لیڈرشپ کا مظاہرہ؟
کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لاک ڈاؤن جیسے سنجیدہ معاملے کو جس کا بنیادی تعلق قوم کی بقا اور پاکستانیوں کے تحفظ سے ہے اس کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ لاک ڈاؤن میں دوہفتے کی توسیع اور ساتھ ہی نرمی کے اعلان نے سارے معاملے کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ملک میں کورونا سے ایک ہی روز میں ریکارڈ 17 ہلاکتوں سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 136 ہو گئی ہے کیا یہ محض اتفاق ہے؟ ایک طرف وفاقی حکومت نے مخصوص دکانیں اور کاروبار کھول دئیے ہیں جبکہ دوسری طرف صوبہ سندھ جس نے لاک ڈاؤن کو مزید سخت کر دیا ہے اس سارے قضیے میں عوام کی زندگی اجیرن ہوتی جا رہی ہے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ مستقبل میں کیا ہونا ہے۔ بعض شعبوں میں لاک ڈاؤن کھلنے سے عجیب گھڑمس مچ گیا ہے۔ مثال کے طور پر تعمیراتی شعبے میں چھوٹ دے دی گئی ہے لیکن اس سے متعلقہ ادارے جب بدھ کو اپنے دفتر کھول کر بیٹھ گئے تو انہیں احساس ہوا کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی مسلسل بندش کی بنا پر ان کے ورکرز دفتر نہیں پہنچے نیز تعمیراتی سامان کی دکانیں بھی بند پڑی تھیں، اس قسم کی نیم دروں نیم بروں صورتحال دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی نظر آئی۔
دنیا بھرمیں اس عالمی وبا کے بارے میں کسی کو حتمی طور پر اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ یہ جانوں کے ضیاع اور عالمی معیشت کے حوالے سے کس حد تک نقصان پہنچائے گی۔ امریکہ جیسا ملک جو دنیا کی واحد سپر پاور کہلاتا تھا چھوٹے سے وائرس کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا ہے۔ وہاں جس سرعت سے جانی نقصان ہوا ہے وہ نائن الیون سے کہیں تجاوز کر گیا ہے۔ ابھی تک صدر ٹرمپ کے اس دعوے کی سائنسی طور پر تصدیق نہیں ہو سکی کہ ملیریا کے علاج کے لیے عرصہ دراز سے استعمال ہونے والی دوا کلوروکین کورونا کے شکار مریضوں کو دی جا سکتی ہے لیکن ٹرمپ کے سائنسی مشیروں کے علاوہ بین الاقوامی طور پر کئی مرتبہ اس دعوے کی دوٹوک تردید کی جا چکی ہے۔ جہاں تک اس موذی مرض کی ویکسین کی تیاری کا تعلق ہے، اگرچہ دنیا میں کئی ریسرچ کے ادارے مسلسل تگ ودو کر رہے ہیں لیکن ویکسین کی تیاری میں وقت لگے گا اور امکان ہے کہ رواں سال کے آخر تک مارکیٹ میں آ جائے گی۔ صرف اس وقت یہ آفاقی حقیقت سامنے آئی ہے کہ انسانوں کے درمیان حتی المقدورسماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے یہ وائرس کم پھیلتا ہے مزید برآں اس کی ٹیسٹنگ اور علاج کی سہولتوں میں اضافہ وقت کی ضرورت بن گیا ہے اور دوسری چیزوں کی مانگ کم تر ہو گئی ہے، اسی بنا پر لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اس ہلاکت خیز دور میں انسانی بس میں تو فی الحال احتیاط ہی ہے اور جو لیڈر ایسا نہیں کریں گے تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ کو ہی لے لیں، وہ ایک لاابالی طبیعت کے مالک، اپنی ہٹ کے پکے اور ضدی لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ بزنس مین بھی ہیں لیکن وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی، اقتصادی اور فوجی طاقت کے سربراہ ہیں اور ان کے فیصلے سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے اچانک ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس آدھنوم جن کا تعلق افریقی ملک ایتھوپیا سے ہے کے لیے چار سو ملین ڈالرکی امریکی امداد بند کر دی ہے۔ دنیا دہائی دے رہی ہے کہ ایسے موقع پر جب کوویڈ19کے خلاف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کلیدی کردار ہے کی امداد نہ روکی جائے لیکن ٹرمپ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ امریکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے چھ سو ملین ڈالر کے فنڈ میں سب سے بڑا امداد دینے والا ملک ہے۔
دوسری طرف سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اس سال ہونیوالے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے معنی خیز ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جو نہ صرف ٹرمپ پر بلا واسطہ کڑی تنقید ہے بلکہ نامساعد حالات میں لیڈر شپ کے رول کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ اوباما نے کہا کہ اس بحران نے ہمیں یہ بات بڑی شدت سے یاد دلائی ہے کہ حکومت بلکہ اچھی حکومت کا رول کیا ہونا چاہیے۔ ان کاکہنا تھا کہ اس بحران سے یہ سب پر واضح ہوگیا ہے کہ وہ ریپبلکن جو اس وقت وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں اور سینیٹ پر بھی ان کا قبضہ ہے وہ ترقی میں نہیں بلکہ اقتدار کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی باتیں ہماری لیڈر شپ پر بھی منطبق ہوتی ہیں۔ اس وقت لیڈرشپ کا امتحان ہے اور دیکھنا ہے کہ وہ اس میں کیسے سرخرو ہوتی ہے۔ عالمی بینک نے ہمیں متنبہ کر دیا ہے کہ کورونا وبا کی بنا پر شاید شرح نمو منفی میں چلی جائے لیکن ہمارے ہاں سیاسی محاذ آرائی قریباً معمول کے مطابق ہی چل رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ چونکہ پیپلزپارٹی کے نمائندے ہیں، ان کو بلاوجہ اور بے وقت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شاید مراد علی شاہ کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے دو ٹوک انداز سے کورونا وائرس کے ساتھ نمٹنے کے لیے بروقت اقدامات کئے، ان کے برعکس وفاقی حکومت، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں گومگو کا شکار رہیں۔ بالآخر طوعاًو کرہاً انہیں بھی فیصلے کرنے پڑے۔ چند ہفتوں کی خاموشی کے بعد پہلے تو کراچی سے تعلق رکھنے والے بعض وفاقی وزراء کے ذریعے ان پر تنقید کی گئی اور بعدازاں ان کی پریس کانفرنس میں کی گئی باتیں بھی وفاقی حکومت کی طبع نازک پر ناگوار گزریں۔ اب صورتحال یہ بن گئی ہے کہ مرادعلی شاہ کچھ بھی کہتے ہیں تو وفاقی حکومت کی طرف سے ان کا جواب دینے کے لیے ترجمان ادھار کھائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان پر بے جا تنقید اور کرپشن کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ مراد علی شاہ بھی بلاواسطہ طور پر وفاق کی طرف سے لگائے الزامات کا جواب دیتے رہتے ہیں۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ان کی پریس کانفرنسوں اور میڈیا بریفنگز نے قومی سطح پر ان کو بہت نمایاں کر دیا ہے جو وفاق کو راس نہیں آیا۔ نہ جانے سندھ میں وفاق کے نمائندے گورنر عمران اسماعیل کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ وہ اپنا اور اپنی حکومت کا کیا امیج پیش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں جب وہ بیسیوں گاڑیوں کے جلوس میں ٹھٹھہ گئے اس سے کوئی اچھا تاثر نہیں ابھرا۔ اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزرا کو پریس کانفرنسیں کرنے کے بجائے اپنے حلقوں میں بیٹھنا چاہئے کیونکہ یہ وقت پوائنٹ سکورنگ کا نہیں ہے لیکن سب سے بڑھ کر وزیراعظم عمران خان کو لیڈرشپ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔