شادیانے نہیں عمل!
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے مطابق وطن عزیز میں کورونا کیسز میں 28فیصد کمی آئی ہے۔ اموات اور کیسز میں ٹھہراؤ اچھی خبر ہے کیونکہ اس موذی مرض کے ہاتھوں پوری دنیا ہی بری طرح متاثر ہے اور پاکستان جیسے پسماندہ ملک کی نہ صرف اکانومی تباہ ہو گئی بلکہ بہت سے غریبوں کا روزگار ختم ہو گیا اور قوم کو روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی تھی کہ کب یہ آفت ٹلے گی اور اس کے اقتصادیات، سیاسیات اور سماجی معاملات پر کیا دوررس اثرات مرتب ہونگے۔ اب تک اعدادوشمار کے مطابق 5320سے زیادہ افراد کوویڈ 19کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے جیسا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پنجاب میں کورونا ٹیسٹ کی شرح سندھ کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ جلدبازی میں فتح، کا اعلان کرنے سے معاملات خراب ہونگے۔ اعداد وشمار کے مطابق 170670مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ2118افراد کی حالت تشویشناک اور متاثرین کی مجموعی تعداد اڑھائی لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ زمینی حقائق اشارہ کرتے ہیں کہ وائرس کا پریشر کم ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ہسپتالوں میں اس طرح کی ایمرجنسی کی صورتحال نہیں جو دو ہفتے پہلے تک تھی۔ عالمی سطح پر اموات میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سب کچھ سمارٹ لاک ڈاؤن کے طفیل ہوا ہے لیکن دوسری طرف یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کے بارے میں گومگوں اور ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی پالیسی اختیار نہ کی جاتی تومعاملات بہت بہتر ہوتے۔
بدقسمتی سے جب تک کورونا وائرس کی ویکسین سامنے نہیں آتی یہ مرض لاعلاج ہے اور احتیاطی تدابیر کے سوا اس کا کوئی مداوا نہیں۔ لاک ڈاؤن کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں سویڈن کی مثال دی جا سکتی ہے۔ سویڈن نے یہ جواز بنا کر کہ لاک ڈاؤن سے اقتصادیات متاثر ہونگی اپنے شہریوں پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں، اب تک سویڈ ن جس کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے، پانچ ہزار سے زائد افراد کورونا کی نذر ہو چکے ہیں۔ سویڈن کی اس پالیسی کے مقابلے میں اس کے ہمسایہ ممالک ڈنمارک اور ناروے میں جہاں سخت لاک ڈاؤن کی پالیسیاں اپنائی گئیں بہت زیادہ مالی نقصان نہیں ہوا۔ نتیجتاً سویڈن کی اکانومی بحال نہیں ہوئی بلکہ قریباً 4.1فیصد سکڑ گئی ہے اور بیروزگاروں کی تعداد مئی میں 5.6فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ سویڈن کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ یہ کہنا کہ حکومتوں کے کورنٹین کے نفاذ سے اقتصادیات تباہ ہو جاتی ہیں ایک سطحی قسم کی دلیل ہے، اصل دشمن کورونا وائرس ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتا۔ امریکہ کی مثال ہی لے لیں وہاں پر اب نئے کیسز ساٹھ ہزار سے زیادہ ہو چکے ہیں گزشتہ دو ہفتوں میں ان میں 53فیصد اضافہ ہوا ہے اور اموات جو کم ہو رہی تھیں ان میں 25فیصد اضافہ ہوا ہے جن ریاستوں میں لاک ڈاؤن ختم کیا گیا وہاں کورونا آگ کی طرح پھیل گیا۔ فلو ریڈا جہاں لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا تھا اتوار کو 15300نئے کیسز سامنے آئے اور اس طرح اس ریاست میں امریکہ میں 12274کے کیسز کے ریکارڈ کو مات کر گیا۔
امریکہ میں اب تک 138000امریکی اس وبا کی نذر ہو چکے ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ اپنے وسائل، دولت، اقتصادیات اور فوجی طاقت کے لحاظ سے دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ اس کی یونیورسٹیاں ریسرچ کے لحاظ سے صف اول میں ہیں لیکن ان تمام وسائل کے باوجود امریکہ اس وبا کا مقابلہ کرنے میں قطعاً ناکام رہا ہے۔ یہ صورتحال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور گورنروں کی نیم دروں اور نیم بروں پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے حال ہی میں ماسک نہ پہننے کی اپنی ضد چھوڑی لیکن اب امریکہ کا اقتصادی اور جانی نقصان اتنا ہو چکا اور مزید ہو رہا ہے کہ برسر اقتدار ری پبلکن پارٹی کو اپنی بقا کے لالے پڑ گئے ہیں اور اکثر سروے اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چار ماہ بعد ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے ڈیموکریٹ حریف جوبائیڈن ان کو شکست دے دیں گے لیکن امریکہ کو ایک سیماب پا اپنی ہی ہٹ پر چلنے والے لیڈر کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے اور ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مقام شکر ہے کہ پاکستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں کورونا وائرس بڑھنے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق دو ہفتے میں پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد اوسطاً 3632سے کم ہو کر 2914 ہو گئی ہے۔ حکومت کو بعداز خرابی بسیار یہ احساس ہو گیا ہے اگرعید الفطر کی طرح عید الاضحی پر بھی شہری احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ہتھ چھٹ ہو گئے تو اس کے بڑے خوفناک نتائج برآمد ہو نگے۔ اسی لیے قربانی کے جانوروں کے حوالے سے ایس او پیز کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیرمنصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی زیرصدارت این سی او سی کا اجلاس لاہور میں ہوا جس میں مویشی منڈیوں کے اوقات کار صبح 6 سے شام7بجے تک طے کئے گئے ہیں۔ اسد عمر نے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ مویشی منڈیوں کے داخلی راستوں پر سکریننگ کی جائے گی۔ اس پر مستزادیہ کہ عید الاضحی کے بعد محرم آ رہا ہے۔ اس وقت بھی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرانا خاصا گنجلک مسئلہ ہے۔
وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس وقت جب وبا عروج پر تھی خود خالص لاہوری ہونے کے باوجود برملا شکایت کی تھی کہ لاہوریئے جاہل ہیں اس لیے وہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے۔ یاسمین راشد میڈیکل ڈاکٹر ہیں انسانی نفسیات ان کا شعبہ نہیں۔ پاکستان کے لوگوں کو شرح خواندگی کے حوالے سے کم پڑھے لکھے قرار دیا جا سکتا ہے۔ یورپ، برطانیہ اور امریکہ جہاں بھی پابندیاں ہٹائی گئیں لوگ دیوانہ وار باہر نکلے۔ یہ انسانی فطرت ہے مہینوں گھروں میں محبوس رہنے والے لوگ کیوں نہ باہر کی ہوا کھائیں۔ اس ضمن میں انھیں یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں اگر نکلنا ہی پڑتا ہے تو احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ نہ صرف ان کی اپنی جان بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ حکو مت کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے وبا سے نبٹنے کے لیے ابتدائی غلطیوں کے باوجود جزوی لاک ڈاؤن کے ذریعے صورتحال کو بہتر کیا تاہم جیسا کہ وزیراعظم کا جلد بازی میں فتح، کا اعلان معاملہ خراب کر دے گا، یہ وقت شادیانے بجانے کا نہیں بلکہ عمل کا ہے۔