جمہوریت کی دہائی
پاکستان کے پہلے فوجی آمرجنرل ایوب خان نے بڑے دھوم دھام سےDecade of Development’ اصلاحات کی دہائی، کا جشن منایا جس پر اس وقت کے بی ڈی ممبروں اور پابندیوں میں جکڑے میڈیا نے خوب ڈونگرے برسائے کہ کمال ہو گیا، دودھ کی نہریں بہنے لگی ہیں۔ لیکن ایوب خان کی صرف مغربی پاکستان میں اقتصادی ترقی سے مشرقی پاکستان میں احساس محرومی پیدا ہواجس نے وطن عزیز کو دولخت کرنے کی بنیاد رکھ دی۔ بعدازاں ہم نے جنر ل ضیاالحق کا گیارہ سالہ اقتدار دیکھا۔ اس دہائی میں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسلام کا نام بے دردی سے استعمال کیا گیا، اس دور میں سیاست اور اخلاقی اقدار کا جنازہ ہی نکل گیا۔ دہشت گردی اور کلاشنکوف کلچر جیسے سنگین مسائل سے آج تک قوم نبرد آزما ہو رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک دہائی سے کچھ کم عرصہ حکومت کی، وہ ’اعتدال پسندی، اور’روشن خیالی، کے نام پر قوم پر مسلط رہے۔ عملی طور پر ان کی پالیسیوں سے وطن عزیز میں دہشت گردی اور انتہاپسندی کے رجحانات بڑھے۔ اب حال ہی میں پاکستان نے جمہوریت کے مسلسل دس سال مکمل کیے ہیں۔ لیکن قومی اسمبلی میں چند روایتی تقاریر کے علاوہ ہم نے جمہوریت کی کامیابیوں کو گنوانے کے اس سنہری موقع کو ضائع کر دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ رخصت ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں جمہوریت کے ثمرات کی بات کرتیں۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمارے جسد سیاست پر اس غیر معمولی کامیابی کے باوجود ڈپریشن طاری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں حالیہ دو حکومتوں سے قبل کسی بھی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اب بھی ملک میں غیر جمہوری قوتیں کسی نہ کسی طریقے سے جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ کم ازکم پاک فوج جمہوری عمل کی راہ میں رخنہ ڈالنے کے حق میں نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسی سرگرمیاں بھی نہ صرف پس پردہ بلکہ کھلم کھلا جاری ہیں جو اصولی طور پر جمہوری اقدار کی نفی کرتی ہیں۔ باہر سے مسلط کردہ جوڑ توڑ، ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی انجینئرنگ بلا روک ٹوک جاری وساری ہے جو جمہوریت کے تسلسل کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ سوشل میڈیا اور میڈیا کے ایک بڑے حصے کو جمہوریت، سیاست اور سیاستدانوں کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو سب متمول ہیں ہر وقت سوشل میڈیا پر تبصرے کرتے رہتے ہیں کہ یہاں سے سیاستدانوں کو نکالیں اور ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنائی جائے کیونکہ سیاستدان سب کچھ لوٹ کر لے گئے ہیں۔ یقینا اس بات میں خاصا وزن ہے کہ سیاستدانوں نے بہت اعلیٰ روایات نہیں چھوڑی ہیں تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) ہوں یا مذہبی جماعتیں سب کا وفاقی جمہوری نظام اور انتخابات کے ذریعے حکومتیں بدلنے پر اتفاق ہے۔ یہ درست ہے کہ میاں نوازشریف اپنے تئیں نالاں ہیں کہ’ مجھے کیوں نکالا،۔ وہ فوج اور عدلیہ کو ہدف تنقید بھی بناتے رہتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف انہی کی پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے سے لے کر انتخابی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے موجود ہے۔ جہاں تک اقتصادی معاملات کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ گوناں گوں مسائل موجود ہیں لیکن دوسری طرف بہتری بھی آئی ہے۔ اس عرصے میں بعض مصدقہ اطلاعات کے مطابق کنزیومرازم یعنی روزمرہ کے استعمال کی اشیا جن میں کھانے پینے کی اشیا اور موٹر گاڑیاں بھی شامل ہیں میں 80فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں، شاپنگ مالز کی رونق اور مانگ میں خاصا اضافہ ہواہے۔ یہ درست ہے کہ گلاس آدھا بھرا ہوا اور آدھا خالی بھی ہے۔ تعلیم پر بہت زور دینے کے باوجود یہ کہنا کہ تعلیم ہر شہری کو میسر ہے درست نہیں ہو گا۔ اسی طرح پینے کے صاف پانی اور صحت پر کسی نہ کسی حد تک بجٹ کے اندر رکھی رقوم میں اضافے کے باوجود بہت کچھ خرچ کرنا باقی ہے۔ لیکن یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ الیکشن 2018ئمیں تمام جماعتیں اپنے حسن کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے کہ محض سیاسی محاذ آرائی، برادری اور جوڑتوڑ کے علاوہ سیاسی جماعتیں اپنے حکومتی ریکارڈ پر بھی ووٹ مانگ رہی ہیں۔ اس دہائی کی ایک بہت بڑی کامیابی عدلیہ کی آزادی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار، افتخار محمد چوہدری سے شروع ہونے والی روایات کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی میں بعض لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہو کہ معاملات میں ضرورت سے زیادہ عدالت کی جانب سے مداخلت کی جا رہی ہے۔ یہ اس صورتحال سے بہرحال بہتر ہے کہ اعلیٰ عدالتیں فوجی عدالتوں کی طرح حکومتوں کی کچھائی نہیں کر رہی ہیں۔ آزادی اظہار جمہوریت کا حسن ہے اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جس انداز سے اپوزیشن کو دیوار سے لگایا جاتا تھا اور آزادی اظہار رائے کے علاوہ سیاستدانوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر قدغن لگائی جاتی تھی، آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 2006ئمیں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے مابین ہونے والے چارٹر آف ڈیمو کریسی پر من وعن توعمل نہیں ہوا لیکن بعض معاملات میں ہمارا سیاسی کلچر تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ آزادی صحافت کا کمال ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات متحارب سیاستدان دھینگا مشتی پر بھی اتر آتے ہیں لیکن کوئی بھی اس آزادی کو رول بیک کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ حال ہی میں بعض بڑے گروپوں کے چینلز اوراخبارات کی تقسیم اور ڈسٹری بیوشن پر بعض غیر علانیہ قدغنیں سامنے آئیں۔ لیکن مقام شکر ہے کہ اس معاملے میں کوئی سیاسی حکومت نہیں تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ستے خیراں ہیں۔ سیاستدانوں نے اس مد ت کے دوران غلطیاں بھی کی ہیں۔ اب بھی بعض ارکان پارلیمنٹ جو کل تک ایوانوں میں موجودہ سسٹم کے خلاف خواہشات کے گھوڑے دوڑاتے رہے ہیں۔ اب ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح رہ گئی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں وفاق اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے قانون ساز اداروں کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہیے تھے۔ میاں نوازشریف، شہباز شریف زیادہ عرصہ اسمبلیوں سے غائب رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنا رویہ جو 2014ء کے دھرنے سے شروع ہوا تھا جاری رکھا کہ وہ ان اسمبلیوں کو مانتے ہی نہیں۔ یہ عجیب قسم کی دوغلی پالیسی تھی کہ ایک طرف تو تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عمران خان کے بغیر جمہوری عمل میں حصہ لے رہی تھی لیکن دوسری طرف یہ عذرلنگ پیش کیا جا رہا تھا کہ عمران خان قومی اسمبلی کو دھاندلی کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جاتا ہے کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرسید خورشید شاہ اور سینیٹ میں اعتزاز احسن حزب اختلاف کا اہم کردار ادا کرتے رہے۔ وطن عزیز میں گزشتہ 70 برس میں ہر طرح کا تجربہ کیا گیا لیکن حالیہ دہائی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ (بعض لوگوں کے نزدیک) لولی لنگڑی یا خراب جمہوریت بدترین آمریت سے بدرجہا بہتر ثابت ہوئی ہے۔