میڈیا پر کنٹرول؟
ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی ٹویٹر ہینڈل سے جو ٹویٹ کیا ہے وہ مبنی برحقائق ہے۔ اگرچہ انہوں نے کسی خصوصی سوشل میڈیا پوسٹ یا ٹویٹ کا ذکر نہیں کیا لیکن انہوں نے درست کہا ہے کہ کسی بھی ادارے، شخص یا پیشے کے خلاف کھلم کھلا بیان یا ٹرینڈ قابل مذمت ہے۔ غالباًیہ ٹویٹ چند روز پہلے آنے والی اس ٹویٹ کے حوالے سے جس میں سرکردہ صحافیوں کی تصویر کے ساتھ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان "غدار صحافیوں "کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔ انہوں نے اس ٹویٹ کا بلاواسطہ حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھاان صحافیوں میں بعض مسلسل پی ٹی آئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے درست کہا ہے کہ پاک فوج، آزاد روش صحافیوں اور دیگر شخصیات کی ذاتی کردار کشی سوشل میڈیا پر ایک وتیرہ بن گئی ہے۔ یقیناً اختلاف رائے رکھنا اور اس کااظہار کرنا ہر شخص کا حق ہے لیکن گالی گلوچ، ذاتی طور پر مطعون کرنا اور کسی ایک طبقے، شخص یا ادارے کے خلاف نفرت پھیلانا جمہوریت کی بقا کیلئے ایک انتہائی تشویشناک امر ہے۔ مجھے خود اس کا کئی مرتبہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 92 نیوز پر اپنے پروگرام "ہو کیا رہا ہے"میں اگر حکمران جماعت پر اصولی اختلاف رائے یا نکتہ چینی کی جائے تو کئی جعلی یا حقیقی ناموں سے بنے ٹویٹر اکاؤنٹس سے گالی گلوچ شروع کر دی جاتی ہے۔ برادرم حامد میر میرے دوست وارث میر مرحوم کے صاحبزادے ہیں، ان کا شمار ملک کے چیدہ اینکروں میں ہوتا ہے، بھی اس رجحان سے اکتا سے گئے ہیں۔ حال ہی میں ان کے پروگرام میں سابق صدر آصف زرداری کا انٹرویو شروع ہوتے ہی روک دیا گیا۔ حامد میر نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ہمیں گرفتاریوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں یا مطالبات کر رہے ہیں تو ایسا مت کریں اور آئیں ہمیں گرفتار کریں کیونکہ میں گرفتاری کے لیے تیار ہوں۔ حامد میر بڑے حوصلے والے صحافی ہیں اور انہوں نے پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا تک کے سفر میں خاصے مدوجزر دیکھے ہیں۔ ان کا جذباتی ہو جانا اور حامد میر آن لائن کے حوالے سے ویڈیو پوسٹ کر دینا خاصا معنی خیز ہے۔ میں حامد میر کو اس وقت سے جانتا ہوں جب 1984 میں زمانہ طالب علمی میں ہی انہوں نے اپنے ایک آرٹیکل میں میرے والد حمید نظامی مرحوم کے ایوب خان کی آمریت کے دور میں حق و صداقت کا پرچم بلند رکھنے کا تذکرہ کیا تھا، نیز اسی آرٹیکل میں ایوب خان اور ضیا الحق کے ادوار کی گھٹن کا موازنہ بھی کیا تھا، اس آرٹیکل پر انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ یقیناً آزادی، اظہار رائے جس میں تقریروتحریر بھی شامل ہے جمہوریت کا حسن اور خاصا ہے اور اس کو سلب کرنے کی کوششیں اگر وقتی طور پر کامیاب بھی ہو جائیں تو اس سے فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہوگا۔ محترمہ مریم نواز کی حالیہ پریس کانفرنس جس میں انہوں نے ایک ویڈیو کلپ سنا کر دعویٰ کیا تھا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک مبینہ طور پر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ براہ راست دباؤ اور بلیک میلنگ کے نتیجے میں دیا تھا۔ یہ ویڈیو جج صاحب کیساتھ اچھی شناسائی رکھنے والے ناصر بٹ جو حکومتی ترجمانوں کے مطابق سنگین جرائم میں ملوث رہا ہے اور اب میاں نواز شریف کا پرجوش حامی ہے، کی کاوش کا نتیجہ تھی۔ جج صاحب نے اپنے وضاحتی بیان میں الزامات کی تردید کرتے ہوئے ویڈیو کو جعلی، جھوٹی اور مفروضوں پر مبنی قرار دیا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا ہے کہ ویڈیو میں حقائق کو توڑ مروڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے ایک ٹویٹ میں درست کہا ہے کہ پاکستان کی مدوجزر سے بھری ہوئی تاریخ میں سیاسی عزائم حاصل کرنے کیلئے جوڈیشری کے استعمال کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ 1979ء میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ہوا اور لاہور ہائیکورٹ نے 1988ء میں بے نظیر بھٹو کو اس وقت کی شریف برادران کی حکومت کے ایما پر نشانہ بنایااور اس حوالے سے جسٹس(ر) قیوم ملک جو کہ مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز ملک کے بڑے بھائی ہیں، کی میاں شہباز شریف کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو تاریخ کا حصہ ہے۔ 1997ء میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں نواز لیگ کے رہنماؤں سمیت کارکنوں کاسپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اس ویڈیو کے قانونی محرکات کا فیصلہ تو فرانزک آڈٹ اور مزید تحقیقات کے بعد ہی ہو سکے گا۔ تاہم پیمرا نے اس ضمن میں ایک چھکا مارا ہے۔ پیمرا نے 21 ٹی وی چینلز کو مریم نواز کی متذکرہ پریس کانفرنس "ایڈیٹنگ" کے بغیر براہ راست چلانے پر نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اس کے مطابق یہ تقریر اعلیٰ عدالتوں اور ریاستی اداروں کے خلاف ہے۔ پیمرا کے مطابق یہ اس کے بنائے ہوئے ریگولیٹری قوانین اور ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر پیمرا کا ریگولیٹری میکنزم سنسر شپ میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ جب ملک میں پرویز مشرف دور میں نجی شعبے میں الیکٹرانک میڈیا کا احیا ہوا تو پیمرا بھی وجود میں آیا۔ اس کا مقصد ٹی وی چینلز کی ریگولیشن تھا جیسا کہ جمہوری ممالک میں ایسے ادارے کرتے ہیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر کہ یہ حکومت وقت کا آلہ کار نہ بن جائے اسے آزاد اور خود مختار حیثیت دی گئی لیکن عملی طور پر جہاں عدلیہ سمیت اکثر اداروں کی آزادی کو سلب کرنا حکومتوں کا وتیرہ رہا ہے، اسی بنا پر پیمرا ریگولیٹری کے بجائے ایک کنٹرولنگ اتھارٹی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے سربراہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ، پولیس افسر اور وزارت اطلاعات کے اہلکار رہے ہیں۔ موجودہ چیئرمین سلیم بیگ انتہائی قابل افسر ہیں۔ حکمرانوں نے کس طرح پیمرا کو تابع مہمل بنایا اس کی بدترین مثال ابصار عالم کا بطور چیئرمین تقرر تھا۔ موصوف قواعد و ضوابط اور اپنی کوالیفکیشن کے لحاظ سے ان پر پورا نہیں اترتے تھے۔ وہ محض گریجوایٹ ہونے کے ناتے اس پوسٹ کے اہل نہیں تھے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے دست راست صحافی کو نوازنے اور پیمرا کوپوری طرح حکومت کی گرفت میں رکھنے کیلئے کوالیفکیشن کی شرائط بدل کر اورقواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر ان کی تقرری کر دی۔ ویسے تو بہتر ہو گا کہ اس ادارے کی خود مختاری کو حقیقی بنایا جائے۔ جیسا کہ میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کیلئے آزادی کے ساتھ ساتھ کچھ قواعد و ضوابط بھی ہونے چاہئیں لیکن اس استرے کو ناک کاٹنے کیلئے ہر کوئی استعمال کر رہا ہے۔ سائبر ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا کے ناجائز استعمال پر کچھ کارروائیاں تو ضرور عمل میں لائی گئی ہیں لیکن وہ بھی زیادہ تر مخالفین کو دبانے یا کچھ لوگوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کیلئے ہوئیں۔ موجودہ صورتحال میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بے شمار خطرات کا سامنا ہے۔ آزادی، اظہار پر قدغن اور سنسرشپ کی کاٹ تمام آزاد صحافی محسوس کر رہے ہیں۔ کئی کالم نگار اور اینکر ادھر ادھر ہو چکے ہیں لیکن ان پابندیوں کی کوئی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔ حکومت نے ویج بورڈ کا اعلان کرنے میں تو بڑی عجلت سے کام لیا یقیناً ایک اچھا قدم ہے لیکن شاید اخباری صنعت ملک کی واحد صنعت ہے جس کیلئے حکومت اجرت مقرر کرتی ہے۔ کاش ایسی ہی عجلت میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے اور اس کے مالی مسائل حل کرنے کے ضمن میں دکھائی جائے۔