محض ایٹمی قوت۔۔۔۔۔
اس مرتبہ" یوم تکبیر "قدرے خاموشی سے گزر گیا، میاں نوازشریف کے دور میں تو اسے ایک جشن کے طور پر منایا جاتا تھا۔ بھارتی دھماکوں کا جواب دینے کے لیے پاکستان کی تیاری پوری تھی جس کا کریڈٹ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نہ دینا زیادتی ہو گی۔ 1998ء میں 11اور 13مئی کے دوران بھارت پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی طاقت بن گیا تو پاکستان کے پاس بھی کوئی چارہ نہ رہا اور 28 مئی کو چاغی کے مقام پر کامیاب چھ ایٹمی دھماکے کر دیئے۔ اس وقت میاں نوازشریف وزیراعظم تھے۔ جاتی امرا میں طویل عرصے سے گوشہ نشین ان کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ یوم تکبیر ہر سال نوازشریف کی اپنی مٹی سے وفا کی داستاں سناتا ہے، جو وفاؤں سے شروع ہو کر جعلی سزاؤں پر ختم ہوتی ہے، سلام ہے نوازشریف پر کہ کوئی مشکل، کوئی قربانی نوازشریف کی خدمت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی اور نہ انشاء اللہ آئندہ بنے گی، پاکستان زندہ باد۔ افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو کم از کم جوہری دفاعی صلاحیت حاصل کی اور خطے میں طاقت کے توازن کو بحال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لیے کوششیں کرنے والے تمام افراد کو سیلوٹ پیش کرتے ہیں اور ایٹمی پروگرام کے خالق، سائنسدانوں اور انجینئرز کو بھی سلام پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ پاکستان کو آج کے دن ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل ہوا، ہماری ایٹمی قوت عوام کے تحفظ و سلامتی کی ضامن ہے۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے مزید کہا قومی وقار اور سالمیت ہمارے لیے سب سے مقدم ہے۔
ایٹمی دھماکوں کے وقت جنرل جہانگیر کرامت چیف آف آرمی سٹاف تھے، بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد فوج اور میاں صا حب ایک ہی صفحے پر تھے لیکن امریکہ کی خواہش تھی کہ پاکستان بھارت کی تقلید نہ کرے لہٰذا امریکی صدر بل کلنٹن نے گاجر اور ڈنڈے کی پالیسی اختیار کی۔ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے عوض پاکستان کو بھاری امریکی امداد سے نوازنے کا وعدہ کیا گیا اور دھماکے کرنے کی صورت میں اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دی گئی اور ایسا ہی کیا گیا۔ پاکستان کو 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد مختلف قسم کی انتہائی سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ" ناکامی یتیم کی طرح ہوتی ہے جو یک وتنہا رہ جاتی ہے جبکہ کامیابی کے کئی باپ بن جاتے ہیں "۔ ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے نوازشریف نے وزیراعظم ہاؤس میں سینئر صحافیوں کا مشاورتی اجلاس بلایا جس میں محترم مجید نظامی اور میں بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے سب صحافیوں کی رائے لی۔ دو صحافیوں کے سوا سب نے کہا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کر دینے چاہئیں۔ نظامی صاحب نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ میاں صاحب آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو آپ کا دھماکہ ہو جائے گا۔ ان کی بات درست تھی اگر وہ دھماکہ نہ کرتے تو قوم اور فوج ان کی چھٹی کرا دیتی۔ ڈان کے ایڈیٹر احمد علی خان مرحوم جن کے پراگریسو خیالات ڈھکے چھپے نہیں تھے نے مشورہ دیاکہ دھماکے نہ کئے جائیں لیکن سب سے حیران کن موقف مجیب الرحمن شامی کا تھا چونکہ ان کے اس وقت کے دائیں بازو کے نظریات واضح تھے لیکن انہوں نے دھماکے نہ کرنے کا مشورہ دے دیا۔ پاکستان میں ایک بہت بڑی لابی ایٹمی دھماکوں کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتی تھی۔ بہرحال شامی صاحب کو داد دینا پڑے گی کہ انھوں نے اپنا موقف بغیر کسی مصلحت کے بیان کر دیا۔ بڑے سیاستدانوں میں ائرمارشل (ر) اصغر خان ایٹمی دھماکے کے مخالف تھے۔ ایک اور شخصیت، سائنسدان پرویز ہود بھائی آ ج تک ایٹمی پروگرام کے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام کی نہیں عوام کی اقتصادی حالت بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مجید نظامی مرحوم نے ایٹمی دھماکوں کا سہرا اپنے سر سجایا۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کر لیا کہ ایٹم بم الماری میں سجانے کے لیے نہیں بنایا اسے بھارت پر پھینک دینا چاہیے۔ وہ اکثرکہا کرتے تھے کہ مجھے میزائل کے ساتھ باندھ کر بھارت پر پھینک دیا جائے، وہ ٹینک میں سوار ہو کر بھارت جانے کے خواہشمند تھے۔ ان کا یہ موقف میاں نوازشریف کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا کیونکہ وہ خود کو ایٹمی پروگرام کا فادر سمجھتے ہیں، اس حوالے سے میاں نوازشریف نے مجھ سے گلہ بھی کیا۔
اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب بزرگوار سرتاج عزیز جو میاں نوازشریف کے قریبی ساتھی اور مجید نظامی کے بچپن کے دوست تھے نے2009ء میں ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا کہ"پاکستان کے خواب اور حقیقتیں" اس میں تاریخی حوالوں سے انہوں نے ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ میاں نوازشریفکو دیا جس پر نظامی صاحب اپنے یار غار سے ناراض ہو گئے۔ 2009ء میں ہی جب میں دی نیشن، کا ایڈیٹر تھا تو یوم تکبیر کے موقع پر مجھ پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کر دیا گیا اوراس پر مجید نظامی کی طرف سے تحریری وارننگ دی گئی کہ یوم تکبیر پر خصوصی ضمیمہ شائع نہ کرنے سے ایسا لگتا ہے کہ دی نیشن پاکستان کا نہیں بھارت کا اخبار ہے۔ میں نے انہیں زبانی وضاحت دی کہ دی نیشن نے کبھی یوم تکبیر پر ضمیمہ شائع نہیں کیا اس پر معاملہ رفع دفع ہو گیا۔
پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ 1972ء میں اقتدار میں آتے ہی انہوں نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، اگرچہ یہ سلسلہ انہوں نے ایوب خان کی کابینہ میں بطور وزیر فیول، پاور اینڈ نیچرل ریسورسز ہی شروع کر دیا تھا۔ لیکن مشرقی پاکستان کھونے کے بعد بھٹو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے خواب کو جلداز جلد شرمند ہ تعبیر کرنا چاہتے تھے۔ 1974ء میں جب بھارت نے نام نہاد "پرامن" ایٹمی ٹیسٹ کیا تو اس میں کوئی شک نہ رہا کہ اب پاکستان کو ایٹمی طاقت بننا ہی پڑے گا۔ اس مقصد کے لیے بھٹو نے پہلی میٹنگ ملتان میں ایک خفیہ مقام پر کی جس کا بعدازاں ان کے پریس سیکرٹری خالد حسن نے ایک برطانوی ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں بھانڈا پھوڑ دیا۔ 1975ء میں ڈاکٹر عبد القد یر خان جو گیس سینٹری فیول ٹیکنالوجی کے ماہر تھے اور ہالینڈ کی یورینیم افزود کرنے والی ٹیکنالوجی فیکٹری میں کام کرتے تھے، بھٹو انہیں پاکستان لے آئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر پر الزام لگا کہ وہ یورینیم ٹیکنالوجی کی چوری کے مرتکب ہوئے ہیں اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی نقل وحرکت آج تک محدود ہے۔ کہوٹہ کے مقام پر ایٹمی افزودگی کا جو سینٹر بنایا گیا اس کے انچارج ڈاکٹر عبدالقدیر ہی تھے۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی ایٹمی پروگرام کو بھرپور طریقے سے جاری رکھا۔
1983ء میں پاکستان نے ایٹم بم بنانے کے قابل یورینیم پر دسترس حاصل کر لی، جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کے دباؤ کا بھرپور مقابلہ کیا۔ ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی اور تعداد میں پاکستان بھارت اور برطانیہ سے آ گے ہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو شمالی کوریا کی خفیہ مدد حاصل تھی جس کا کریڈٹ اس وقت کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو جاتا ہے۔ وہ 90ء کی دہائی میں کئی بار شمالی کوریا کے میزائل ٹیکنالوجی کے ماہرین سے ملتی رہیں۔ 1993ء میں بے نظیر بھٹو نے پیانگ یانگ کا دورہ بھی کیا لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ایٹمی پروگرام کے بانیوں اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والوں کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا؟ ۔ ایٹمی دھماکوں کے قر یباً ڈیڑھ سال بعد اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل پرویزمشرف نے وزیراعظم نوازشریف کو معزول اور پھر جلا وطن کر دیا۔ قبل ازیں ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء الحق نے سازش کے تحت فارغ کر کے تختہ دار پر لٹکا دیا۔ بے نظیر بھٹو بھی مشرف دور میں ہی لیاقت باغ میں دہشت گردی کا نشانہ بن گئیں۔ ہم نے ڈاکٹر عبدالقد یر کے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا آج ڈاکٹر عبدالقد یرکو اپنے ہی ملک میں گھومنے پھرنے کی آزادی نہیں ہے اور حال ہی میں انہوں نے پابندیاں اٹھانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔ پرویز مشرف نے جو امریکہ کے پٹھو بنے رہے اپنی جان چھڑانے کے لیے ان سے ٹیلی ویژن پر معافی منگوائی۔ ایٹمی دھماکوں کے 22 سال بعد ہم نے کیا کھویاکیا پایا؟ یقینا ایٹمی دھماکے بھارتی دھماکوں کے بعد ناگریز ہو گئے تھے اور 1998ء کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی جنگ نہ ہونا بھی ایٹمی طاقت ہونے کے مرہون منت ہے لیکن دوسری طرف ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اقتصادیات سمیت ہمارا ہر شعبہ رجعت قہقری کا شکار ہے گویا کہ محض ایٹمی قوت ہونا طاقت کی معراج نہیں ہے۔