مشن کشمیر اور ثالثی!
نیو یارک میں وزیراعظم عمران خان کا" مشن کشمیر، جاری ہے اس کا نکتہ عروج وزیراعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب تھا جس پر آئندہ بات کریں گے۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہر سال ستمبر میں میلہ لگتا ہے جس میں دنیا بھر کے سربراہان مملکت وحکومت اپنے ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اگرچہ اس ہائی پوائنٹ دنیا کے اعلیٰ ترین فورم میں ان کی تقریریں ہوتی ہیں لیکن ان سے زیادہ سائیڈ لائن پر ہونے والی ملاقاتیں اہم ہوتی ہیں ۔ امسال امریکہ کے سیماب پا اور غیر متوقع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے کچھ ہلّہ گلہ زیادہ ہی ہوا ہے۔ میاں نوازشریف نے2016 ء میں آخری مرتبہ جب جنرل اسمبلی میں پاکستان کی نمائند گی کی تو وہ تقریر کرنے کے بعد اپنا دورہ مختصر کر کے لندن چلے گئے تھے، اس کی وجہ غالبا ًیہ تھی کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے تعلقات انتہائی سرد مہری کا شکار تھے اور امریکی صدر باراک اوباما نے انھیں ملاقات کا سائیڈ لائن پر بھی مختصر وقت نہیں دیا تھا لیکن صدر ٹرمپ کی وجہ سے عمران خان کی بلے بلے ہو گئی۔ جولائی میں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم کو جی آیاں نوں کہا، ان پر تعریف وتوصیف کے ڈونگرے بھی برسائے اور اچانک یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ نریندر مودی نے ان سے کشمیر پر ثالثی کی درخواست کی ہے، بھارت کی وزارت خارجہ نے اس کی دو ٹوک تردید بھی کی لیکن خان صاحب پھولے نہ سماتے ہوئے جب گھر واپس آئے تو انھوں نے کہا مجھے لگ رہا ہے کہ میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں ۔ لیکن یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور چند روز بعد ہی 5 اگست کو مودی کی انتہا پسند مسلم دشمن حکومت نے کشمیر میں بھارتی آئین کے آرٹیکل370کی تنسیخ کر کے عملی طور پر بھارت میں ضم کر دیا۔ اس وقت سے مظلوم کشمیری عوام کرفیو، لاک ڈاؤن اور مظالم سہہ رہے ہیں ۔ ٹرمپ نے بعد میں بھی اپنی پیشکش کا کئی بار اعادہ کیا لیکن اب لگتا ہے کہ وہ ثالثی کشمیر پر نہیں خان صاحب اور مودی کے درمیان کروانا چاہتے ہیں ۔
اب ٹرمپ نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی ہے کہ آپ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں آپس میں بات کریں ۔ قبل ازیں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان اور مودی کے درمیان کوئی ملاقات ہوئی تو اس کا اچھا نتیجہ برآمد ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں وزیراعظم عمران خان نے بڑے بھرپور طریقے سے کشمیر کی ترجمانی کی ہے لیکن انھوں نے تسلیم کیا کہ دنیا ہماری بات نہیں سمجھ رہی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں سے ترکی کے سوا کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ تاریخی طور پر پاکستان نے فلسطین کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہوئے ہمیشہ اس پر دوٹوک موقف اختیار کیا ہے حتیٰ کہ آج تک ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ اب ماحول اتنا بدل گیا ہے کہ بڑی بڑی اسلامی بادشاہتوں کا محافظ اسرائیل بن چکا ہے اور ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں پہلے تھے۔ اسی بنا پر پاکستان میں بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ہمارا اسرائیل سے کوئی دو طرفہ تنازع نہیں ہے اور ہم کیوں اس صہیونی ریاست سے مسلسل کٹی کئے بیٹھے ہیں ۔ غالبا ً اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک خود کو عرب پہلے اور اسلامی بعد میں تصور کرتے ہیں ۔ باقی مسلمان ملکوں کا حال بھی قریباً یہی ہے لیکن برصغیر کے مسلمانوں میں پین اسلام ازم ان کی گھٹی میں رچا بسا ہے اور پاکستانی عوام دلی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں۔ بالا کوٹ پر بھارتی جارحیت کے موقع پر دوسرے پائلٹ کا معاملہ آج تک متنازعہ بنا ہوا ہے، غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق دوسرا پائلٹ اسرائیلی تھا گویا کہ پاکستانی عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسرائیل، بھارت اور امریکہ کا گہرا گٹھ جوڑ ہے۔
ٹرمپ اور مودی کی کامیاب ہیوسٹن ریلی میں دہشت گردی کے حوالے سے دونوں نے بلاواسطہ طور پر پاکستان کے خوب لتے لئے، اسلام مخالف باتیں بھی ہوئیں ۔ اس پر بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ ٹرمپ نے نام نہاد دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کے موقف کی پر زور تائید کر دی، تاہم بعدازاں عمران خان سے ملاقات میں ٹرمپ نے پینترا بدلا اور کہا دہشت گردی کے حوالے سے وہ ایران کی بات کر رہے تھے جس پر بھارتی میڈیا جس میں معروف صحافی برکھا دت بھی شامل ہیں نے اپنے پروگرام میں سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ غالبا ً عمران خان کو احساس ہو گیا ہو گا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے اورامریکہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کا ساتھ نہیں دے گا امریکہ نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی بھی دو ٹوک مذمت نہیں کی۔ جب تک اسے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی ضرورت ہے تو وہ ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھے گا۔ یقینا پاکستان کو بھی امریکہ کی ضرورت ہے، اس وقت کشکول لئے ہم دنیا بھر میں پھر رہے ہیں، ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹک رہی ہے، خزانہ بھی خالی ہے اور عملی طور پر آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے امریکہ کا اس کے ساتھ وسیع تر اقتصادی، کاروباری، سٹرٹیجک مفاد وابستہ ہے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے ٹرمپ کی جپھی روسی ریچھ کی روایتی جپھی سے کسی قدر کم نہیں ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان جہاں ڈیمو کریٹک پارٹی کی اکثریت ہے کی سپیکر نینسی پلوسی نے اعلان کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کی جائے گی کیونکہ وہ یوکرائن کے صدر ولا دے میر ذیلینسکی کو فون کر کے بلیک میل کر رہے تھے کہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخاب میں ان کے مد مقابل ڈیمو کر یٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کے بیٹے ہنٹربائیڈن جو یوکرائن کے ساتھ کاروبار کر رہا ہے کے خلاف انکوائری کی جائے۔ یہ ٹیلی فون کال کرنے سے پہلے ٹرمپ نے یوکرائن جو رو سی غلبے کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے کی 391ملین ڈالر کی امداد بند کر دی گویا کہ ٹرمپ کے ناقدین کے مطابق امریکی صدر نے یہ امداد روک کر اپنے یوکرائنی ہم منصب کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی جو امریکی انتخابی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ویسے تو امریکہ دوسرے ملکوں کو اپنے مفادات کی آبیاری کے لیے ہی امداد دیتا ہے لیکن ٹرمپ کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے ایسا کرنا اور جو بات ملفوف ہوتی تھی اس نے کھل کر کہہ دی گویا کہ کل کو امریکہ پاکستان پر اپنی اقتصادی حمایت کے بدلے ناقابل قبول شرائط عائد کر سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ ثالثی کرانے کی درخواست کی ہے۔ خان صاحب کے مطابق انھوں نے ٹرمپ کی اس خواہش کا ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ملاقات میں تذکرہ کر دیا تھا، انھوں نے میڈیا کو یہ بتانے سے گریز کیا کہ ایرانی صدر کا ردعمل کیا تھا تاہم ایرانی صدر نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں واضح کر دیا ہے کہ امریکہ ہمیں مذاکرات کے لیے بلاتا ہے لیکن پھر معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا، ایران اب بھی پابندیوں کے دباؤ کے بغیر بات چیت کے لیے تیار ہے، ہم دشمن کی پابندیوں میں رہتے ہوئے مذاکرات نہیں کریں گے۔ ثالثی کا نیا رول خان صاحب کو مبارک لیکن مناسب تیاری اور پیش قدمی کے بغیر یہ سعی لاحاصل ہو گی پاکستان امریکہ، سعودی عرب کا مرہون منت ہے فی الحال ثالثی تو نہیں وہ امریکہ اور ایران کے درمیان پیغام رسانی کر سکتے ہیں کیونکہ ایران ہمیں غیر جانبدار فریق نہیں سمجھے گا بہتر یہی ہو گا کہ کشمیر کے اتنے سنگین بحران سے نبرد آزما ہونے میں ہمارے وزیراعظم اور وزارت خارجہ اپنی تمام تر صلاحیتیں اور طاقت صرف کریں اس سے پہلے میاں نوازشریف اور جنرل راحیل شریف نے بھی مناسب تیاری کے بغیر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کی کوشش کی تھی لیکن ایران نے گھاس ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔