیلی جنس اداروں بالخصوص"را"جسے پہلے بھی کئی بار منہ کی کھانا پڑی کی ملی بھگت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان اب بھی سنگین دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔