میڈیا پر دباؤ سے نقصان۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے اچھا کیا شدید تنقید کے بعد گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کے حوالے سے آرڈیننس واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ وزیراعظم آفس کے مطابق عمران خان نے اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے اور کیس کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ جی آئی ڈی سی کی مد میں 208ارب روپے کے ٹیکس کی معافی کے حوالے سے خاصی لے دے ہو رہی تھی۔ کا بینہ کے حالیہ اجلاس میں بھی اس کی بازگشت سنی گئی جس پر وزیراعظم عمران خان نے واضح کر دیا کہ کسی کو نوازا نہیں جائے گا کیونکہ میڈیا پر آنے والی خبروں سے یہ تاثر ابھرتا تھا کہ چار بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں کے مالکا ن کے ذمے واجب الادا رقم معاف کر دی گئی ہے جبکہ وہ کمپنیاں جنہوں نے اپنے ذمے واجب الادا سیس کی رقم اداکی ہے ان کو ٹیکس ادا کرنے کی بلاواسطہ سزا دی گئی ہے۔ اس حوالے سے کنفیوژن وزیر توانائی وپٹرولیم عمرایوب اور معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کے بیانات سے بڑھی۔
دال میں کچھ کالا بلکہ بہت زیادہ کالا ہو گا جس کی بنا پر حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ہے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان نے حسب روایت سارا ملبہ" شرپسند" میڈیا پر ڈال دیا۔ ان کے مطابق میڈیا کے ایک حصے نے دانستہ طور پر اس معاملے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ ہمارے ہاں جب بھی کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو سیاستدان اپنی بوالعجبیوںکا ملبہ میڈیا پر ڈالنے کے عادی ہیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت کی میڈیا پالیسی تو نرالی ہے۔ جب سے تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو دھڑ رگڑا لگانا اور مطعون کرنا روایت سی بن گئی ہے۔ اخبارات اور الیکٹرانک نیوز چینلز غالباً ایک غیر علانیہ ایجنڈے کے تحت شدید دباؤ کا شکارہیں۔ ایسی ریڈ لائنز متعین کر دی گئی ہیں کہ جنہیں اگر کسی نے عبور کیا تو نہ صرف میڈیا ہاؤسز بلکہ صحافیوں کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔ کئی کالم نگار اور اینکر تحریر وتقریر کی آزادی سے محروم ہو گئے ہیں لیکن حکومت اور نہ ہی کوئی اور فریق اس ضمن میں اونرشپ لینے کو تیار ہے۔ آخر وہ کون سا" خفیہ ہاتھ" ہے جس نے وطن عزیز میں آزاد میڈیا کو دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔ ایسا تو آمرانہ ادوار میں بھی نہیں ہوتا تھا، کم از کم میڈیا کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ کون ان سے ناخوش ہے اور یہ کارروائی کیوں کی جا رہی ہے؟۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں تو سنسرشپ کا نفاذ تھا بلکہ ایک مرحلے پر تو پری سنسر شپ بھی تھی لیکن یہ تو ماشاء اللہ جمہوری دور ہے جس میں بعض چینلز کو خاموشی سے آ گے پیچھے کر دیا جاتا ہے یا پیمرا انہیں سرے سے بند ہی کر دیتی ہے اور جب تک وہ سجدہ سہو نہیں کرتے ان کی گلو خلاصی نہیں ہوتی۔ سرکاری اشتہارات کی تقسیم بھی کچھ اسی اصول کے تحت کی جاتی ہے، ویسے بھی حکومت نے اشتہارات کی مد میں اپنے بجٹ کم دیئے ہیں اور ملک میں شدید کساد بازاری کی بنا پر نجی شعبے کے اشتہارات کا حجم بھی کم ہو گیا ہے۔ نتیجتاً میڈیا آزادی سلب ہونے کے علاوہ شدید اقتصادی بحران کا بھی شکار ہو گیا ہے۔ وقت نیوز چینل اور ماہنامہ ہیرلڈ بند ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک چینل سے جس کے مالک کے وسیع ترتعلیمی نیٹ ورک کے علاوہ دیگر کاروباری ومالی مفادات بھی ہیں بیک جنبش قلم سو سے زائد کارکنوں کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ ڈاؤن سائزنگ کا عمل"92"جیسے معدودے چند چینلز کے سوا ہر جگہ جاری ہے۔ پرنٹ میڈیا کا اس سے بھی برا حال ہے اور بعض اداروں نے تو یہ وتیرہ ہی بنا لیا ہے کہ تین ما ہ کی تنخواہ نیچے رکھو۔ اسی بنا پر جو کارکن برسر روزگار بھی ہیں شدید ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں وہ اپنے اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہیں۔
ایک طرف تو حکومت کہتی ہے کہ میڈیا آزاد ہے اور دوسری طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کیونکہ میڈیا نجی شعبہ ہے اس لیے حکومت ان کی کیونکر مددکر سکتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اخبارات پر ویج بورڈ کی کاٹھی ڈال دی جاتی ہے۔ گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا۔ وہ اخبارات جو تنخواہیں نہیں دے رہے وہ ویج بورڈ ایوارڈ کیسے نافذ کریں گے؟۔ یہ تو میڈیا کی اپنی بحرانی کیفیت ہے لیکن حکومت کا اپنا پیغام میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی بھی کوئی مربوط حکمت عملی نہیں ہے۔
خان صاحب میڈیا کو خاصی اہمیت دیتے ہیں اور شاید اسی لیے انھوں نے میڈیا کے حوالے سے مشاورت کے لیے اپنے ارد گرد بھا ن متی کا کنبہ جمع کر رکھا ہے۔ یہ خواتین وحضرات اپنے اپنے ڈھب کے مطابق باس کو رائے دیتے رہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ قرب شاہ کی خاطر ایک دوسرے کی ٹانگ بھی کھینچتے رہتے ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری حکومت کا پیغام مقدور بھر ناظرین اور قارئین تک پہنچا رہے تھے لیکن چونکہ ان کی وزیراعظم کے پرانے ساتھی اور دوست ومشیر نعیم الحق سے نہیں نبھتی تھی لہٰذا انھیں وزارت اطلاعات سے فارغ کر دیا گیا اور ان کی جگہ محترمہ فردوس عاشق اعوان نے لے لی جو اپنے تئیں حکومت کی ترجمانی کے لیے پورا زور لگا رہی ہیں اور صبح سے لے کر رات تک مختلف چینلز پرحاضر باش ہوتی ہیں۔ دوسر ی طرف ترجمانوں کی ایک فوج ظفر موج دن رات اپوزیشن کے خلاف دشنام طرازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گالی گلوچ کی دوڑ میں پیپلزپارٹی چھوڑ کر آئے ہوئے خان صاحب کی ٹیم کے ارکان کامیاب نہیں ہوئے۔ صمصام بخاری اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود بطور وزیر اطلاعات پنجاب اس حوالے سے اپنا سکہ جمانے میں ناکام رہے اور انہیں وزارت اطلاعات کے قلمدان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ حال ہی میں ندیم افضل چن نے بھی بطور ترجمان بھاری پتھر چوم کر چھوڑ دیا ہے۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان بھی پیپلز پارٹی دور میں وزیر اطلاعات رہی ہیں۔ ان کی شبانہ روز محنت کے باوجود ان کے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے کلچر میں فٹ نہیں ہوتیں۔ اس پر مستزاد سوشل میڈیا پر اپوزیشن کے سیاستدانوں کے علاوہ میڈیا پر تنقید کرنے والوں کی ایک مربوط طریقے سے کلاس لی جاتی ہے۔
لگتا ہے کہ خان صاحب خود بھی اس میڈیا پالیسی سے مطمئن نہیں ہیں اور حال ہی میں انہوں نے مبینہ طور پر یہ ہدایت کی ہے کہ گالی گلوچ کے بجائے حکومت کا مثبت امیج اجاگر کیا جائے۔ یقینا ان کی بات درست ہے لیکن عملی طور پر کیا ہو رہا ہے؟ حال ہی میں گورنر ہاؤس لاہور میں کچھ میڈیا ارکان کو وزیراعظم سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا۔ لاہور کے صحافی خوش تھے کہ چلو ان کی بھی لاٹری نکل آئی، ان میں سے بہت سے خواتین وحضرات جب گورنر ہاؤس پہنچے تو انھیں اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں مطلع کیا گیا کہ وزیراعظم کی بریفنگ منسوخ کر دی گئی ہے۔ میاں نواز شریف تو میڈیا کے مخالفانہ سوال جواب کی وجہ سے سوائے اپنے منظور نظر صحافیوں کے، میڈیا سے ملنے سے ہی کتراتے تھے۔ اپنے حالیہ چار سالہ دور وزارت عظمیٰ میں انہوں نے میڈیا سے ایک بار بھی باقاعدہ ملاقات نہیں کی لیکن خان صاحب تو نہایت پرُ اعتماد طریقے سے میڈیا کو ہینڈل کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے میڈیا منیجرز نے انھیں اسلام آباد کے چند پرو گورنمنٹ میڈیا پرسنز تک ہی محدود کر دیا ہے، اس کا نقصان حکومت کو ہی ہو گا، اسی بنا پر وزیراعظم کو میڈیا کو دباؤ میں رکھنے کے بجائے اِسے انگیج کرنے کی پالیسی اپنانی چاہیے اور اس کے لیے مختصر لیکن جامع اور مربوط ٹیم کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔