نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے…!
لندن کے مختصر دورے سے واپس آتے ہی میاں نواز شریف بڑے خراب موڈ میں احتساب عدالت میں پیش ہوئے، نیب عدالت کی طرف سے ان کی اہلیہ کی شدید علالت کے باوجود انھیں اور ان کی صاحبزادی کو کوئی رعایت نہیں دی گئی اور حکم صادر کیا گیا کہ وہ پیر کو ہر صورت عدالت کے سامنے پیش ہو ں۔ میاں نواز شریف نے اپنا غصہ عدالت عظمیٰ پر نکالا ہے، ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ ایک ایسی سرکار بن گئی ہے جو پاکستان کے طول و ارض میں مارشل لا کے نفاذ سے بھی بدتر ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک میں جو نظام نافذ ہے وہ جمہوریت نہیں بلکہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے نیچے بدترین آمریت ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید تو کافی عرصے سے پیش گوئی کر رہے تھے کہ ملک میں جوڈیشل مارشل لا لگنے جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف نے عدالت کی موجودہ انتہائی سرگرم اور انتظامیہ کو کھینچنے کی روش کو جوڈیشل مارشل لا سے تعبیر کر دیا۔ میاں صاحب کے جذبات اپنی جگہ لیکن اتنی بھی اندھیری نگری نہیں ہے کہ ملک میں عدلیہ کی جانب سے کوئی مارشل لائی نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اس بار یوم اقبال پر مرکزیہ مجلس اقبال کی خصوصی تقریب کے صدر مجلس تھے۔ میں بطور چیئرمین ایوان اقبال اور سیکرٹری جنرل مرکزیہ مجلس اقبال میزبان ہونے کے ناتے ان کے ساتھ نشست پر بیٹھا تھا۔ میاں ثاقب نثار بڑی محنت سے ایک مقالہ جو اقبال کے اشعار اور افکار سے مزین تھا لکھ کر لائے تھے۔ لیکن میں نے انھیں مشورہ دیا کہ لوگ آ پ سے کھری کھری باتیں سننا چاہیں گے، محترم چیف جسٹس نے ایسا ہی کیا۔ انھوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ عدلیہ آزاد ہے، کسی کا دباؤ قبول نہیں کریں گے، اینکرز کہتے ہیں مارشل لا، مارشل لا، کس نے لگانا ہے مارشل لائ، انہوں نے ہاتھ لہراتے اور للکارتے ہوئے کہا کس میں ہمت ہے مارشل لا لگانے کی اور کس نے لگانے دینا ہے، قائداعظم کے ملک میں صرف جمہوریت رہے گی۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جوڈیشل مارشل لاء کا کوئی تصور آئین میں ہے اور نہ ہی اس کی کسی کو خواہش ہے۔ انھوں نے مارشل لاء کے امکان کو رد کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ ان سمیت عدالت عظمیٰ کے سترہ کے سترہ جج پیچھے ہٹ جائیں گے اور نہ ہی قوم اس کا ساتھ دے گی۔ معروضی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کے باوجود کہ میاں نواز شریف اس وقت سپریم کورٹ اور نیب کیسوں کے شکنجے میں ہیں۔ وہ اور ان کے اہل خانہ مقدمات کی وجہ سے مشکل وقت سے دوچار ہیں۔ لیکن شاید وہ ماضی میں مارشل لائی ادوار اور فوجی آمریتوں کا سبق بھول گئے ہیں یا دانستہ طور پر صرف نظر کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں میاں نواز شریف کے خلاف جب ہائی جیکنگ کا کیس چل رہا تھا، میں خود دو مرتبہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ان سے اور شہباز شریف سے علیک سلیک کے لیے کراچی گیا۔ یہ وہ دور تھا جب انھیں ہتھ کڑیاں پہنا کر بکتر بند گاڑیوں میں عدالت میں لایا جاتا تھا اور کرنل انچارج میڈیا توکجا کسی چڑیا کو بھی ان کے قریب نہیں پھڑکنے دیتا تھا۔ میں نے بھی ملنے کی بہت کوشش کی تاکہ مصافحہ ہی ہو جائے لیکن اس کی اجازت نہ مل سکی اور دور دور سے علیک سلیک پر اکتفا کرنا پڑا۔ موجودہ دور میں تو میاں نواز شریف ابھی تک ایک آزاد آدمی ہیں۔ جدید ترین بی ایم ڈبلیو کی فائیو ایکس گاڑیوں کے قافلے میں عدالت آتے ہیں اور جی بھر کراخبار نویسوں سے کھلم کھلا بات چیت کرتے ہوئے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ ان کے بیانات آزادی سے میڈیا میں شائع ہوتے ہیں۔ کیا یہ مارشل لا ہے؟ ۔ کچھ لوگ موجودہ نظام کو جمہوری مارشل لا سے تعبیر بھی کر سکتے ہیں لیکن مارشل لا اور جمہوریت ایک دوسری کی ضد ہیں گویا کہ مارشل لا جمہوریت کا گلہ گھونٹ کرہی لگایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تومیاں نواز شریف کو مارشل لا اورفوجی و نیم فوجی حکومتوں کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے۔ ان کی سیاست کا آ غاز خود جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے سائے تلے ہوا تھا اور جب ضیاالحق نے محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا کر محدود جمہوریت کے تجربے کو کامیاب ہوتے دیکھاتو انھوں نے یہ کھلونا ہی توڑ دیا تھا۔ میاں صاحب اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ انہوں نے بھی معزول جونیجو کے خلاف علم بغاوت کردیا تھا اور پی ایم ایل این کی بنیاد رکھی پھر میاں نواز شریف نے محدود مدت کے لیے جنرل پرویز مشرف کا عتاب بھی دیکھا اور وہ لبنان کے وزیراعظم رفیق حریری اور دیگر عرب حکمرانوں کی ثالثی کے ذریعے ڈیل کر کے جلاوطنی میں چلے گئے، شاید انھیں یاد نہیں! میاں نوازشریف درست فرماتے ہیں کہ70سال میں وطن عزیز میں کسی بھی وزیراعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ تاہم انھیں یہ بھی یاد ہو گا کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی لاہور ہائیکورٹ کے ہاتھوں سزائے موت جس کی بعد میں سپریم کورٹ نے توثیق کر دی کو اب اکثر سیاستدان اور ماہرین قانون جوڈیشل مرڈر قرار دیتے ہیں کا اس وقت شریف خاندان نے خیر مقدم کیا تھا شاید اس لئے کہ بھٹو نے اتفاق فاؤنڈری کو قومیایا تھا جسے جنرل ضیاالحق نے واپس کرایا تھا۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ بعدازاں ایک اور آمر مطلق جنرل پرویز مشرف کے دور میں جلاوطنی سے واپس آنے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کولیاقت باغ راولپنڈی کے قریب موت کے گھاٹ اتار دیاگیا۔ آج تک یہ سراغ نہیں مل سکا کہ اس واردات میں جنرل مشرف کا کیا رول تھا؟ ۔ نہ جانے نوازشریف سمیت ہمارے اکثرسیاستدان ان ننگی فوجی آمریتوں کیوں بھلابیٹھے ہیں۔ وہ سیاستدان اور ہمارا اشرافیہ طبقہ اور ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کا ٹولہ اس امر کے باوجود کہ براہ راست فوجی مداخلت قصہ پارینہ بن چکا ہے اور کوئی مارشل لا نہیں لگا رہا، وہ آج کے پاکستان میں فوجی اور نیم فوجی نظام کو ہی پاکستان کے مسائل کا تریاق سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ مقولہ محض ایک مفروضہ پر مبنی نہیں ہے کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آ مریت سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ لوگ سیاستدانوں کو بطور طبقہ ٹاک شوز میں ہر وقت کوستے رہتے ہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے اس اعتراض کا تعلق ہے کہ ججوں کو ہسپتالوں کے دوروں اور سبزیوں کی قیمتوں کا جائزہ لینے کے بجائے اس کاجائزہ لینا چاہیے کہ لوگوں کو بیس بیس برس تک انصاف کیوں نہیں ملتا، اس سے انکارکرنا مشکل ہے۔ چیف جسٹس خود کئی مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ انصاف کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں کام کرنا چاہیے۔ گزشتہ روز میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں ایک سیمینار میں گیا جس سے محترمہ ناصرہ جاوید اقبال نے بھی خطاب کیا۔ یہ سن کر بہت حیرانی ہوئی کہ پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی جو وائس چانسلر تھیں کے پا س یونیورسٹی آ ف مانچسٹر سے ماسٹر ڈگری ان ایجوکیشن تھی، انہوں نے یونیورسٹی آف برمنگھم سے پی ایچ ڈی کی اور یونیورسٹی آف کیمبرج سے پوسٹ ڈاکٹر اعزاز حاصل کیا۔ انھیں جس انداز سے فارغ کیا گیا اس سے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ یقینا بہت سے دیگر تعلیمی اداروں میں سفارشی لوگ بھرتی کیے گئے ہیں لیکن اس ملک میں جہاں کوالیفائیڈ لوگوں کا فقدان ہو وہاں آٹے کے ساتھ گھن نہیں پیسا جانا چاہیے اور محترمہ کو محض یہ کہہ کر وہ وزیر داخلہ احسن اقبال کی سفارش پر وائس چانسلر بنائی گئی ہیں، کو ہٹا دیا گیا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اصولی طو ر پر درست ہے کہ ججز کو اپنے فیصلوں کے ذریعے بولنا چاہیے لیکن سابق دور میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہرقسم کے ریمارکس جو ٹکر کی صورت میں ٹیلی ویژن پر چلتے تھے کے ذریعے اس کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ موجودہ چیف جسٹس غالباً عوام کے مسائل کو حل کرنے کی صدق دل سے کوشش کر رہے ہیں اور آج کل ان کا روئے سخن پنجاب کی طرف ہے لہٰذا اسی لیے میاں نواز شریف بھی اپنے معاملات کے علا وہ اپنے برادرخورد کے حوالے سے شاکی لگتے ہیں لیکن بہتر ہو گا کہ اب جبکہ انتخابات ہونے والے ہیں ان معاملات میں جمہوری ادارے کچھ توازن پیداکرنے کی کوشش کر یں اور ہمارے سیاستدان مارشل لا کی لعنت جو کوئی نہیں لگا رہا کانام لینے سے بھی پرہیز کریں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بالکل درست اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حکومت اور عدلیہ کا ٹکراؤ خطرناک موڑ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان کا یہ مشورہ یقینا صائب ہے کہ نواز شریف اور چیف جسٹس کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ علامہ محمد اقبال نے درست ہی کہاتھا کہ "نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے…"