کشمیر دنیا کے سینٹر سٹیج پر
نصف صدی بعد مسئلہ کشمیر کا سلامتی کونسل میں زیر بحث آنا خود ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اگرچہ سلامتی کونسل کے بند کمرے میں غیر رسمی اجلاس کے نتیجے میں یہ توقع رکھنا تو عبث تھا کہ وہاں کوئی باقاعد ہ اجلاس بلایا جائے گا، جس کے ویٹو ہونے کا خطرہ بھی ہو سکتا تھا تاہم چین کی آشیرباد اورعملی کا وشوں سے اجلاس کے انعقاد کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کی خصوصی اہمیت کے حوالے سے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور 10غیر مستقل ارکان کو سیر حاصل بریفنگ دی گئی اور اس پر اتفاق رائے پایاگیا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے بھارت پوری دھٹائی کے ساتھ مرغ کی ایک ٹانگ پر کھڑا رہا۔ اقوام متحدہ میں اس کے مستقل مندوب سید اکبرالد ین کو بعداز اجلاس ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کے کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ موصوف کا اصرار تھا کہ آرٹیکل 370کی تنسیخ اورکشمیر بھا رت کا اندرونی معاملہ ہے ساتھ ہی شملہ معاہدہ کا حوالہ بھی دیا اس پر ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ تو مذاکرات کے لیے تیار ہی نہیں تو موصوف نے وہی گھسا پٹا جواب دیا کہ پہلے دہشت گردی بند کرو پھر بات چیت کریں گے۔ مسلمانوں سے نفرت کرنے والی بھارت کی برسر اقتدار ہند وماتا پارٹی نے حالیہ انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا لیکن اس مسلم کش حکومت نے اقوام متحدہ میں ایک "ٹوکن" مسلم کو دانستہ طور پر مستقل مندوب لگایا ہوا ہے۔
بھارت کی باتیں اپنی جگہ لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے اس مسئلے کا نوٹس لینے کا واضح مطلب ہے کہ کشمیر کئی دہائیوں کے بعد دنیا کے سینٹر سٹیج پر آ گیا ہے بین الاقوامی میڈیا میں ادارئیے اور بھارتی مظالم کی داستانیں لکھی جا رہی ہیں۔ بی بی سی اورسی این این جیسے ادارے بھی پیچھے نہیں۔ ماضی میں اگر بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا ذکر ہوتا تھا تو وہاں پر ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے نام نہاد گھس بیٹھیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا کبھی کبھار ذکر آ جاتا تھا۔ دنیا اور خود پاکستانی حکمران اس مسئلے کو دفن کر چکے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ کمانڈو جرنیل جس نے ایک جمہوری حکومت پر شب خون مارکر دس سال تک حکومت کی جو بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پر اس کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھا اور بعدازاں" کارگل کا ہیرو، بھی تھا بھارت کے ساتھ کشمیر کی حتمی حیثیت طے کرنے کے لیے خفیہ بیک ڈور چینل مذاکرات کر رہا تھا اور وزیر خارجہ اور دفتر خارجہ کو اس پراسیس سے باہر رکھا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اس فارمولے کا تفصیلی ذکر کر چکے ہیں جو پرویزمشرف کے پر نسپل سیکرٹری طارق عزیز اور بھارتی نمائندے ایس کے لامبا(جو اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر بھی رہ چکے ہیں)کے درمیان بنکاک، دبئی اور لندن میں خفیہ بات چیت چلتی رہی جو واجپائی کے بعد آنے والے وزیراعظم من موہن سنگھ کے دور میں بھی جاری رہی۔
فروری 2008ء میں موقر امریکی جریدے نیو یارکر میں اس بیک چینل ڈپلومیسی کی پوری داستان شائع ہوئی تھی۔ یہ بیل محض اس لیے منڈھے نہ چڑھ سکی کہ 2007ء میں پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف ہو نے والے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لیے وکلا کی تحریک سے ان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولنا شروع ہو گیا تھا۔ شاید اسی بنا پر اس وقت کے آمر مطلق کو اپنے بنائے ہوئے اس فارمولے جس کے تحت "ادھر ہم اُدھرتم، کے تحت آزاد کشمیر پاکستان کے پاس اور مقبوضہ کشمیر بھارت کے پاس رہنا تھا اور لائن آف کنٹرول کو سافٹ بارڈر قرار دے کر چند امور مرکز کے پاس رکھ کر ان علاقوں کو مکمل خود مختاری دے دینا تھا۔ اگر اس وقت کشمیر کی بندر بانٹ ہو جاتی تو آزادی کے لیے بے بہا قربانیاں دینے والے کشمیری عوام کبھی ہمیں معاف نہ کرتے۔ آج کے ماحول میں نام نہاد لبرل لابیوں سمیت کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس قسم کی سودے بازی کو روا رکھا جائے جو کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سکیورٹی کو نسل کے غیر رسمی اجلاس کے بعد لمبی چوڑی پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے بین الاقوامی میڈیا سمیت سب کا شکریہ ادا کیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر کریڈٹ لینے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی کی کاوشوں کا بھی ذکر کر دیتے۔ ویسے بھی قریشی صاحب یقینا منجھے ہوئے سیاستدان ہیں لیکن انہیں اس حوالے سے محض سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے عسکری اور سویلین قیادت کے ہفتے کے روز ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن کے سینیٹر مشاہد حسین سید اور سید نوید قمر کو شریک کرنا مثبت قدم ہے۔ خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے حقیقت پسندانہ بات کی کہ سلامتی کونسل کا معرکہ سر کر لیا ہے، یہ ایک لمبی لڑائی ہے جسے کئی محاذوں پر لڑنا ہے۔ ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے ڈی جی، آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ موجودہ ماحول میں بھارت کسی دہشت گردی کا سوانگ رچا کر کوئی کمینی کارروائی کر سکتا ہے۔ انھوں نے واضح کیا سرحدی خلاف ورزی ہوئی تو بھارت کو زبردست سرپرائز دیں گے، ہماری تیاریاں مکمل ہیں، نئی دہلی آزاد کشمیر پر قبضے کا خواب نہ دیکھے اب مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ چھڑانے کا وقت آ گیا ہے۔ کشمیر کے لیے آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑیں گے۔ چند روز پہلے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایٹمی ہتھیار استعمال کر نے کی ملفوف دھمکی دی تھی۔ اس ضمن میں وزیراعظم کو اپنے وزراء کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے گریز کریں۔ وزیر سائنس وٹیکنالوجی کا حالیہ ٹویٹ کہ جنگ ہوئی تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا اور اس کی تپش دنیا کا ہر دارلحکومت محسوس کرے گا، اسی زمرے میں آتی ہے۔ اس سارے بحران میں ہمارے وزیر دفاع پرویز خٹک کہاں ہے؟۔ ان کی تلاش کے لیے اشتہار دینا پڑے گا۔
اقوام متحدہ کے اجلاس سے یہ احساس ہوا ہے کہ ڈپلومیسی ہی اس کا واحد حل ہے لہٰذا اپوزیشن کو بھی آن بورڈ لیا جائے۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ احتساب کا عمل روک دیا جائے لیکن اس حوالے سے انتقامی کارروائیاں بند کر دینی چاہئیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری سے جیل بھرنے کے بجائے نیب ان کو باہر رکھ کر بھی انکوائر ی کر سکتی ہے۔ لیکن اگر گرفتاریوں کا اصل مقصد کچھ اپوزیشن رہنماؤں کو پابند سلاسل کر کے سیا سی منظر سے ہٹانا ہے تو پھر اور بات ہے حالانکہ سیاستدانوں اور میڈیا کی تنقیدکو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے تحمل سے سیاسی طور پر نبٹنا چاہیے نہ کہ انتظامی ہتھکنڈے استعمال کر کے۔
کشمیریوں کی تحریک مزاحمت عروج پر ہے، گزشتہ روز" الجزیرہ" ٹی وی میں پاکستان میں میڈیا پر پابندیوں کے بارے میں تفصیلی رپورٹ آئی ہے جس کے مندرجات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ شاہ محمود قریشی مقبوضہ کشمیر میں میڈیا پر پابندیوں کا رونا رو رہے تھے اور مغربی میڈیا کی کشمیریوں کی حمایت پر تعریف کر رہے تھے۔ لیکن کیا وقت نہیں آ گیا کہ پاکستانی میڈیا پر ایسی پابندیاں جن کی کوئی بھی فریق اونر شپ لینے کو تیار نہیں ہے کو ختم کر دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ کو فون کر کے کشمیر میں ہونے والے مظالم سے آگاہ کیا لیکن ٹرمپ کا جواب یہی تھا کہ بات چیت کریں لیکن بات چیت کس سے؟۔ اب تو بھارت کے نزدیک کشمیر متنازعہ مسئلہ رہا ہی نہیں بلکہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ جس میں روس کی نا ئب مستقل نمائندہ دمتری پلیانسکی کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ سیاسی اور سفارتی طریقے سے شملہ معاہدے، اعلان لاہور اور اس ضمن میں اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنا چاہیے۔ یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے ہمیں چین اور امریکہ کے علاوہ روس کو بھی انگیج کرنا چاہیے نیز وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے بجا طور پر عرب ممالک کی بے حسی کا گلہ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک کی بھارت کے ساتھ ایک سو ارب ڈالر کی سالانہ تجارت ہے۔ اس بنا پر ہمیں ترکی کے علاوہ اپنے ہمسائے ایران کے ساتھ بھی سلسلہ جنبانی بڑھانا چاہیے۔ اگر امریکہ اپنے سٹرٹیجک مفادات کی خاطر بھارت کو گود میں بٹھا سکتا ہے تو ہمیں بھی واشنگٹن کے ڈر سے ایران کو نہیں دھتکارنا چاہیے۔