عمران کے 11 نکات…عملی جامہ؟
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اتوار کو لاہور میں اپنے تاریخی جلسے میں بالآخر شریفوں اور زرداری کی مبینہ کرپشن کی گردان سے باہر نکل آئے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں 11 نکات پر مشتمل پروگرام کا بھی اعلان کر دیا، شاید یہی ان کا انتخابی منشور ہو گا۔ انہوں نے اپنے ایجنڈے جس کا مقصد پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ، خود انحصاری، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی ہے کو اپنی پارٹی کی اولین ترجیح قرار دیا۔ اگرچہ انہوں نے اپنے مخالفین کی پالیسیوں اور مبینہ کرپشن پر تنقید کے تیر برسائے لیکن ان کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ جو قوم تعلیم، صحت اور انسانی بہبود کو ترجیح دینے کے بجائے محض انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر خرچ کرتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ خان صاحب کا وژن درست ہے اور ان کا اشارہ شریف برادران کی موٹر ویز، ہائی ویز، ٹرینوں، شہروں میں مواصلاتی سہولتوں اور پاور پراجیکٹس کی طرف تھا یعنی کہ جو قومیں ان چیزوں تک محدود ہو جائیں وہ ترقی نہیں کر پاتیں، ایسی ترقی، ترقی معکوس ہی ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان کا شمار یقیناً ان ممالک میں کیا جا سکتا ہے جن میں سوشل سیکٹر کیلئے بجٹ میں مختص ہونے والی رقم کی شرح اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی طرف سے مقررکردہ کم از کم شرح سے کم ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی ترجیح تو یہی ہے کہ ایسے پراجیکٹس لگائے جائیں جن سے ووٹ مل سکیں۔ تعلیم، علاج، صاف پانی انتہائی بور منصوبے ہیں لیکن اس معاملے میں شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ وہ تو جدید ہسپتال بھی بنا رہے ہیں۔ لیکن عمران خان برملا طور پر کہتے ہیں کہ مسلم لیگ( ن) کی حکومت نے اپنے دور میں ایک بھی ہسپتال نہیں بنایا۔ حال ہی میں خادم اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے میو ہسپتال میں لندن کے ہسپتالوں کے معیار کا ٹاور کھڑا کر دیا ہے لیکن میو ہسپتال سمیت تمام ہسپتالوں کی جو حالت زار ہے اور جس طرح ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض لیٹے ہوتے ہیں، انہیں محض نمائشی پراجیکٹس کے بجائے اس طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے لیکن اس معاملے میں خالی مسلم لیگ ن کی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانا مبنی بر انصاف نہیں ہو گا۔ سندھ میں بھی صورتحال اس سے بہتر نہیں بلکہ ابتر ہی ہے۔ بلوچستان میں سماجی اور ترقیاتی شعبہ تو سرداری حکمرانوں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں۔ حال ہی میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کے پی کے جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے، کے دارالحکومت پشاور میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کیا تھا، وہاں کی حالت بھی کوئی بہتر نہیں تھی۔ تاہم جیسا کہ خان صاحب نے اسی مینار پاکستان کے جلسے میں کہا کہ انہوں نے کینسر کے باعث انتقال کرنے والی اپنی والدہ شوکت خانم کے نام پر لاہور میں ہسپتال بنایا، اسی طرح پشاور میں بھی ہسپتال بنایا اور اب کراچی میں بن رہا ہے۔ یہ ایک انتہائی نیک کام ہے اس لحاظ سے عمران خان ایک منفرد سیاستدان ہیں جنہوں نے لاکھوں مریضوں کو مفت علاج کی جدید سہولتیں فراہم کر کے دنیا اور آخرت میں نیکی کمائی ہے۔ جیسا کہ عمران خان نے بتایا شوکت خانم ہسپتال میں جہاں میں بھی ایک معمولی آپریشن کیلئے داخل رہا وہاں نہ سفارش چلتی ہے اور نہ ہی وی آئی پی کلچر۔ کمروں میں جیساکہ انہوں نے خود کہا کہ دو مریض الگ الگ بیڈز پرہوتے ہیں ان میں سے ایک مریض ادائیگی کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے کا جو اخراجات برداشت نہیں کر سکتا مفت علاج ہو رہا ہوتا ہے۔ پرائیویٹ مریضوں کو جو فیسیں ادا کرنا پڑتی ہیں وہ بھی لاہور کے فیشن ایبل ہسپتالوں کے مقابلے میں کہیں کم ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ہسپتالوں کی طرز پر نظام چلایا جا رہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا ادارہ خان صاحب نے عوام کی طرف سے دئیے گئے زکوۃ، صدقات اور عطیات کے ذریعے بنایا اور چلا بھی رہے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس ہسپتال کیلئے زمین اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف نے دی تھی۔ اس طرح تعلیم کے شعبے میں نمل یونیورسٹی بھی خان صاحب کا کارنامہ ہے۔ عمران خان کے 11 نکات میں سے پہلا تعلیم ہے، انہوں نے طنزیہ طور پر کہا کہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعویدار اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلواتے ہیں، یہاں ساڑھے تین کروڑ بچے سرکاری سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ عمران خان کے الزامات کا جواب تو برادر خورد ہی دے سکتے ہیں کہ پنجاب کا آدھا ترقیاتی بجٹ صرف لاہور پر خرچ ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ شہبازشریف نے اپنے دور میں کتنی بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹیاں بنائیں۔ صحت کے شعبے میں بھی عمران خان نے شوکت خانم کی طرز پر نجی شعبے کے تعاون سے ہسپتال تعمیر کرنے کا عندیہ دیا۔ انہوں نے ٹیکس وصولی میں انقلاب لانے کی بھی بات کی لیکن اس ضمن میں کوئی روڈمیپ نہیں دیا۔ اسی طرح انہوں نے کرپشن ختم کرنے کے ارادے کا بھی اظہار کیا لیکن انہوں نے بلاامتیاز احتساب کیلئے ادارے کی تشکیل کا نہیں بتایا بلکہ نیب کو مزید فعال بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ عمران خان نے ملک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے درست طور پر کہا ہے کہ پٹرول، گیس اور بجلی پر ٹیکس کم کرینگے تاکہ ہماری برآمدات دوسرے ملکوں سے مقابلہ کر سکیں۔ یہ بات اصولی طور پر درست ہے کہ پاکستان میں بجلی سب سے مہنگی ہے اور مصنوعات کی تیاری پر لاگت بھی سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اپنے چھٹے نکتے میں نوجوانوں کیلئے نوکریاں پیدا کرنے کی بھی بات کی۔ یہ اس وقت ہی ممکن ہو گاجب سرمایہ کاری کا منجمد پہیہ دوبارہ چل پڑے۔ انہوں نے زراعت کے شعبے میں بھی انقلابی تبدیلی کی بات کی اور ساتھ ہی گنے کے کاشتکاروں کو شوگر مافیا کے استحصال سے نجات دلانے کی بھی بات کی۔ ان کی اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتاکہ فیڈریشن کو مضبوط کیا جائے گا تاکہ چھوٹے صوبوں سے ہونے والی زیادتی کو ختم کیا جا سکے۔ عمران خان نے خواتین کی فلاح و بہبود کے پروگراموں کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ وہ اس لئے بھی ایسا کرینگے کہ آج وہ جو کچھ ہیں اپنی والدہ مرحومہ کی وجہ سے ہے۔ عمران خان کا یہ پروگرام انتہائی دلآویز اور خوش آئند ہے۔ اگرچہ سیاستدان انتخابات سے پہلے ایسے سہانے سپنے دکھاتے ہیں لیکن جیت جانے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال میاں نواز شریف کا مغلائی طرز حکومت ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ کو اپنے پروگرام میں رنگ بھرنے کیلئے سب سے پہلے تو الیکشن جیتنا ہو گا اور اگر وہ حکومت میں آ گئے تو وہ مخصوص مفادپرست جو ان کے ارد گرد الیکٹ ایبل ہونے کے نام پر اکٹھے ہو گئے ہیں ان کے غیر صحت مندانہ اثر و نفوذ سے بچنے کیلئے انہیں کوئی ترکیب نکالنا پڑے گی۔ ویسے خان صاحب کو اس بات کا جواب بھی دینا چاہئے کہ انہوں نے خیبرپختونخوا جہاں ان کی پانچ سال سے حکومت ہے کو اپنے گیارہ نکاتی ایجنڈے کے مطابق کیوں نہیں ڈھالا؟ ویسے بھی جو بساط بچھائی جا رہی ہے اگر وہ اقتدار میں آ گئے اور پارلیمنٹ میں عددی لحاظ سے ان کی حکومت دوسروں کی مرہون منت ہوئی تو وہ اپنے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔ (اتوار کو بلاول بھٹو نے بھی کراچی سے پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے اس بارے میں آئندہ کالم میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ )