کوئی پالیسی ہے یا نہیں؟
کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کے مقابلے اور اس ضمن میں حکمت عملی بنانے کیلئے دنیا میں ڈاکٹروں، عالمی ادارہ صحت، اور سائنسدانوں کی رائے اور ان کے تجربات کی روشنی میں کلیدی فیصلے کئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں جب سے یہ وبا پھیلی ہے حکمران کوئی دوٹوک پالیسی اختیارکر نے اور فیصلہ کن اقدامات کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں، مزید برآں اگر کوئی حکمت عملی تھی بھی تو اس کو سٹیک ہولڈرز سے پوری طرح شیئر نہیں کیا گیا۔ اسی بنا پر عدالت عظمیٰ نے بھی کورونا وائرس کے معاملے کا ازخود نوٹس لیا۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں چھوٹی مارکیٹیں ہفتے اور اتوار کو بھی کھلی رکھنے اور شاپنگ مالز بھی کھولنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامے میں مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیاں ہفتہ اور اتوار کو بندکرنیکا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور کہا مارکیٹیں اورکاروباری سرگرمیاں دو دن بندکرنا آئین کے آرٹیکل 4، 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں منطق بتائی جائے، کیا وبا نے حکومتوں سے وعدہ کر رکھا ہے وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آئے گی، کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں، کیا ہفتہ اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے، ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ایس او پیز کے مطابق شام 5 بجے تمام مارکیٹس بند کی جائیں گی، ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔ خیال ہے کہ عدالت عظمیٰ نے بھی ماہرین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔
اگر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کورونا وبا کے معاملے میں دو ٹوک فیصلے کرتیں اور مشاورت کے ساتھ ان پر عمل درآمد ہوتا تو سپریم کورٹ کو ایک ایسے معاملے میں جس کا اس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے مداخلت نہ کرنا پڑتی کیونکہ دنیا بھر میں بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ملکوں میں جہاں کورونا وائرس ہزاروں جانیں ہڑپ کر چکا ہے وہاں کی عدالتیں اس حوالے سے لاتعلق ہی رہیں۔ امریکہ کے سوا دیگر بہت سے ممالک میں اس مسئلے میں سائنسدانوں اور طبی ماہرین کی ان پٹ کے بعد فیصلے کئے گئے ہیں۔ اسی بنا پر بہت سے ممالک میں لاک ڈاؤن کو درجہ بدرجہ سخت قسم کے ایس اوپیز کے ساتھ کھولنا شروع کر دیا گیا۔ وہاں بھی بعض ممالک کی کورونا کے بارے میں پالیسیوں کی بنا پر خاصا نقصان ہوا۔ سکینڈے نیویا کے ملک سویڈن کو ہی لیں جہاں کی کلآبادی قریباً سوا کروڑ ہونے کے باوجود یہاں تیس ہزار سے زائد شہری اس وائرس سے متاثر ہوئے اور قر یباً 3700 اموات واقع ہوئیں۔ گویا کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں سے دس فیصد لقمہ اجل بنے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سویڈن نے اپنے ہی ماہرین کی رائے پر لاک ڈاؤن نہیں کیا بلکہ لوگوں کو کھلی آزادی دی تاکہ ان میں اجتماعی مدافعت پیدا ہو جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سویڈن کے ہمسایہ ممالک فن لینڈ، ڈنما رک اور ناروے میں مرنے والوں کی تعداد چند سو تک محدود رہی لیکن ایک چیز ان ممالک میں مشترک ہے کہ جوں جوں وائرس کا گراف نیچے جانا شروع ہوا توں توں لاک ڈاؤن نرم کیا جانا لگے۔ ایک اور عجیب حسن اتفاق ہے کہ جن ممالک میں خواتین چیف ایگزیکٹو تھیں انہوں نے کورونا وائرس کے حوالے سے لیڈر شپ کا بہترین مظاہرہ کیا۔ مثال کے طور پر جرمن چانسلر اینگلامرکل، ناروے کی وزیراعظم ایرنا سولبرگ، فن لینڈ کی وزیراعظم سنامرین اور تائیوان کی صدر سائی انگ وین۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے کورونا وائرس کے حوالے سے ہماری جو پالیسی سامنے آئی ہے وہ قریباً کوئی پالیسی نہ ہونے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم عمران خان کواس بات کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ روز اول سے ہی لاک ڈاؤن کے مخالف تھے جس کا وقتاًً فو قتاً اظہار بھی کرتے رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ طوہاً وکرہاً لاک ڈاؤن کرنے کے اعلانات بھی کرتے رہے۔ سندھ کی پالیسی تھوڑی مختلف رہی، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کسی ابہام کا شکار نہیں تھے، ان کی واضح اور دو ٹوک پالیسی سخت لاک ڈاؤن ہی تھی جس کا خمیازہ انھیں سندھ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے وفاقی وزراء، گورنر سندھ اور حکومتی ترجمانوں کی طرف سے شدید نکتہ چینی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ وہ ایک طرف لاک ڈاؤن سخت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو دوسری طرف گورنر سندھ اور بعض وفاقی وزرا مقامی تاجروں کو انگیخت کر رہے تھے کہ لاک ڈاؤن کی مزاحمت کریں۔ سب سے حیران کن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو منجھے ہوئے سیاستدان ہیں کی یہ دھمکی تھی کہ خبردار اب ہم سندھ آ رہے ہیں نیز یہ بودی دلیل بھی گھڑی چونکہ کراچی کی زیادہ ترنشستیں تحریک انصاف اور ایم کیوایم کے پاس ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کو سندھ کے بارے میں بولنے کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ یہ ایک انتہائی مضحکہ خیز اورکوتاہ اندیشانہ دلیل تھی جس کے مطابق ایک وفاقی حکومت پر یہ الزام لگ سکتا ہے کہ وہ صوبائی منافرت کو ہوا دے رہی ہے۔
وزیراعظم کے میلان طبع کے مطابق وفاقی وزرا جن میں مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی شامل ہیں بھی انہی کی ڈفلی بجانے پر مجبور ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ میں جہاں صدر ٹرمپ بھی کورونا وائرس کے بارے میں نظریاتی طور پر عمران خان کے ہم خیال ہیں۔ وہاں بھی سائنسدان اور ڈاکٹرزصدر ٹرمپ کی غیر منطقی اور غیر سائنسی باتوں سے کھلم کھلا اختلاف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اداروں اور حکومتی شخصیات میں اس طرح کی خود مختاری اور آزادی نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم کی کورونا وائرس کے بارے میں پالیسی اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہمارے ہاں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یومیہ 25، 30اموات ہو رہی ہیں، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں جولائی میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ ہو جائے گی۔ بعض ماہرین کو خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن قریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور اس حوالے سے ہماری قوم احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کر رہی آئندہ چند ہفتوں میں متاثرین اور اموات کی شرح تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے 92 نیوز کے پروگرام ہوکیا رہا ہے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کورونا کے اس وقت جو ٹیسٹ ہو رہے ہیں، میں ان سے بالکل مطمئن نہیں، ہمارے ہاں ملک کے مختلف حصوں میں 83کے قریب لیبارٹریز کام کر رہی ہیں جن کی ایک شفٹ کی صلاحیت 25ہزار کے قریب ہے، میرے خیال میں پاکستان کواس وقت 50 سے 60ہزار ٹیسٹ کرنے چاہئیں تاکہ ہم اس بیماری کو اچھے طریقے سے دیکھ سکیں، اگر ہم یومیہ 30ہزار ٹیسٹ کرینگے تو بیماری تک نہیں پہنچ پائیں گے، ہمیں اس سے کہیں زیادہ ٹیسٹ کرنے چاہئیں۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا ابھی تک ہمیں 25ارب روپے ملے ہیں جن میں سے 6 ارب کے لگ بھگ کو خرچ کیا ہے، تقریباً 4 ارب کے قریب پے منٹ کی ہے، این ڈی ایم اے میں جتنی بھی خریداری ہو رہی ہے، وہ وزارت صحت اور این سی او سی کی ہدایات پرہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا ہمارا کام کوآرڈی نیشن کا ہے جس کو کر رہے ہیں۔
خان صاحب غریب آدمی کا حوالہ دے کر لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں لیکن حکومت کو غالباً اس بات کا ادراک ہے کہ اگر لاک ڈاؤن طویل ہوا تو کاروبار بالکل ہی ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ پاکستان میں کیونکہ آبادی کی اکثریت پچاس برس سے کم عمر نسبتاً جوان لوگوں پر مشتمل ہے اور بوڑھوں کی تعداد مناسب کے لحاظ سے اتنی نہیں ہے جتنی مغربی دنیا میں ہے۔ ویسے بھی یہ تاثر بنا دیا گیا ہے کہ ساٹھ ستر برس کی عمر کے لگ بھگ ناتواں لوگوں کی اکثریت کس حد تک متحرک سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہے لہٰذا اگر انہیں "کورونا وائرس" کا "شکار" بنا بھی دیا جائے تو کونسی بڑی بات ہو گی۔