پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے!
پاکستان اور بھارت کے درمیان پلوامہ واقعے کے بعد جنگی ہسٹیریا سے مجھے 1965ء اور 1971ء کی جنگیں یاد آ گئیں۔ 1965ء میں تو پاکستانی شاعروں اورادیبوں نے پورا جنگی لٹریچر تیار کردیا تھا جس نے عوام کے دلوں کو بہت گرمایا۔ ان دنوں الیکٹرانک میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا، ریڈیو پر چلنے والے ملی نغمے اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے، جاگ اٹھا ہے سارا وطن، میرے ڈھول سپاہیا، اپنی جان نذر کروں، اے وطن پیارے وطن، اے وطن کے سجیلے جوانو، اے راہ حق کے شہیدو اور چاند میری زمین پھول میرا وطن بہت مشہور ہوئے۔ ہم نے ببانگ دہل دعویٰ کیا کہ ہم نے بھارتی حملہ آوروں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں اور یہ کہ 65ء کی جنگ ہم نے جیت لی تھی۔ 1966ء میں اعلان تاشقند کے ذریعے فیلڈ مارشل ایوب خان اور بھارتی وزیر لال بہادر شاستری کی سوویت یونین میں صلح کرادی گئی۔ جس سے قوم کو یہ دھچکا لگا کہ ہم نے میدان جنگ میں بیش بہا قربانیاں دے کر جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر کیونکر ہاردی۔ اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان تاشقند کے فوراً بعد ایوب خان سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی سیاست کا آغاز کر دیا پھر1971ء میں مشرقی پاکستان پر بھارت کی جنگی یلغار کے دوران گلی گلی ’کرش انڈیا، کے نعرے لگائے گئے لیکن اس جنگ کے نتیجے میں ہم آدھا ملک کو کھو بیٹھے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں ان کی بنیاد براہ راست یا بلاواسطہ طور پر آزادی کا نامکمل ایجنڈا کشمیر تھا جس پر بھارت کا غاصبانہ تسلط آج بھی قائم ہے۔ موجودہ صورتحال سابقہ بحرانوں سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ پاکستان میں کوئی نہیں کہہ رہا کہ بھارت کو کچل دو، نہ جنگی ترانے بجائے جارہے ہیں۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ بابا! ہم پر جنگ مسلط نہ کرو، اگر کی گئی تو ہم ہر محاذ پر بھرپور جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن بھارت کی سرکار اور میڈیا مسلسل ایسی ہذیانی کیفیت طاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا مقصد کشمیر میں اپنی تمام تر ناکامیوں اور انٹیلی جنس کی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر جنگی جنون کو ہوا دینا ہے۔ بھارت کا مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا یک زبان ہو کر پاکستان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ ہر اس شخصیت اور ملک کو مطعون کر رہے ہیں جو پاکستان کی مذمت کرنے کو تیار نہیں۔ اس قضیئے میں پاکستان کے علاوہ چین بھی ان کا تختہ مشق بناہوا ہے۔ چین کے ایک موقر اخبار گلوبل ٹائمز جو عمومی طور پر ایسے معاملات پر تبصرے نہیں کرتا کا کہنا ہے کہ بھارت چین پر پاکستان کی مذمت کرنے کے لیے زور نہیں دے سکتا۔ اخبار کاکہنا ہے کہ بھارت میں جس قسم کے’ہائپر نیشنل ازم، کو ہوا دی جا رہی ہے اس کے نتیجے میں بھارت اور چین کے تعلقات متاثر ہونگے۔ اخبار کا مزید کہنا ہے کہ ایسے مطالبات کہ چین کو سزا دواور چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو ایسے ملک کی طرف سے کیے جا رہے ہیں جس کے مقابلے میں چین کی مجموعی قومی پیداوار پانچ گنا زیادہ ہے۔ یہ تو بھارتی میڈیا کا حال ہے لیکن ٹائمز آف انڈیا جو سرکولیشن کے لحاظ سے شاید دنیاکا سب سے بڑا انگریزی کوالٹی روزنامہ ہے، میں امریکہ سے تعلیم یافتہ ہر بیر سنگھ کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے ساتھ ساتھ مودی سرکار کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو اب صفحہ ہستی سے مٹانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ بھارت جیسے بڑے ملک کی اس چھوٹی سوچ سے پاکستانی عرصہ دراز سے واقف ہیں لیکن اس کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا نے انتہائی ذمہ داری اور بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے مجموعی طور پر ملک میں ہذیانی کیفیت پید اکرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آ صف غفور نے میڈیا کے اس مثبت رول کو سراہا بھی ہے لیکن حکمران جماعت کے میڈیا منیجرز تو ہر وقت اسی پاکستانی میڈیا کی بے توقیری کر تے رہتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری اپنا موبائل فون ہاتھ میں پکڑ کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو مطعون کر تے ہیں کہ یہ اذکار رفتہ ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اصل میڈیا تو میرا موبائل ہے۔ کیا موصوف اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے موبائل فون کے ذریعے بھارت اور پاکستان کے دیگر دشمنوں کی پراپیگنڈا یلغار کا بھرپور مقابلہ کر سکتے ہیں؟ ۔ شاید انھیں معلوم نہیں کہ جنگیں صرف میدان جنگ میں نہیں جیتی جا سکتیں بلکہ قلم اور ایئرویوز کا بھی موثرکردار ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے حالیہ خطاب میں پاکستانی موقف کی بڑے اچھے طریقے سے ترجمانی کی۔ انھوں نے واضح طور پر کہا کہ نیا پاکستان جنگ نہیں بلکہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود چاہتا ہے لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی توجواب دینے کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی فوج کی ترجمانی ایسے ہی الفاظ میں کی ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس کی سربراہی وزیراعظم عمران خان کر رہے تھے، اس میں بھی بھارتی عزائم کے خلاف اسی قسم کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ صرف یہی نہیں کہ پاکستان بھارت کے الزامات کو ہی مسترد کر رہا ہے بلکہ عمران خان کی یہ پیشکش اسلام آباد کے ما ضی کے موقف سے کسی حد تک ہٹ کر تھی کہ ہم ہر قسم کی دہشت گردی پر بھارت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ نئی دہلی کو یہ پیشکش بھی کی گئی کہ پلوامہ کے واقعے کے بارے میں معلومات شیئر کریں اس ضمن میں بھرپور تحقیقات کی جائے گی۔ لیکن اگربھارت کے پاس کوئی ثبوت ہوتا تو وہ اب تک دنیا بھر میں ہاہا کار مچا دیتا۔ پلوامہ واقعہ کا خودکش بمبار مقبوضہ کشمیر کا ہی رہنے والا تھا، وہ بھارت کے بقول گھس بیٹھیا نہیں تھا نیز جو دھماکہ خیز مواد استعمال ہوا وہ بھی پاکستان سے نہیں آیا تھا تو پھر پاکستان پر الزام چہ معنی دارد؟ ۔ البتہ جیش محمد کی طرف سے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی بنا پر پاکستان پرالزام تھونپ دیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ 2002ء سے یہ تنظیم پاکستان میں کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔ غالباً اسلام آباد کو بھی یہ احساس ہے کہ اس قسم کے گروپوں کو پاکستان میں کھل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو بھی کالعدم قرار دینا درست فیصلہ ہے۔ فروری 2018ء میں صدر ممنون حسین نے اس تنظیم کو ایک آرڈیننس کے ذریعے غیر قانونی قرار دیا تھا لیکن جیسے ہی آرڈیننس کی مد ت ختم ہوئی قانون سازی نہ ہونے کے باعث خود بخود بحال ہو گئی۔ ہمیں اس قسم کے ڈنگ ٹپاؤ اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔ بہاولپور میں جامعہ مسجد سبحان اللہ اور مدرسہ الصابر جسے جیش محمد کا ہیڈکوارٹرز قرار دیاجاتا ہے کو بھی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے لیکن جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر جنہیں بھارتی طیارہ ہائی جیک کر کے بھارتی قید سے رہا کرایا گیا تھا ابھی تک بھارت کے بقول پاکستان میں روپوش ہیں۔ پاکستان ویسے بھی جنگ نہیں چاہتا کیونکہ عالمی مبصرین کے مطابق دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان کسی قسم کی جنگ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس معاملے میں اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں لیکن سب سے دلچسپ ردعمل بھارتی خفیہ ایجنسی ’را، کے سابق سربراہ اے ایس دلت جس نے حال ہی میں پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے ساتھ مل کر ایک کتاب ’دی سپائی کرانیکلز، بھی لکھی نے اپنے وزیراعظم مودی کو تنبیہ کی ہے کہ جنگ کوئی پکنک نہیں ہوتی لہٰذا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے جارحانہ قسم کی ڈپلومیسی سے کام لینا چاہیے۔ پاکستان تو پہلے ہی اسی موقف کا حامی ہے کہ معاملات سراسیمگی پیدا کرنے، جنگ کی دھمکیاں دینے، مقبوضہ کشمیر میں مظالم ڈھانے اور پاکستان کے خلاف تزویراتی ہتھکنڈے استعمال کرنے سے حل نہیں ہونگے مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہیں۔ لیکن جہاں بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی جا رہی ہے وہاں اس نازک مرحلے پر حکومت کو اپنی اپوزیشن کو دھتکارنے اور گالیاں دینے کے بجائے آن بورڈ لینا چاہیے۔"کرپٹ" نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو محاذ آرائی کے باوجود انھوں نے ہر نازک مسئلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا۔ اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ۔