نیب یا NAB
نیشنل اکاؤنٹ بیلٹی بیورو جس کا مخفف ’نیب، ہے کچھ عرصے سے زیادہ ہی متنازعہ بنتا جا رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق سابق آمر جنرل پرویز مشرف کا ’برین چائلڈ، یہ ادارہ اندھا، بے لاگ، بلاامتیاز احتساب کرنے میں یکسر ناکام رہا ہے۔ انگریزی لفظ NAB کا ترجمہ کسی کو یکدم پکڑ لینا، گرفتار کر لینا یا حراست میں لے لینا ہے اور اسی کام کے لیے ہمارا یہ ادارہ مشہور ہے۔ اس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج، جسٹس جاوید اقبال ہیں۔ وہ انتہائی قابل، اچھی شہرت کے حامل باعزت جج ہیں جن کے فیصلوں سے ہمیشہ غیرجانبداری کی خوشبو آتی ہے۔ اب ان کی ہی سربراہی میں اس ادارے سے لوگ خوف کھاتے ہیں کہ یہ کسی بھی وقت اور کسی کو بھی NAB کر سکتا ہے۔ ماضی میں جو فوجی آمر جمہوری حکومتوں پر شب خون مار کر اقتدار میں آتا رہا اس نے ہمیشہ یہی نعرہ لگایا کہ برسراقتدار سیاستدان اتنے کرپٹ تھے کہ انھوں نے ملک کو دیوالیہ کردیا اور اب میں ہی قوم کا مسیحا ہوں لیکن احتساب کے نام پر انتقام اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنا ہی ان آمروں کا وتیرہ رہا۔ جنرل ضیاء الحق نے تو اسلام کے نام پر گیارہ سال تک پاکستانی قوم پر کاٹھی ڈالے رکھی۔ انھوں نے یہ کہہ کر ’پہلے احتساب پھر انتخاب، عام انتخابات کو غیرمعینہ مد ت کے لیے ملتوی کر دیا اور ان کا نوے دن کا اقتدار گیارہ سال تک پہنچ گیا۔ جنرل ضیاء سے قوم کا پیچھا اس وقت چھوٹا جب وہ ایک پراسرار فضائی حادثے میں جان بحق ہو گئے۔ نسبتاً لبرل جرنیل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999ء میں جب نواز شریف کو معزول کیا تو انھوں نے بھی کرپشن کے خلاف نعرہ لگایا۔ اس وقت گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر یعقوب نے مشورہ دیا کہ اگر پاکستانی صنعتکاروں، تاجروں اور سیاستدانوں کو الٹا لٹکا دیا جائے اوران سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے لی جائے تو خالی خزانہ لبالب بھر جائے گا۔ پھر اسی مشورے پر لاہور کے چیدہ چیدہ صنعت کاروں کو سر ور روڈ تھانے میں بند کر دیا گیا لیکن نتیجہ حسب توقع صفر نکلا اور یہی صنعت کار پرویز مشرف کے یارغار بن گئے۔ یہ بالکل وہی استدلال تھا جو آج کل عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت نے اپنایا ہوا ہے۔ اسے بھی امید ہے کہ لوٹی دولت واپس لانے سے اربوں ڈالر قومی خزانے میں جمع ہو جائیں گے۔ اس ’مشن، میں نہ جنرل پرویز مشرف کامیاب ہو سکے اور نہ ہی اب عمران خان کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کہ پاکستان سے بڑی دولت بیرون ملک منتقل کی گئی لیکن اسے واپس لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پرویز مشرف کانیب میاں نواز شریف کے دور میں سیف الرحمن کی زیرنگرانی بنائے گئے بدنام زمانہ احتساب بیورو سے مختلف نہیں تھا۔ دونوں کا مقصد احتساب نہیں بلکہ انتقامی کارروائیاں کرنا اور دباؤ ڈال کر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانا تھا۔ میاں نواز شریف تو بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا احتسا ب کرتے کرتے بالآخر اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تاہم جنرل پرویز مشرف کی ضروریات کچھ مختلف تھیں، انھیں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جسے فراہم کرنے کے لیے نیب کا ادارہ بنایا گیا جس کا مقصد سیاستدانوں کے کچے چٹھے کھول کر مشرف کی حمایت پر مائل کرنا تھا۔ جزوی طور پر یہ نیب کی کاوشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ پیپلزپارٹی میں دراڑیں ڈال کر فیصل صالح حیات کی سربراہی میں پیٹریاٹس بنائے گئے اور مسلم لیگ (ن) کی کو کھ سے چودھری برادران کی سربراہی میں مسلم لیگ(ق) نے جنم لیا۔ حالانکہ وطن عزیز میں مرغ باد آموز سیاستدانوں کی کوئی کمی نہیں۔ ’نیب، کے ذریعے فائلیں نہ بھی کھولی جاتیں تب بھی یہ لوگ ہمیشہ اقتدار کی زلف کے اسیر رہے ہیں۔ غالباً جنرل مشرف کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے انھوں نے جہاں لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد، لیفٹیننٹ جنرل خالد مقبول اور لیفٹیننٹ جنرل منیر حفیظ نیب کے چیئرمین بنائے۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک عزیز لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو بھی اس منصب پر فائز کیا۔ جنرل شاہد عزیز لاہور میں کور کمانڈر بھی رہے، انتہائی دبنگ اور صاف شفاف شخصیت تھے۔ عزیزداری کے باوجود انھوں نے پرویز مشرف کے دور کے بارے میں ایک تنقیدی کتاب لکھی۔ انھوں نے چند سینئر صحافیوں سمیت مجھے اس وقت کے اسلام آباد میں نیب کے ہیڈ کوارٹرز میں مدعو کیا۔ بریفنگ کے دوران انھوں نے اپنے دراز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کے بارے میں فائل میں نے اس میں بند کر دی ہے اور اس کی چابی میری جیب میں ہے گویا کہ انھوں نے سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے سے انکار کردیا تھا۔ شاید اسی بنا پر وہ جلد ہی اس منصب سے رخصت ہو گئے تھے۔ موجودہ سیاسی تناظر میں نیب انتہائی سرگرم ہو چکا ہے۔ گزشتہ روزہی ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور سلیم شہزاد کے ٹی وی انٹرویوز کے حوالے سے خاصی گرما گرمی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق بھی جمع کرائی ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ نیب افسر نے اپنے انٹرویوز میں قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اور اگر میڈیا ٹرائل نہ روکاگیا تو یہ سراسر انتقامی کارروائی کے زمرے میں آئے گا۔ نیب کا استدلال یہ ہے کہ اگر حقائق کے برعکس باتیں کی گئی ہیں تو اعتراض بنتا ہے۔ نیب افسر نے وہ باتیں کی ہیں جو سب کو معلوم ہیں لیکن اصل سوال جو اپوزیشن اور میڈیا کے بعض حصوں میں اٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لوگوں کا ہی احتساب کیوں ہو رہا ہے ان کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا ریمانڈ در ریمانڈ لیاجا رہا ہے کیا نیب کو اب تک ان کے خلاف قابل مواخذہ مواد ملا ہی نہیں؟ ۔ اس سے پہلے نوازشریف کے دور میں آ صف زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم کی مثال دی جا سکتی ہے جن پر اربوں روپے کے خورد برد کے الزامات لگا کر طویل ریمانڈ اور نیب حراست میں رکھاگیا تھا۔ نیب کے دوہرے معیار کی دہائی دیتے ہوئے ناقدین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے لوگوں کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے جبکہ نیب کے مطلوب حکومتی ارکان جن میں علیم خان، چودھری برادران، ان کے برخوردار مونس الہی، پرویز خٹک اوربابر اعوان نمایاں ہیں دندناتے پھر رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان کا اصرار ہے کہ اگر ان کا بس چلتا تو نیب کو پچاس لوگوں کو پکڑ لیناچاہیے تھا۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کا تعلق حکمران جماعت سے نہیں اپوزیشن سے ہی ہو گا جن کی عمران خان ٹھکائی چاہتے ہیں۔ اصل مسئلہ سیاستدانوں کی مصلحت کوشی ہے، چارٹر آف ڈیموکر یسی کے تحت مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں اس بات کے پابند تھے کہ حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے احتساب کا ایک ادارہ تشکیل دیا جائیگا لیکن دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں اس پر کوئی عملی کام نہیں کیا اور یہ معاملہ طاق نسیان میں پڑا رہا۔ اب دونوں ہی مگرمچھ کے آنسو رو رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ان دونوں جماعتوں نے وقتی مصلحتوں کے تحت احتساب کا ادارہ تشکیل نہیں دیا تو ان کے خلاف احتساب کے نام پر انتقام روارکھنے کی کوششوں کو جائز قرار دے دیا جائے۔