ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
’ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں، کی طرح سیاست بھی کوئی جامد عمل نہیں۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد نظر آتا تھا کہ ستے خیراں ہیں، اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اورقوم کو میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی بوالعجبیوں سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ نئی حکومت کو اقتدارسنبھا لے چالیس روز سے کچھ زیادہ دن ہوگئے ہیں اورعمران خان کے ساتھی شتر بے مہار ہونے کے ساتھ ساتھ ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور کوئی چیز بھی اپنی جگہ پر بیٹھی نظر نہیں آرہی۔ وزیر اعظم ہاؤس میں کھڑی زیادہ تر پرانی گاڑیاں تو نیلام ہو گئیں اور میاں نواز شریف کے لیے دودھ فراہم کرنے والی بھینسیں بھی بک چکی ہیں۔ قوم کو گورنر ہاؤسز کی سیر بھی کرائی جا رہی ہے لیکن زیادہ تر مسائل نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ وقت گزرنے کے سا تھ زیادہ گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں اور قوم کو طویل سرنگ کے آخر میں ابھی کوئی روشنی نظر نہیں آ رہی۔ قومی اقتصادیات کو ہی لیجئے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ غریب عوام کے زخموں پر پھاہارکھنے کے بجائے وزیر خزانہ سمیت حکومتی ترجمانوں کی طرف سے یہی عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے کہ سابق حکومت معیشت کا بیڑہ غرق کر گئی تھی۔ یہ کچھ غلط بھی نہیں کہ نواز شریف اور اسحق ڈار کی پالیسیاں نہ صرف خزانہ خالی کر گئیں بلکہ قوم کو خاصا مقروض بھی کر گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ شرح نمو قریباً 5.3فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر نواز شریف حکومت کوطعنے دیتے تھے لیکن اب یہ سب کچھ طوعاً وکرہاً ان کے زیرسایہ ہو رہا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک دن کہاجاتا ہے کہ گیس کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائینگی، دوسرے دن کہا جاتا ہے بجلی کی قیمت میں اضافہ نہیں ہو رہا پھر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ تیل مہنگا نہیں کیا جا رہا لیکن دیوالیہ معیشت کو کچھ سہارا دینے کے لیے اشیاء کی قیمتیں بڑھا بھی دی جاتی ہیں اور طوطے کی طرح رٹ لگائی جاتی ہے کہ یہ سب کچھ سابق حکومت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سابق حکومت اتنی ہی اہل ہوتی تو عوام الیکشن میں عمران خان کو لانے کے بجائے انھیں ہی دوبارہ لے آتے۔ اب بھی سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود خان صاحب ایک معلق پارلیمنٹ سے ادھر اُدھر کا جوڑ توڑ کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے اور یہی حال پنجاب میں ہے۔ بلوچستان میں بھی نئے گروپ اور بلوچستان عوامی پارٹی بنا کر حکومت بن پائی ہے۔ صرف خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت حا صل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کے لیے ’ستے خیراں، نہیں ہیں۔ حال ہی میں سابق صوبائی وزیر اور اب اپوزیشن کے رکن پنجاب اسمبلی رانامشہو د نے ٹیلی ویژن انٹرویو دیا ہے کہ تبدیلی آنے والی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شہباز شریف کے معاملات درست ہو گئے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت میں دو ماہ میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر جو رانا مشہود کے مطابق سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کرپیش کیا گیا ان کی پارٹی رکنیت معطل کر دی گئی اور راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں سہ رکنی کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ میڈیا میں جب رانا مشہود کے اس بیان کا کافی ڈھنڈورا پیٹا گیا تو ڈی جی آئی ایس پی آرنے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ان کا بیان بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہے، اس قسم کے غیرذمہ دارانہ بیانات ملکی استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ رانا مشہود نے یہ بیان کیونکر دیا؟ ۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے والا کام کیا ہوا۔ یہ بیان قبل از وقت ہے کیونکہ شہبازشریف تسلسل سے مقتدر اداروں کے سا تھ رابطے میں ہونے کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کی ہارڈلائن کے حامی نہیں تھے۔ گزشتہ روزجب میاں نواز شریف سے رانا مشہود کے بیان کے حوالے سے پوچھا گیا تو وہ یہ کہہ کر طرح دے گئے کہ اس پر پارٹی کے صدر پوزیشن واضح کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی انھوں نے غالب کا یہ شعر پڑھا۔ غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھرجوش اشک سےبیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کیے ہوئےالیکشن سے پہلے والے نوازشریف ہوتے تو وہ رانا مشہود کو بے نقط سنانے کے علاوہ اپنے اس وقت کے بیانیے کے مطابق مقتد راداروں کی بھی ایسی تیسی کر دیتے لیکن اب انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ جہاں تحریک انصاف کے پاس صرف نواز شریف حکومت کی کرپشن کو اچھالنے کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں وہاں اپوزیشن کے پاس تحریک انصاف کی بظاہر عد م کارکردگی پر نکتہ چینی کے لیے کا فی مواد موجود ہے۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں کو اس بات کی بھی بڑی تکلیف ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی ان کی حکومت کے خلاف ایک صفحے پر آتی جارہی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر اپنی تقریر میں حکومتی پارٹی کو یہ طنز بھی کیاکہ ہمیں لڑانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی اور نوبت با ایں جارسید کل کے شدید مخالف اب پنجاب او ر سندھ میں ضمنی انتخابات سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ یقیناً آصف زرداری اور بلاول بھٹو کے کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے جاتی امرا جانے سے دونوں پارٹیوں کے درمیان برف پگھلی ہے۔ اس سے پہلے تو یہ حال تھا کہ میاں صاحب پیچھے پیچھے اور آصف زرداری آگے آگے تھے اور قریباً تین برس تک زرداری صاحب نے میاں صاحب کو پلو نہیں پکڑایا۔ اسے تحریک انصاف کی نااہلی کے سواکیا کہا جا سکتا ہے کہ جس پارٹی نے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں حکومت سازی اور چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں تحریک انصاف کی مددکی وہ اب پی ٹی آئی کی سب سے بڑی مخالف مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایک صفحے پر آتی جا رہی ہے۔ عمران خان اگر مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، شیخ رشید اور بابر اعوان کے ساتھ جپھی ڈال سکتے ہیں تو پیپلزپارٹی کے سا تھ بھی ان کا جائیداد کا کوئی جھگڑانہیں تھا۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نواز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد تفصیلی فیصلے میں عدالت کی یہ آبزرویشن کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں نقائص ہیں اور نواز شریف کی سزا کے حوالے سے دیئے گئے دلائل اعلیٰ عدالت میں سزائیں برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ حتیٰ کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا کہ مریم نواز کے خلاف سرے سے کوئی شہادت موجود نہیں۔ جس انداز میں "پانامہ گیٹ" سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کے ایک فاضل رکن نے نواز شریف کو سسیلین مافیا سے تعبیر کیااورپھر بینچ نے انھیں اقامہ کی بنا پرنا اہل قرار دے دیا، بعدازاں نیب کے کیسز کے لیے مانیٹرنگ جج کی تقرری کی گئی اس پر مزید سونے پر سہاگہ کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی پر مشتمل جے آئی ٹی بھی بنائی گئی تھی لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حصول انصاف میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نواز شریف کو جن قانونی مسائل اور دیگر دوریفرنسز کا سامناہے ان میں بھی انھیں سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن تاحال مسلم لیگ (ن)کو موجودہ حکومت کو اپنا گھر درست نہ کرنے اور نوازشریف کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت پر سیاسی طور پر فائدہ پہنچا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عنقریب ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کتنا فائدہ اٹھاتی ہے۔