میڈیا پر کاٹھی؟
چیف جسٹس آ ف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے11ستمبر کو پاکستان کے نئے عدالتی سال کے موقع پر اپنے خطاب میں متنبہ کیا تھا کہ ملک میں اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے آ وازیں اٹھ رہی ہیں، کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ بد اعتمادی سے پید اہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔ ابھی اس خطاب کی بازگشت جاری تھی کہ وفاقی کابینہ نے حالیہ اجلاس میں میڈیا کے لیے خصوصی عدالتیں بنانے کا اعلان کر کے ایٹم بم گرا دیا۔ معاون خصوصی اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان حکومتی ترجمان کے طور پر جب کابینہ کے فیصلوں کا اعلان کر رہی تھیں تو ان کا دعویٰ تھا کہ یہ سب کچھ پابندیاں لگانے کی خاطر نہیں بلکہ میڈیا کی بہتری کے لیے کیا جا رہا ہے، اس معاملے میں محترمہ محض حکومتی ترجمان نہیں بلکہ وزارت اطلاعات کا قلمدان ہونے کی وجہ سے سٹیک ہولڈر بھی ہیں۔ اگر یہ سب ان کی آشیرباد اور ملی بھگت سے ہوا ہے تو انتہائی افسوسناک ہے۔ ویسے وزیر اطلاعا ت کو ہی اس مجوزہ کالے قانون کے حوالے سے ذمہ دار ٹھہرانا زیادتی ہو گی اور یہ توقع کرنا کہ کوئی وزیر اپنے باس وزیراعظم کے فیصلے سے اختلاف کر کے ازخود مستعفی ہو جائے گا ایں خیال است محال است وجنوں۔ محترمہ جو پیپلزپارٹی چھوڑ کر اسمبلی میں نہ ہونے کے باوجود بڑے پاپڑ بیل کر وزیر بنی ہیں وہ کیونکر مستعفی ہونگی۔ فواد چودھری جب وزیر اطلاعا ت تھے توانھوں نے پی اے آر ایم کا شوشہ چھوڑا تھا جس کا مقصد الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا تھا۔ ان کے جانے کے بعد یہ معاملہ کچھ دب سا گیا لیکن لگتا ہے کہ میڈیا سے عمران خان صاحب کی خفگی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ میڈیا سے اگر حکمران خوش ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت کو انڈر چیک رکھنے کا منصبی فریضہ بخوبی ادا نہیں کر رہا۔ جب ایک اینکر نے ان کی ازدواجی زندگی کے حوالے سے غلط خبر دی تو وہ کچھ زیادہ ہی برہم ہو گئے۔ خان صاحب کا غصہ جائز تھا لیکن اس حوالے سے سزا کچھ زیادہ ہی تھی، متذکرہ چینل کو 3روز کے لیے بند کرا دیا گیا اور بالآخر متنازعہ پروگرام کرنے والے اینکر کی ہی چھٹی ہو گئی اور وہ عارضی جلاوطنی میں چلا گیا حالانکہ حکمرانوں کی عظمت بھی یہی ہوتی ہے کہ ذاتی حملوں پر ناراضگی کا اظہار تو کیا جائے لیکن عفوودرگزر سے بھی کام لیا جائے اور وارننگ کی حد تک معاملہ ٹھیک ہوتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ کابینہ کے جس اجلاس میں میڈیا کے خلاف خصوصی قانون بنانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا اس میں مبینہ طور پر خان صاحب نے بھی میڈیا کو بے نقط سنائیں، اس پر کابینہ کے ارکان کورنش بجا لائے۔ نہ جانے حکومت میں آتے ہی سیاستدانوں کی نظروں سے یہ بات کیوں اوجھل ہو جاتی ہے کہ وہ تواس میڈیا کو منفی اور لفافہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں جو اپوزیشن کے دور میں ان کی پذیرائی کرتا رہا۔ بالخصوص خان صاحب کے معاملے میں تو میڈیا نے حد ہی کر دی۔ ان کا 126روز کا دھرنا ہر روز شام کو بلا ناغہ براہ راست دکھایا جاتا تھا، بالکل ویسے ہی ایک دور میں بانی ایم کیو ایم کی مغلظات الیکٹرانک میڈیا پر تمام پروگرام موخر کر کے لائیو دکھائی جاتی تھیں لیکن ایک بنیادی فرق یہ تھا کہ خان صاحب کے معاملے میں میڈیا رضا کارانہ طور پر اسے خبر سمجھ کر چلا رہا تھا جبکہ ایم کیو ایم کے بانی کی کوریج دھونس کی بنا پر دکھائی جاتی تھی لیکن اس وقت کی حکومت نے تواس پر کوئی پابند نہیں لگائی حالانکہ نوازشریف بھی چاہتے تو کوئی کالا قانون لا کر یا جس انداز میں مریم نواز کو چینلز پر بین کیا گیا ہے خان صاحب کا بھی بلیک آؤٹ کر دیا جاتا لیکن میاں صاحب کو خوب معلوم تھا کہ وہ ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہونگے اور وہ اپوزیشن کے ایک حصے کی بالخصوص پیپلزپارٹی کی ہمدردیاں بھی کھو بیٹھیں گے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کے اتنے اچھے اور پیارے میڈیا کو اب اقتدار کے ایوانوں سے مطعون کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ گزشتہ ایک برس سے زائد کے اپنے دور اقتدار میں تحریک انصاف کی حکومت ڈیلیور کرنے سے یکسر قاصر رہی ہے۔ اس کا یہ بیانیہ کہ سابق حکومتیں بیڑہ غرق کر گئی ہیں، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر مشتمل اپوزیشن میںسب چور ہیں لہٰذا انھیں نیب کے تحت اندرکیا جا رہا ہے اورہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں، کچھ پٹ سا گیا ہے۔ اس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ میڈیا پر ہر روز شام کو فروکش ہونے والے خا ن صاحب کے حواری تجزیہ کاروں نے جو پہلے عمران خان کی مالا جپتے اور اپوزیشن کو سخت ترین زبان میں مطعون کرتے رہتے تھے اب اچانک پینترا بدل لیاہے۔ یہ خواتین وحضرات اب اتنی ہی سخت زبان میں خان صاحب کو ان کی مبینہ ناکامیاں اور تضادات تواتر سے گنوا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پرفیک نیوز وبا کی طرح پھیل گئی ہے لیکن اس ناپسندیدہ روایت کا آغاز تو "خود کھلاڑیوں، نے کیا تھا۔ یقینا میڈیا کو نہ تو مادر پدر آزاد ہونا چاہیے اور نہ ہی شتر بے مہارکی طرح ہر شخص کی پگڑی اچھالنی چاہیے۔ اس کا مداوا کرنے کے لیے ملک میں قانون اور عدالتیں پہلے سے موجودہیں۔ ایک آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بننے والا بدنام زمانہ پر یس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس سی پی این ای اور دیگر سٹیک ہولڈرز کی کاوشوں سے 1988ء میں ختم ہوا تھا، اس وقت بھی میں سی پی این ای کا صدر تھا۔ آ ج جو آزادی نظر آ رہی ہے اس آرڈیننس کی تنسیخ کا ہی نتیجہ ہے۔ اس کالے قانون کے تحت تو کوئی نیا اخبار بھی نہیں نکالا جا سکتا تھا۔ افسوسناک بات ہے کہ ایک منتخب سیاسی حکومت جو جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتی ہے میڈیا پر کاٹھی ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔ اگر پیمرا اور سیلف ریگولیٹری پریس کونسل غیرموثرہے تو انھیں موثر بنانے کے لیے میڈیا تنظیموں سے بات چیت ہو سکتی ہے لیکن یہ دعویٰ کر کے کہ پاکستان میں میڈیا برطانیہ سے بھی زیادہ آزاد ہے، کو دباؤ میں لانے کی کوشش بدنیتی پر مبنی لگتی ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان نے پہلے تو یہ کہا کہ اس حوالے سے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورہ کیا گیا ہے لیکن اس کی دوٹوک تردید کی گئی تو کہا کہ مشاورت کی جائے گی اور یہ بھی کہا کہ ابھی قانون کا ڈرافٹ بھی نہیں بنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈرافٹ بھی تیارنہیں ہوا تو کابینہ نے کس کی منظور ی دی ہے۔ معاون خصوصی اطلاعات نے میڈیا میں تقسیم کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑا کہ مجوزہ ٹریبونلز تو ورکروں کو 90روز میں ان کے حقوق دلانے کے لیے بنائے جا رہے ہیں لیکن صحافیوں کی تنظیمیں بھی ان کے ٹریپ میں نہیں آئیں اور انھوں نے مجوزہ کالے قانون کو مستردکر دیا ہے، انھیں معلوم ہے کہ ویج بورڈ اور واجبات کے حوالے سے آ ئی ٹی این ای کا ادارہ موجود ہے جو فعال بھی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اس قانون کے خلاف اندرونی اور بین الاقوامی طور پر شدید ردعمل کے بعد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے کلیدی خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ سوموٹو نوٹس ازخود لیاجاتا ہے۔ میڈیا کی جو درگت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے سوموٹو نوٹس لینے کا اس سے بہتر اورکون سا کیس ہے۔ سی پی این ای بھی عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے۔