مرکزیت پسندی نہیں!
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نااہلی کے لیے صدر مملکت نے جو ریفرنس دائر کیا تھا وہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے پر سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر وکلا حضرات مٹھائیاں بانٹ رہے تھے کہ متذکرہ فیصلہ عدلیہ کی آزادی اور جمہوری اقدار کی آبیاری کے حوالے سے بہت بڑا اقدام ہے لیکن بعض سیاسی رہنماؤں اور قانون دانوں کی رائے یہ ہے کہ بلاجواز شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بظاہر تو ریفرنس کو کالعدم قرار دے کر قاضی صاحب کی جان چھڑوائی ہے لیکن یہ پخ لگا دی ہے کہ ان کی بیگم صاحبہ کی پراپرٹیز پر حتمی فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی اور اس حوالے سے ایف بی آر کو اپنی رپورٹ مرتب کر کے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ گویا کہ قاضی فائز عیسیٰ اور اْن کے اہل خانہ کی مشکلات ختم ہوتی نظر نہیں آ رہیں بالکل اسی طرح جیسے میاں نوازشریف کی نااہلی کے مقدمے سے جان چھڑانے کے لیے سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ایک جے آئی ٹی بنا دی گئی تھی۔ شاید اسی بنا پر معروف وکیل بابر ستار نے جو خود بھی جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل تھے نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ میں نے جسٹس فائز عیسیٰ سے درخواست کی ہے چونکہ میں بیرون ملک ہوں لہٰذا آپ کی لیگل ٹیم میں مزید شامل ہونے سے قاصر ہوں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں شادیانے بجانے والی کوئی بات نہیں۔ بدقسمتی سے جتنے حالات بدلتے ہوئے نظر آئیں حقیقی طور پر جوں کے توں رہتے ہیں۔ بابر ستار کے مطابق اس فیصلے کے اثرات سب پر واضح ہونے چاہئیں۔ لائن میں لگ جاؤ یا پراسیکیوٹ ہو کر نکال دئیے جاؤ۔ شاید بابر ستار تھوڑے جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اپنیپراپرٹی کا کھرا دینے کے حوالے سے بیان جوسب ججوں نے تسلیم کیا ہے کے بعد شہزاد اکبر کا ان کے خلاف "جہاد " شاید کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے۔ بعض باتیں اس وقت عیاں ہونگی جب تفصیلی فیصلہ سامنے آئے گا۔ اس کے باوجود یہ بات حیران کن ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس ایک سال تک چلتا رہا۔ اس دوران وہ اور اْن کے اہل خانہ ذہنی اذیت میں مبتلا رہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ ریفرنس کو جلدی نبٹا دیا جاتا۔
یہ بات سوالیہ نشان ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو کس قصور کی پاداش میں سزا دینے کی کوشش کی گئی کیونکہ وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں اب بھی بہت سے ان کے قریبی ساتھی بیٹھے ہیں جن کی بیرون ملک کئی کئی پراپرٹیز ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی تو کیا نوٹس دینے کی بھی نوبت نہیں آئی۔ بقول اْن کے وکیل منیر اے ملک، جسٹس فائز عیسیٰ کا ستارہ اس وقت گردش میں آیا جب انہوں نے 2017ء میں فیض آباد دھرنا کے حوالے سے کمیشن کے سربراہ کے طور پر برملا اس دھرنے میں ایجنسیوں کے رول کی نشاندہی کی۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت انہیں راستے سے ہٹانے پر تلی ہوئی تھی۔ بعض سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے چونکہ جسٹس فائز عیسیٰ آزاد رو جج ہیں اور 2023ء میں سنیارٹی کے لحاظ سے وہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونگے لہٰذا انھیں اس سے پہلے ہی راستے سے ہٹانا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم بعض حوالوں سے یہ بہت دور کی کوڑی لگتی ہے کیونکہ تکنیکی طور پر تو 2023ء عام انتخابات کا سال ہوگا۔ جسٹس فائز عیسیٰ، قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے دست راست قاضی محمد عیسیٰ کے فرزند ہیں جنہوں نے قائد کے حکم پر بلوچستان میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی۔ اگر ایک چھوٹے صوبے سے محب وطن خاندان کا چشم و چراغ جو قابل جج بھی ہے قانونی اور آئینی طریقے سے چیف جسٹس بنتا ہے تو اس کی راہ میں رکاوٹیں نہیں پیدا کرنی چاہئیں۔
دراصل ہماری حکومتوں کا خواہ وہ جمہوری ہوں یا فوجی یا نیم فوجی عمومی طور پر چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے ساتھ رویہ امتیازی ہی رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک پارلیمانی وفاقی متفقہ آئین دیا جس کے لیے اس وقت کے اپوزیشن رہنماؤں نے جن میں ولی خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور اور چودھری ظہور الٰہی جیسی شخصیات شامل تھیں مکمل ساتھ دیا لیکن اس آئین کے تحت وزیراعظم بننے کے بعد ایک سال کے اندر اندر انہوں نے بلوچستان میں ن پ پ اور جے یو آئی کی حکومت کو برطرف کر دیا جس کے نتیجے میں پورے چار برس تک خانہ جنگی ہوتی رہی جو بالآخر بھٹو کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی لیکن ہم نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کی شخصیات کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غالباً وزیراعظم عمران خان کو قیام پاکستان کی تحریک کا ادراک نہیں ورنہ وہ سندھ میں بیٹھ کر یہ نہ کہتے کہ این ایف سی ایوارڈ، 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں نے وفاق کو بے اختیار اور قلاش کر دیا ہے لہٰذا اس فارمولے اور آئینی ترمیم میں ردوبدل کرنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ آئین کوئی آسمانی صحیفہ تو نہیں ہے تاہم اس میں صرف افہام و تفہیم اور اتفاق رائے سے ہی ترمیم ہو سکتی ہے لیکن فی الحال اس روئیے کا فقدان نظر آتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کووڈ 19 اور اکانومی کے سنگین ترین مسائل حل کرنے پر اپنی بھرپور توجہ دے۔ آج کے پاکستان میں مرکزیت پسندی کے روئیے نہیں پنپ سکتے اور ماضی کی تاریخ اس پر گواہ ہے۔