جمہوریت کا حسن!
بالآخر وزیراعظم عمران خان نے دنیائے صحافت کے بز ر جمہروں کے ساتھ ملا قا ت کا وقت نکال ہی لیا۔ انھوں نے صحافیوں سے ملاقات وزیر اعظم سیکر ٹر یٹ میں کی جو میاں نواز شر یف نے اپنے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں تعمیر کرایا تھا، وزیر اعظم سیکر ٹر یٹ اپنے مغلیہ طرز تعمیر کی بنا پر " مغل اعظم سیکر ٹریٹ" زیا دہ لگتاہے۔ 1998ء میں جب ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ اور مغرب نے پاکستان پرطرح طرح کی اقتصادی پابندیاں لگا دی تھیں۔ ان حالات کے پیش نظر اس وقت میاں صاحب کو بھی سادگی کی سو جھی لہٰذا ان کے حکم پر وزیراعظم سیکرٹریٹ خالی کر دیا گیا۔ صرف اس کے ایک کونے میں ان کے بدنام زمانہ احتساب بیورو کا دفتر باقی رہا جس کی سربراہی ان کے دست راست سینیٹر سیف الرحمن کر رہے تھے۔ اس دوران جب بھی میں ان سے ملنے گیا تو وہ اپنے اردگرد ٹیلی فون سیٹوں کی کھیپ سجائے بیٹھے ہو تے تھے اور ان پر سیاسی مخالفین کے بارے میں احکامات دے رہے ہوتے تھے کہ ’فلاں کو پکڑ لو، اس کا پاسپورٹ ضبط کرلو، ای سی ایل میں ڈال دووغیرہ۔ بعدازاں میاں نواز شریف جب دوبارہ وزیراعظم بنے تو سیکرٹریٹ کی رونقیں بھی بحا ل ہو گئیں۔ عمران خان اپنی تمام میٹنگز وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ہال میں کرتے ہیں۔ اسی ہال میں انھوں نے سی پی این ای، اے پی این ایس اور پی بی اے کے عہدیداروں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ میں بطور صدر سی پی این ای اجلاس میں شریک تھا۔ اس میٹنگ کا کھرا قریباً دس روز پہلے ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ میڈیا مالکان کی میٹنگ سے ملتا ہے۔ اتفاق سے مجھے اس میٹنگ میں بھی مدعوکیا گیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور نے انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ میڈیا کی قریباً تمام قیادت سے گپ شپ لگائی۔ میڈیا والوں نے بھی ان کے سامنے اپنے مسائل کا پنڈورا باکس کھول دیا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اکثر مالکان کو گلہ تھا کہ ایک طرف سرکاری اشتہاروں کے نلکے کی ٹوٹی قریباً بند ہے اور واجبات بھی ادا نہیں کیے جا رہے اور اس پر مستزادیہ کہ وزیراعظم تک ہماری تاحال رسائی نہیں ہوسکی۔ میٹنگ کے بعد عشائیہ میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا، حضور!کھانا آرام سے کھائیے، میں نے وزیر اطلاعات فواد چودھری کو بھی بلا لیا ہے، کھانے کے بعد جب وہ تشریف لائے تو بعض میڈیا مالکان نے کہا جناب آپ تک پیغام پہنچانے کے لیے کہ وزیراعظم ہماری کتھا بھی سنیں، ہمیں میجر جنرل صاحب کا سہارا لینا پڑا۔ وزیراطلاعات نے یقین دہانی کرائی کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو قصہ پارینہ سمجھتے ہیں یہ ہماری حکومت کی پالیسی نہیں ہے، میں آپ کی جلد وزیراعظم سے ملاقات کراؤنگا۔ اسی تناظر میں بدھ کی شام خان صاحب کی میڈیا سے ملاقات ہوئی۔ وزیراعظم عمران خان اس میٹنگ میں اپوزیشن کے شعلہ نوا لیڈر سے مختلف نظر آئے۔ انھوں نے بڑے تحمل سے سب سے پہلے پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسو سی ایشن کے صدر میاں عامر محمود کو بات کر نے کی دعوت دی پھر بطور صدر کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرزمجھے اورپھرآل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر حمید ہارون نے میڈیا کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ بعدازاں انھوں نے میٹنگ میں شریک شخصیا ت کو بات کرنے کا موقع دیا اور کہیں کہیں اپنے ریمارکس بھی دیئے۔ عمران خان اکیلے نشست پر بیٹھے تھے، ان کے ساتھ ان کا کوئی معاون نہیں تھا لیکن انھوں نے بڑے ہی پروفیشنل انداز سے میٹنگ کنڈکٹ کی۔ ان کے پیش رو وزرائے اعظم تو پی آئی او، سیکرٹری اطلاعات سمیت معاونین کی فوج ظفر موج کے بغیر میٹنگ نہیں لیتے تھے۔ خان صاحب نے دوٹوک انداز سے واضح کیا کہ وہ آزادی صحافت پر بھرپور یقین رکھتے ہیں اور کیوں نہ ایسا ہو کیونکہ آ ج وہ وزارت عظمیٰ کے منصب تک میڈیا کے تعاون سے ہی پہنچے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ سوال کیا، کون کہتا ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا "مُک" گیا ہے؟ حالانکہ یہ بات تو ان کے وزیر اطلاعات کئی بار دہرا چکے ہیں۔ تاہم میٹنگ میں فواد چودھری نے وضاحت کی ان کے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ میڈیا کی اہمیت گھٹ گئی ہے۔ ویسے تو یہ حقیقت ہے کہ پرنٹ میڈیا دنیا بھر میں سکڑ رہا ہے اور اقتصادی بحران کی وجہ سے اخبارات بند ہو رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کی جگہ انٹرنیٹ، ویب اور سوشل میڈیا لے رہا ہے، اسی بنا پر موجودہ بحرانی کیفیت میں کئی اخبارات سخت اقتصادی مسائل کا شکار ہیں۔ کارکنوں کو فارغ کیا جا رہا ہے اور کئی کئی ماہ کی تنخواہیں بھی نہیں دی جا رہیں۔ خان صاحب نے یقین دلایا کہ یہ حکومت کی پالیسی نہیں کہ وہ اشتہاری مہم بند کر دے گی لیکن اقتصادی بدحالی کا اثر سرکاری اشتہارات پر بھی پڑتا ہے۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ میاں برادران نے اپنے دور حکومت میں جس طرح ذاتی تشہیر کے لیے سرکاری اشتہارات کو استعمال کیا وہ دور واپس نہیں آ سکتا۔ میں نے ان کے اس اقدام کی تعریف کی کہ کسی کو گلہ نہیں کہ ان کی حکومت نے کسی بھی میڈیا پر اس کی پا لیسی کی بنا پر کوئی قدغن نہیں لگائی، مزید برآں پی ٹی وی بھی آزاد نظر آتا ہے اس حد تک کہ نیب کے زیر حراست اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی پارلیمنٹ میں تقریر سرکاری ٹی وی نے براہ راست نشر کی۔ میری خان صاحب سے یہی درخواست تھی جو بھی اشتہارات دیئے جائیں وہ محض ان گروپوں کیلئے نہ ہوں جو پچھلے دورمیں بھی فیورٹ تھے بلکہ اس بارے میں میرٹ کی پالیسی اپنائی جائے۔ سی پی این ای کے رہنما اعجازالحق کے مطالبے پر خان صاحب نے نیوز پرنٹ پر پانچ فیصد ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اپنے اختتامی کلمات میں انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ شاید ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔ اس بات کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کیونکہ حکومت تو قرضے کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کو درخواست بھی دے چکی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ قرضہ 15 ارب ڈالر بھی ہو سکتا ہے۔ وہ 23 اکتوبر کو ریاض میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کی سائیڈ لائن پرسعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے پاکستان کیلئے امداد لینے میں کامیاب ہو جائینگے۔ سعودی باغی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ طور پراستنبول میں سعودی قونصلیٹ میں قتل کے الزام کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ کے اعلیٰ عہدیدار اور آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کے علاوہ بزنس اور فنانس سے تعلق رکھنے والی متعدد اعلیٰ شخصیات کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہی ہیں۔ عمران خان تو پاکستان کے وزیراعظم ہیں، نجانے اس موقع پر اس سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کی کیا سوجھی۔ ویسے بھی سعودی عرب پاکستان میں کیا سرمایہ کاری کر سکتا ہے اسے تو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے سفیر کے ذریعے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہوں جن کی بنا پر خان صاحب کشکول لے کر دوبارہ سعودی عرب جائینگے۔ غالباًوزیراعظم کو امید ہے کہ وہ آئندہ ماہ اپنے دورہ چین کے دوران کچھ مالی مدد لے آئیں گے لیکن اس کا امکان کم نظر آتا ہے کیونکہ میری اطلاع کے مطابق چین پہلے ہی نگران حکومت کے دور میں پاکستان کو دو ارب ڈالر دے چکا ہے اور سعودی عرب نے بھی یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ ہماری تو اپنی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ پھر وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس کو استعمال کرکے ہم آئی ایم ایف کی دسترس سے بچ جائیں گے۔ حکومت کا یہ استدلال درست ہے کہ آئی ایم ایف سے اپنی شرط پر قرضہ لیا جائے گا جس سے عام آدمی پر کم بوجھ پڑے لیکن بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنی حکومت کو اندھیرے میں رکھ کر آئی ایم ایف پیکیج کیلئے بہت دیر کردی۔ اب تو ہماری صورتحال یہ ہے کہ ’گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا،؟ اور مرتا کیانہ کر تا، زیادہ امید کی کرن نظر نہیں آرہی۔ خان صاحب کے منہ میں گھی شکر، وہ کہتے ہیں کہ چھ ماہ میں مشکل اقتصادی معاملات آسان ہونا شروع ہو جائینگے، خدا کر ے ایساہی ہو۔ انھوں نے گلہ کیا کہ میڈیا نے ان کے دو وزراء اسد عمر اور شہریار آفریدی پر بے جا تنقید کی۔ یقینا میڈیا کو قومی مفادات کا خیال رکھنا چاہیے لیکن حقائق کی روشنی میں تنقید کرنا بھی اس کا فرض ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن کی تنقید پر بھی ناراضی کا اظہا ر کیا، ان کے مطابق یہ سب چور ہیں جو اندر ہو جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم نے یہ بات جذباتی اند از سے کہی ہو گی کیونکہ انھیں خوب معلوم ہونا چاہیے کہ حزب اختلاف اور آزاد میڈیا ہی جمہوریت کا حسن ہیں۔