پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں!
"پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں "، تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کچھ عرصے سے خاصے بجھے بجھے، خا موش اور اداس دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر ’پاناما گیٹ، کا شکار ہو کر اقتدار سے رخصتی کے بعد شریف فیملی بالخصوص اوران کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے چیدہ چیدہ رہنماؤں پر بالعموم عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی، میاں نوازشریف کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن میں کینسر سے مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گئیں اور ان کا11 ستمبر کو وہیں انتقال ہو گیا۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کئی مرتبہ اپنے اس دکھ کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ کلثوم نواز کے آخری ایام میں ان کے سرہانے موجود نہیں تھے۔ ذہنی طور پر نارمل ہونے کے باوجود میاں صاحب عملی سیاست میں حصہ نہیں لے رہے، اگرچہ بطور رہبر وہی اپنی سیاسی جماعت کے مدارالمہام ہیں۔ بدقسمتی سے برادر خورد میاں شہبازشریف جنہیں میاں صاحب کی جگہ مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کیا گیا تھاکو بھی نیب کے کیسز میں الجھا کر اچانک گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ ریمانڈ در ریمانڈ لینے کے با وجود سابق وزیراعلیٰ کے خلاف ابھی تک کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا لیکن جس اندازمیں دونوں بھائیوں کے خلاف گڑھے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں ان کی مستقبل قریب میں خلاصی ہوتی نظر نہیں آتی۔ نواز شریف کے سر پر دو مزید ریفرنسز العزیزیہ اورفلیگ شپ کی تلوار لٹک رہی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر ان کا ٹرائل ہو رہا ہے جیساکہ ان کو پہلے ریفرنس ایون فیلڈ میں ضمانت کے بعد دوبارہ اندر بھیجنے کی کوئی جلدی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب اپنی اہلیہ کی جدائی کے بعد انتہائی مغموم ہیں اور اسی لئے خاموش ہیں لیکن یہ خاموشی اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ اب یہ بہت طویل ہو گئی ہے اور محترمہ کلثوم نواز کے چالیسیویں کے بعد بھی میاں نواز شریف سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز تو بالکل ہی منظر سے غائب ہو گئی ہیں۔ ان کی شعلہ نوائی اور جارحانہ ٹویٹس اب کہیں نظر نہیں آتے۔ غالباً میاں صاحب ہارڈ لائن لیکر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے، جب تک وہ نیب عدالت کی پیشیاں بھگت رہے ہیں شاید چپ کا روزہ رکھیں گے۔ پہلے تو نواز شریف کے ناقدین جن میں تحریک انصاف کے رہنما پیش پیش ہیں نے یہ درفنطنی اڑائی کہ میاں فیملی ایک اور این آر او مانگ رہی ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ انہیں معلوم ہے کہ این آر او کن شرائط پر ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور خود نواز شریف کے قریبی حلقوں کو دوٹوک تردید کرنا پڑی کہ ایسی کوئی سودے بازی نہیں ہو رہی۔ ویسے بھی اس مر حلے پر این آر او کی بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے، این آر او کون کرے گا اور کن کے درمیان ہو گا۔ واضح رہے کہ آمر مطلق جنرل پرویزمشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جو اس وقت جلاوطنی میں تھیں کے درمیان جو این آر او ہوا تھا اس کا بلاواسطہ فائدہ نواز شریف کو بھی پہنچا جب سعودی فرمانرو انے جنرل پرویز مشرف کو کہا کہ اگربے نظیر بھٹو کو واپس لے لیا ہے تو نواز شریف کو بھی واپس آنے کی اجازت دیں لیکن مدر آف آل این آر اوز وہ ڈیل تھی جس کے تحت نواز شریف اپنے سارے خاندان کے ہمراہ 2000ء میں جدہ میں سعودی حکومت کے سرکاری مہمان بن کر سرور پیلس پہنچ گئے تھے۔ اس وقت بھی شہباز شریف جلاوطنی میں جانے کو تیارنہیں تھے لیکن اس وقت کے ڈی جی ایم آئی لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق نے شہباز شریف پر واضح کردیا تھا کہ اگر آپ اس ڈیل پر دستخط نہیں کریں گے تو شریف فیملی کے کسی بھی فرد کوجدہ جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سیاسی مبصرین سمیت سب کے ذہنوں میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ نواز شریف آخر کیوں خاموش ہیں؟ کیونکہ وہ نچلے بیٹھنے والے سیاستدان نہیں ہیں جو لوگ ان سے واقف ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف کے اندر کیا طوفان ہو گا۔ کیا انھوں نے فوجی قیادت اور عمران خان کے بارے میں اپنے نظریات بدل لیے ہیں، یقینا ایسا نہیں ہے۔ نواز شریف کی خاموشی سٹرٹیجک لگتی ہے۔ چند روز قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے صاحبزادے سعد صدیق باجوہ کی دعوت ولیمہ میں خاصے عرصے بعد چودھری نثار علی خان سے ملاقات ہو گئی۔ گپ شپ کے دوران میرے اس سوال پر کہ آپ اور میاں نواز شریف کے درمیان برف پگھلی ہے؟ چودھری صا حب نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ پھرمیاں نواز شریف کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے چودھری نثار نے کہا کہ اگرمیاں صاحب میری بات مان لیتے تو ان کی سیاسی جماعت اس وقت پھر برسراقتدار ہوتی۔ واضح رہے کہ چودھری نثار اس وقت نواز شریف کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپ فوج سے پنگا نہ لیں اور خاموشی سے براستہ موٹروے گھر چلے جائیں کیونکہ محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہوگا۔ اس وقت بڑھکیں مارنے والے میاں صاحب کے مشیر اور نورتن انھیں مشورے دے رہے تھے کہ حضور! آپ جی ٹی روڈ کے ذریعے جب تک جلوس لے کر لاہور پہنچیں گے تو کایا پلٹ چکی ہو گی۔ یقینا میاں صاحب کو جی ٹی روڈ پر کسی حد تک پذیرائی بھی ملی تھی اور اس طرح ٹھنڈی کرکے کھانے والے سیاستدانوں جن میں چودھری نثار پیش پیش تھے کو سیاسی طور پر سائیڈ لائن پرکردیا گیا۔ میاں نوازشریف نے عام انتخابات سے قبل 13جولائی کو لندن سے بڑے طمطراق سے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کیا لیکن ان کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جس کی وہ توقع کر رہے تھے، میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو سکیورٹی اداروں کے حصار میں سیدھا اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ اس طرح نواز شریف وطن واپس آکر انتخابات میں جتنا سیاسی فائدہ چاہتے تھے اتنا حاصل نہ ہو سکا۔ بعد از خرابی بسیار سابق وزیراعظم کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی جارحانہ بیٹنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے توکیا کیا۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ شہبازشریف جن کی لائن نوازشریف کی جارحانہ حکمت عملی کے برعکس فوجی قیادت کے ساتھ صلح جوئی کی تھی وہ بھی انھیں نیب یاترا سے نہ بچاسکی۔ شہباز شریف کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور ایک وقت تک بظاہرفوجی قیادت کی یہی خواہش لگتی تھی بڑے بھائی کے برعکس شہباز شریف کو پروموٹ کیا جائے لیکن بعدازاں جب یہ محسوس کیا گیا کہ چھوٹے میاں صاحب اپنے بڑے بھائی کے خلاف کھلم کھلا سٹینڈ لینے کو تیار نہیں تو ان کا سنگھاسن بھی ڈول گیا۔ دراصل میاں نواز شریف اور شہبازشریف کی سیاست لازم وملزوم ہے، اگر ووٹ بڑ ے بھائی کو پڑتے ہیں تو چھوٹے بھائی کی کارکردگی مسلم لیگ (ن) کے لیے باعث تقویت ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شہبازشریف کی سیاست میاں نواز شریف کے بغیر نہیں پنپ سکتی۔ یہ توقع عبث ہے کہ وہ بڑے میاں صاحب کے خلاف سینہ سپرہو جائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو وہ زیرو ہو جائیں گے۔ دیکھا جائے تو بقول پرویز مشرف یہ دونوں بھائی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں یعنی جی ٹی روڈ سے جائیں یا موٹروے سے دونوں کی منزل ایک ہی ہے۔