ملک لیڈر کا متلاشی!
جوں جوں کورونا وائرس پاکستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے، اموات کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ملک بھر میں کورونا کے 16473کیسز تھے جو15مئی تک بڑھ کر قریباً 37000تک پہنچ گئے۔ یہ کوئی حسن اتفاق نہیں ہے کہ پاکستان چند روز میں ہی کورونا وائرس سے متاثرہ ملکوں میں 24ویں سے 19ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جب سے کورونا وائرس نے پاکستان کا رخ کیا ہے، لاک ڈاؤن پر متذبذب پالیسی کے باوجود حکومتی زعما بالخصوص وفاقی وزرا رطب اللسان ہیں کہ ہم تو مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں اور یہ وائرس پاکستان میں اس تیزی سے نہیں پھیل رہا جیسے بعض دوسر ے ممالک میں پھیلا ہے لیکن یہ دلیل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بودی لگنے لگی ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان تو برملا کہتے ہیں کہ میں روز اول سے یہ کہہ رہا ہوں کہ میں نظریاتی طور پر مکمل لاک ڈاؤن کا مخالف ہوں۔ ان کی یہ ذاتی رائے جس طرح کورونا سے نبٹنے کی پالیسیوں پرمنفی طور پر اثرانداز ہو رہی ہے اس کا خمیازہ پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ خان صاحب کئی معاملات میں دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کے صدر ٹرمپ کی مثال دیتے ہیں، بعض معاملات بالخصو ص کورونا وائرس کے بارے میں ان دونوں رہنماؤں کی اپروچ ایک جیسی لگتی ہے۔ حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں ایک کالم نگار لکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ تواتر سے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے عادی ہیں۔ وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن نرم نہ کیا توغریب آدمی بھوک سے مر جائے گا حالانکہ فی الحال بھوک سے کسی کے مرنے کی اطلاعات تو نہیں آئیں لیکن کورونا وائرس سے لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔
اگرچہ لاک ڈاؤن کھولنے کا جواز بھی یہی پیش کیا گیا کہ غریب آدمی اور دیہاڑی دار کچھ کما سکیں اور اکانومی کا پہیہ چل پڑے لیکن یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ غریب کا خیال رکھنے کے نام پر گالف کلب، ٹینس کلب، جم کھولنے کے ساتھ اشرافیہ کیلئے مزید آسانیاں پیدا کر دی گئیں۔ سوموار کو لاک ڈاؤن کھولا گیا تو لاہور کی مہنگی ترین مارکیٹس، شاپنگ مالز اور دکانیں جہاں چمکیلی گاڑیوں میں آنے والی ایلیٹ شاپنگ کرتی ہے کچھا کھچ بھر گئیں حتیٰ کہ بعض دکانوں نے خواتین کو باہر انتظار کرنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف عام دکانوں پر بھی انتہائی رش دیکھنے میں آیا یعنی کہ عملی طور پر کورونا وبا سے بچنے کی تمام حفاظتی تدابیر کی دھجیاں اڑا دی گئیں گویا کہ ہماری موجودہ گومگو کی پالیسی کا نتیجہ شاید خدانخواستہ یہی نکلے کہ بڑی عمر اور صحت کے مسائل سے دو چار لوگ اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھیں اوراقتصادی سرگرمیاں بھی بحال نہ ہو پائیں۔ بعض ماہرین کے مطابق اگر یہ بیماری نوجوانوں میں کم پھیلتی ہے تو بوڑھوں کی خاطر جو ویسے بھی بڑھاپے کی بنا پر پیداواری صلاحیت کھو چکے ہیں ان کی وجہ سے کاروبار کو کیوں ٹھپ کیا جائے، باقی ماندہ آبادی میں تو خود ہی مدافعتی نظام بہتر ہو جائے گا۔ یہ تھیوریاں دنیا بھر میں ناکام ہو چکی ہیں اور کورونا وائرس کی ایک نئی قسم دوبارہ حملہ آور ہو گئی ہے۔ چین کے صوبے ووہان جہاں سے گزشتہ سال نومبر میں یہ عالمی وبا پھوٹی تھی اور اس کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اب پھر وہاں ایک نیا کیس سامنے آ گیا جس پر ووہان میں ایک کروڑ سے زائد آبادی کی دوبارہ ٹیسٹنگ کی جا رہی ہے۔
بعض ممالک میں جہاں لاک ڈاؤن کو نرم کیا گیا ہے، اس حوالے سے ہمارے بھی مہرباں ہیں کیسے کیسے! وزیر مواصلات مراد سعید جن کے منہ سے پھول ہی جھڑتے ہیں فرماتے ہیں کہ نیو یارک اور برطانیہ پاکستان کے سمارٹ لاک ڈاؤن کی تقلید کر رہے ہیں۔ وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر فرماتے ہیں کہ لاک ڈاؤن مسئلے کا حل نہیں ہے، بات تو ٹھیک ہے لیکن جب تک کورونا وائرس کی کوئی ویکسین سامنے نہیں آتی اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ویسے بھی جب کورونا وبا پھیلی تھی تو ہم بھی چین کی طرح بروقت لاک ڈاؤن کر دیتے تو آج حالات نارمل ہو چکے ہوتے۔
سیاسی محاذ آرائی اس گھمبیر چیلنج کے باوجود تعاون کے بجائے نئی حدوں کوچھو رہی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس مسلم لیگ (ن) کی ریکوزیشن اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے پر زور اصرار پر بلایا گیا لیکن خود وہ میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کر کے اجلاس سے عنقا ہو گئے۔ ان کایہ رویہ انتہائی غیر سیاسی اور خود ان کی پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے۔ شہبازشریف اکیلے رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں جنہیں کورونا وائرس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفرالحق، میاں شہبازشریف سے کہیں زیادہ عمر رسیدہ ہیں اور کئی دیگر ارکان پارلیمنٹ ان سے سینئر اور مختلف بیماریوں کا شکار ہیں حتیٰ کہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر خود کو کورونا میں مبتلا رہ چکےہیں۔ غالباً میاں صاحب کا خیال یہ تھا کہ حکومتی جماعت اجلاس نہیں بلائے گی اور ورچوئل اجلاس پر اڑی رہے گی لیکن خان صاحب نے ان کا یہ بلف کال کر لیا۔ شہبازشریف کا کہنا ہے کہ انہوں نے اجلاس کے لیے اپنی تقریر کی بہت تیاری کی ہوئی تھی، وہ شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف اور احسن اقبال کے ذریعے کہہ سکتے تھے لیکن نہ جانے کیا مصلحت آڑے آئی کہ شہبازشریف نے امتحان سے بچنے کے لیے میڈیکل سرٹیفکیٹ بھیجنے والے طالب علم کی طرح اپنی جان چھڑا لی۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ شریف برادران کی سیاست اب میڈیکل سرٹیفکیٹس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ شنید ہے کہ خان صاحب بھی پارلیمنٹ میں قدم رنجہ فرمائیں گے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو نسبتاً متحمل مزاج اور جہاندیدہ سیاستدان ہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بلاوجہ پیپلزپارٹی کو للکارا اور یہ چیلنج دیا کہ وہ تیاری کر لے ہم سندھ بھی آ رہے ہیں، جیسے پنجاب میں اپنا لوہا منوایا ہے سندھ میں بھی منوائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی ان کو ترکی بہ ترکی جواب دیا، ان کا کہنا تھا میں سندھ نہیں پاکستان کی بات کرتا ہوں بالخصوص انھوں نے قریشی صاحب کے ریمارکس پرسخت اعتراض کیا کہ مجھ سے سندھ کی بو آرہی ہے۔
یقینا تحریک انصاف کو سندھ میں اپنا لوہا منوانا چاہیے لیکن اس کا بہتر وقت عام انتخابات کے موقع پر ہو گا۔ اس وقت جبکہ پوری قوم کوروناکی ابتلا میں ہے، یہ عذر لنگ بھی پیش کیا گیا کہ پیپلزپارٹی کو کراچی کے بارے میں کچھ فیصلہ کرنے کا حق نہیں کیونکہ وہاں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت ہے۔ اگر اس دلیل کومان لیا جائے تو لاہور جہاں مسلم لیگ (ن) کو زیادہ اکثریت حاصل ہے اس کے بارے میں پی ٹی آئی کو بات کرنے کا حق کیسے ہو سکتا ہے۔ مزید برآں یہ خطرناک دلیل ہے کیونکہ اگر سندھ سے یہ آواز اٹھائی جائے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت اور اکثریت ہے لہٰذا وفاق اس میں دخل نہ دے تو یہ قومی یکجہتی کے لیے افسوسناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ وزیراعظم اور ان کے حواریوں کو اس بات کا ادراک کیوں نہیں ہے کہ خان صاحب صرف پی ٹی آئی کے وزیراعظم نہیں بلکہ پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ان کے فرائض منصبی کا تقاضا ہے بالخصوص جبکہ ملک ایک لیڈر کی قیادت کا متلاشی ہو۔