نئی تاریخ رقم؟
نئے پاکستان میں نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ مارشل لاء دور کے بعد جب سے پارلیمانی جمہوریت کا باقاعدہ احیا ہوا ہے اور حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ووٹ کے ذریعے بدلی جا رہی ہیں، شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جمہوریت کے نام پر ہی جمہوریت کی بے توقیری ہو رہی ہے۔ نیب نے جمعہ کو شہبازشریف کو صاف پانی کمپنی کیس میں طلب کر کے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں گرفتار کر لیا اوراگلے روز نیب عدالت سے 10 روز کا ریمانڈ بھی لے لیا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں نہ تو قومی خزانے کو کوئی نقصان ہوا اور نہ ہی سرکاری زمین پر تعمیرات ہوئیں، ملکیت بھی حکومت کے پاس ہے تو پھر رولا کس بات کا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس پراجیکٹ کا ایک ٹھیکہ منسوخ کر کے لطیف سنز کے بجائے کاسا لمیٹڈ کو دے دیا گیا جبکہ میاں شہبازشریف کا اصرار ہے کہ ملتان میٹرو بس اور خیبر پختونخوا میں بھی بے قاعدگیوں کی بنا پر یہ کمپنی نکالی جا چکی ہے۔ حقائق جاننا تو نیب کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن اس کی آڑ میں جیساکہ حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر، سابق وزیراعلیٰ اور قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے ساتھ "حسن سلوک "ان کے مطابق انتقامی کارروائی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شہبازشریف رضا کارانہ طور پر نیب سے تعاون کر رہے تھے تو اس ڈرامائی انداز میں ان کی گرفتاری چہ معنی دارد۔ یقینا یہ نیب کا بہت بڑا "کارنامہ" ہے کہ اس ادارے نے فواد حسن فواد جنہیں پہلے نوازشریف پھر شہبازشریف کی مونچھ کا بال سمجھا جاتا تھا کی چھترول اور دباؤ کے بعد لیے گئے بیان پر یہ کارروائی کی۔ جسمانی ریمانڈ ایک قسم کا اذیت رسانی کا طریقہ کار اور قید تنہائی کے مترادف بھی ہوتا ہے۔ حسب توقع حکومتی ترجمان نیب کے اس انتہائی اقدام پربغلیں بجا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اپوزیشن سراپا احتجاج ہے۔ شہباز شریف کی نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر خاصے لوگ جمع ہو گئے اور وہاں قریبا ً ہنگامہ آرائی کی صورتحال پیدا ہو گئی، اس دوران سابق وزیراعلیٰ کو دھکے بھی پڑے۔ قریبا ً اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے شہباز شریف کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے تو اس معاملے پر سخت اعتراض کیا۔ ان کے مطابق پاکستان کی جمہوری تاریخ میں شہباز شریف گرفتار ہونیوالے دوسرے قائد حزب اختلاف ہیں۔ ان سے پہلے یہ اعزاز خان عبدالولی خان مرحوم کو حاصل ہے جنہیں 43برس قبل اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ اقدام پاکستان میں جمہوری اداروں کے لیے نیک شگون نہیں شاید اسی بنا پر گزشتہ روز راجہ ظفرالحق کی قیادت میں اپوزیشن کے وفد نے جس میں سابق سپیکر سردار ایازصادق، جے یو آئی کے عبدالغفور حیدری اوردیگر رہنما شامل تھے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور ان سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی جو اخباری اطلاعات کے مطابق دو ہفتوں میں بلایا جائے گا۔ حال ہی میں جب میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کی سزا کے خلاف ضمانت کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں سنی جا رہی تھی تو نیب نے کارروائی رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو چیف جسٹس نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نیب کو 20ہزار روپے جرمانہ بھی کر دیا تھا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار یہ سوال کر چکے ہیں کہ آج تک نیب نے کسی ایک کیس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا ہے؟ ۔ بدقسمتی سے یہ ادارہ ایک آمر جنرل پرویز مشرف کی تخلیق ہے جوسیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، اسی کی مدد سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنائی گئی تھی، جواب بھی موجودہ حکومت کی گود میں بیٹھی ہے۔ بعدازاں نیب نے اپنا دائرہ کار بڑھا لیا۔ یہ یقینا سیاستدانوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی ناکامی ہے کہ انھوں نے میثاق جمہوریت کے تحت بلاامتیاز احتساب کے لیے کوئی پارلیمانی ادارہ نہیں بنایا اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اب نیب کو تحریک انصاف کی نئی حکومت جو ابھی تک شتر بے مہار کی طرح چل رہی ہے کے اقتدار کو سہارا دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ شہبازشریف نے اپنے تازہ بیان میں اپنے اس دعوے کا اعادہ کیا ہے کہ انھوں نے قوم کے پیسے بچائے ہیں اور ایک پائی کی کرپشن نہیں کی۔ لگتا ہے کہ میاں صاحب اپنی پنجاب سپیڈ کا کفارہ ادا کر رہے ہیں، وہ منصوبوں کو جلداز جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے جنون میں سرکاری قواعد وضوابط کو آڑے نہیں آنے دیتے تھے۔ اس لیے انھوں نے مختلف منصوبوں کی جلدازجلد تکمیل کے لیے قریبا ً 56کمپنیاں تشکیل دے دیں اور اب اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ حمزہ شہبازشریف نے اپنے والد کے خلاف کارروائی کو "نیازی نیب گٹھ جوڑ " کا شاخسانہ قرار دیا ہے اور اس کا ناتا 14اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات سے جوڑا ہے جبکہ مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ عام انتخابات سے پہلے میاں نوازشریف اور مریم نواز کو باہر رکھنے کے لیے انھیں گرفتار کیا گیا اور اب 30نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات سے پہلے شہبازشریف کو دھر لیا گیا ہے۔ شاید ایسا ہی ہو، لیکن شہبازشریف کی جگہ ان کے برخوردار حمزہ شہباز شریف جو ضمنی انتخابات میں زیادہ سرگرم عمل ہیں اگر ان کو بھی سیاسی طور پر راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو پھرمریم نواز میدان میں اترنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ اس لحاظ سے یہ اخذ کرنا کہ شہبازشریف کی گرفتاری سے مسلم لیگ (ن) تتر بتر ہو جائے گی اور اس کا شیرازہ بکھر جائے گا، درست نہیں ہو گا۔ شہباز شریف خود کو ایک میانہ رو سیاستدان کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں، وہ میاں نوازشریف کی ’پاناما گیٹ، میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے لیے جی ٹی روڈ کے بجائے موٹر وے روٹ کے حامی تھے لیکن اس وقت کے ’عقابوں، نے شہبازشریف اور چوہدری نثار کی ایک نہ چلنے دی اور میاں نوازشریف ’مجھے کیوں نکالا، کی گردان کرتے ہوئے پورے ملک میں جلسوں اور جلوسوں کے لیے نکل پڑے۔ دوسری طرف شہبازشریف اس دوران مقتدر قوتوں سے نہ صرف رابطے میں رہے بلکہ اپنے بھائی جان کی ہارڈ لائن سے تو سائیڈ پر ہی رہے لیکن اب شہبازشریف کے چودہ طبق روشن ہو گئے ہوں گے کہ مقتدر ادارے دونوں بھائیوں کو جیسا کہ پرویز مشرف سے جب بطور چیف ایگزیکٹوسوال کیا گیا ان کا شہبازشریف کے لیے ’سافٹ کارنر، ہے تو انھوں نے کچھ ایسا کہا تھا کہ دونوں بھائی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یقینا میاں شہبازشریف محض وقتی مصلحتوں کے تحت اپنے بڑے بھائی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور اب اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ویسے بھی شہبازشریف کو یہ احساس ہے کہ بڑے بھائی کے بغیر سیاست میں ان کی دال نہیں گل سکتی۔