مقبوضہ کشمیر ۔۔۔۔پاکستان بے بس؟
بھارت جو انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہتا رہا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، اب نریند رمودی کی قیادت میں انتہا پسند ہندو جماعت بھارتیہ جتنا پارٹی نے اپنے انتخابی وعدے پر عمل کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370اور35 اے کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی مقام حاصل تھا اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا تھا۔ اب تک تو بھارت کا اصرار رہا ہے کہ کشمیر پر پاکستان سے مناسب وقت پر دوطرفہ بات کریں گے لیکن عملی طور پر بھارت نے کبھی پاکستان کے لیے اس اہم ترین مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ بات چیت نہیں کی۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے موقع پر ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی، ان کے مطابق نریندرمودی نے اوسا کا میں حالیہ جی 20سربر اہی اجلاس کے دوران درخواست کی تھی کہ کشمیر پر پاکستان سے بات چیت کرا دیں۔ بعدازاں ٹرمپ نے اپنے پہلے بیان میں تھوڑی ترمیم کرتے ہوئے کہا مودی اور عمران خان پوری طرح بات چیت کرنے کے اہل ہیں اور امریکہ ان کی مددکر سکتا ہے۔ لیکن مودی نے تو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے جس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد بھارتی صدر نے توثیق بھی کردی ہے ٹرمپ کی پیشکش کا جواب دے دیا ہے۔ بعض بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فوری فیصلہ کر کے ٹرمپ کی"پیشکش" کا دانستہ جواب دیا ہے۔ اب نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری کے مصداق بھارت یہ کہے گا کہ کشمیر تو کسی دوسرے بھارتی صوبے کی طرح ہی اس کا حصہ ہے، اس پر بات چیت کیونکر ممکن ہو سکتی ہے یہ تو بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔
آرٹیکل 370کے تحت ریا ست جموں وکشمیر کو ایک خصوصی مقام حاصل تھا اور کوئی بھارتی شہری وہاں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا۔ لیکن اب کشمیری مسلمانوں کوبجا طور پر یہ خدشہ ہے کہ وہاں بھارتی ہندو جوق درجوق جا ئیدادیں خریدیں گے اور کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مذموم کوشش کی جائے گی۔ مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اپنے یار اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کی تقلید کی ہے، جس طرح نتن یاہوفلسطینیوں کے علاقوں بالخصوص مغربی کنارے اور غزہ میں یہودیوں کی خصوصی آبادیاں بنا رہا ہے، خدشہ ہے کہ یہی عمل مقبوضہ کشمیر میں دہرایا جائے گا۔ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا قدم کسی ریفرنڈم کے تحت ہوتا تو ظاہر ہے کہ جمہوری طریقے سے رائے شماری میں بھارت کو عبرتناک شکست ہوتی لہٰذا کشمیریوں کی اکثریت بھارتی فوج کی سنگینوں تلے ظلم وستم کا بازار گرم کر کے ختم کی جارہی ہے۔ اگر وہاں کے عوام بھارت کے ساتھ ہوتے تو وہاں پہلے ہی چھ لاکھ سے زائد فوج موجود ہے، اسے مزید کمک نہ بھیجنا پڑتی۔ پاکستانی سرحد پر بھی بھارتی فوج کی بڑی تعداد متعین ہے، بھارتی فوج نے تیاریوں میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ تمام فوجی و فضائی اڈوں پر ہائی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ کشمیری عوام بھارت کی اس ڈھٹائی اور بربریت کی خلاف پہلے ہی علم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں لیکن اب مزاحمت کی تحریک مزید زور پکڑ جائے گی۔ حریت کا نفرنس کی لیڈر شپ تو پہلے ہی گرفتار ہے لیکن پیش بندی کے طورپر عمر فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے نئی دہلی کے حامی سیاستدانوں کوبھی نظر بند کرد یا گیا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی بھارتی حکومت کومتنبہ کر رہے تھے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کاقد م نہ اٹھائیں۔ اس امرکے باوجود کہ بھارت کا یہ اقدام اچانک نہیں ہے، کچھ عرصے سے اس خدشہ کا برملا طور پر اظہار کیا جا رہا تھا کہ کشمیریوں کے حقوق پرشب خون مارنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ جلسے جلوسوں پر پابندی اور سرینگر میں غیر معینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ ہے، موبائل، انٹرنیٹ سروس اور ٹی وی نشریات معطل ہیں۔
اتوار کو وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اعلیٰ فوجی قیادت بھی شریک تھی۔ کمیٹی کے ایک اعلامیہ میں بھارت کی فوج کشی اور دیگر کارروائیوں کو افغان امن مذاکرات کو خراب کرنے کی بھارتی کوشش قراردیا گیا اور بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ بھارت کسی جعلی فوجی آپریشن کے ذریعے پرخطر کارروائی کرسکتا ہے جس سے ایٹمی طاقت کے حامل دونوں ملکوں میں جنگ کی آگ بھی بھڑک سکتی ہے لیکن معاملہ افغان مذاکرات خراب کرنے سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ بھارت کے اس یکطرفہ اور بہیمانہ عمل کے خلاف کشمیر پردو طرفہ مذاکرات کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں کجا اب تو شملہ معاہدے کے تحت بھی کشمیر پر بات چیت نہیں ہو گی کیونکہ بھارت کے مطابق اب وہ متنازعہ علاقہ نہیں بلکہ دیگر صوبوں کی طرح ہے اس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا الگ جھنڈا بھی ختم کردیا گیا۔ بعض تجزیہ کاریہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔ تجویز تو اچھی ہے لیکن اگر بغیر تیاری اور لابنگ کے ایسا کیا گیا تو وہاں کوئی بھی مذمتی قرارداد ویٹو ہوسکتی ہے اور یہ ویٹو روس کے علاوہ امریکہ کی طرف سے بھی آسکتی ہے لہٰذا اس ضمن میں ہوم ورک کرنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب محترمہ ملیحہ لودھی کو صلاح مشورے کے لیے کلیدی رول ادا کرنا چاہیے بلکہ معاملہ محض محترمہ پر چھوڑنے کے بجائے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی فعال ہونا چاہئے تھا۔ اس وقت پاکستان کے دوستوں اور سکیورٹی کونسل کے ارکان سے براہ راست لابنگ کرنا پڑے گی۔ کشمیر کے حوالے سے ہماری توجہ کچھ بٹی رہی ہے۔ شاہ محمود قریشی جو منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے علاوہ خارجہ امور کی حکمت عملی کو بھی سمجھتے ہیں لیکن ان کا ایک پاؤں خارجہ امور اور دوسر املکی معاملات میں فعال رہنے کی کوششوں میں ہوتا ہے۔ شاہ محمود قریشی تو فریضہ حج ادا کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں تھا۔ کامیاب امریکی دورے پر مبارک سلامت کے ڈونگرے برسائے جا رہے تھے۔ بصورت دیگر شاہ محمود قریشی فریضہ حج اگلے برس کیلئے مؤخر کر دیتے اور اقوام متحدہ میں ہماری مستقل مندوب ہالیڈے پر اٹلی نہ جاتیں۔ افغانستان میں قیام امن اور اس ضمن میں مذاکرات کرانے میں پاکستان کا ایک کلیدی کردار ہے لیکن کشمیر تو پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ جیسا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور پاکستان کا "ک، کشمیر پاکستان کا حصہ ہونے کا غماز ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کے پاس آپشن محدود ہیں۔ اسلامی کانفرنس تنظیم کے ارکان کومسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ محض اشک شوئی کے لیے کوئی بیان یا قرارداد پیش کردیتے ہیں لیکن وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وہ تو صاف کہتے ہیں کہ ہم نے یہ پاکستان کو خوش کرنے کے لیے دیا ہے۔ ما سوائے ترکی کے شاید وہ ہمارا اس معاملے میں ساتھ دے۔ جہاں تک برادر دوست چین کا تعلق ہے وہ بھی اپنی بعض مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان کا اس مسئلے پر بھرپور ساتھ نہیں دے پا تا۔ دوسری طرف بھارت نے بڑی عیاری سے مغربی دنیا کو قائل کرلیا ہے کہ سب دہشت گردی پاکستان کی طرف سے ہوتی ہے اور اس حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے طرف سے پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے۔ ہمیں اس وقت اپنی کمز ور اقتصادی صورتحال کی بنا پر امریکہ کی آشیر باد کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود کہ کہا جا رہا ہے کہ حافظ سعید بھارت کے مطابق نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کے محرک تھے گرفتار ہیں۔ لیکن اب بھی امریکہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں پناہ لینے والے افغان طالبان افغانستان میں شب خون ماررہے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف خدشہ یہی ہے کہ بھارت اپنے مذموم مقاصد میں وقتی طور پر کامیاب ہوجائے گا لیکن تمام مظالم ڈھانے کے باوجود کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کو دبا نہیں سکے گا۔ پاکستان میں حکمران جماعت سمیت تمام پارٹیوں میں مسئلہ کشمیر پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے لیکن اندرونی محاذ آرائی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ ویسے بھی بعض بھارتی ماہرین کے مطابق آرٹیکل 370 کی تنسیخ بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہے اور بھارتی سپریم کورٹ اسے خلاف آئین قرار دے کر رد کر دے گی۔
بھارت کے اس غاصبانہ اقدام کے خلاف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مطالبے پرمنگل کو ہونے والا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ابتدائی طور پر ہنگامے کی نذر ہو گیا۔ اپوزیشن کا احتجاج بجا تھا کہ کیونکہ وزیر پارلیمانی امور اعظم سواتی کی طرف سے جو قرارداد پیش کی گئی اس میں آرٹیکل 370 کا ذکر تک نہیں تھا، اس سے حکومت کا غیر سنجیدہ طرز عمل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ وزیر ریلوے شیخ رشید جو اپوزیشن کے سب سے بڑے ناقد ہیں وہ بھی کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آرٹیکل 370 کے ذکر کے بغیر قرارداد کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ تھی کہ وزیر اعظم عمران خان نے ابتدائی طور پر مشترکہ اجلاس میں قدم رنجہ فرمانے کی زحمت گوارا نہیں کی حتیٰ کہ اپوزیشن نے خان صاحب کی ایوان میں حاضری کیلئے سپیکر کو پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ بالآخر وزیر مملکت پارلیمانی امورعلی محمد خان نے اپوزیشن کو منا لیا۔ ناقدین کے مطابق ایسے لگتا ہے کہ حکومت آرٹیکل 370 کی تنسیخ جس کا میڈیا پر تواتر سے تذکرہ ہو رہا تھا کے بارے میں خواب خرگوش میں مبتلا تھی یا اس کی ساری توجہ اپوزیشن اور میڈیا کی ٹھکائی پر لگی ہوئی ہے۔ بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان نے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا ہماری حکومت آئی تو کوشش تھی پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے کریں، بھارت کو پیغام دیا کہ ایک قدم بڑھائیں گے تو ہم دو قدم آگے آئیں گے، مودی کے ساتھ ملاقات میں ان کے تحفظات سنے، بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کئے لیکن دوسری جانب سے جواب نہیں ملا، بشکک میں بھارت کا رویہ دیکھ کر فیصلہ کیا کہ یہ ہماری امن کی کوشش کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا مودی سرکار نے جو حرکت کی اس کا ہمیں اندازہ تھاکیونکہ یہ ان کا الیکشن ایجنڈا تھا، بھارتیہ جنتا پارٹی اصل میں آر ایس ایس کے بیانیے پر کام کر رہی ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں بھارت سے مسلمانوں کو نکال دیا جائے۔ انہوں نے کہا بھارت میں تکبر بڑھتا جا رہا ہے، ایٹمی قوتیں کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت حرکت کرے اور ہم چپ رہیں، ہم بہادر شاہ ظفر کے بجائے ٹیپو سلطان بننا پسند کرینگے، بھارت نے آزاد کشمیر میں کچھ کیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا، جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھائیں گے۔ انہوں عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ بھارتی اقدامات کا نوٹس لے۔
ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں سپہ سالار کا واشگاف الفاظ میں کہنا تھاکہ پاک فوج، حق خودارادیت کے لیے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم اس ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہرحد تک جائیں گے۔ کانفرنس کے شرکا نے کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات مسترد کرنے کی حکومتی پالیسی کی مکمل تائید کی کہا کہ پاکستان، کشمیر پر شرمناک قبضے کو آرٹیکل 370 یا 35 ،اے، کے ذریعے قانونی بنانے کی بھارتی کوششوں کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔