گرم خارجہ محاذ؟
عمران حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر خاصی سرگرم ہو گئی ہے، غالباً حکومت کو یہ احساس ہے کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی ختم کیے بغیراقتصادی معاملات حل نہیں ہونگے۔ ماضی کے برعکس عمران خان اور فوجی قیادت کے درمیان خاصا تال میل ہے، وزیراعظم نے سعودی عرب کا دورہ کرنے اور بھارت کو مذاکرات کی دعوت دینے سے پہلے خود جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹرز جا کر تفصیلی بریفنگ لی۔ اسی بنا پر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کو درپیش سکیورٹی، خارجہ اوراقتصادی چیلنجز کے حوالے سے سیاسی اور فوجی قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں۔ عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے مبارکباد کے فون کے جواب میں کہا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بھارتی حکومت ایک قدم بڑھائے گی تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ خان صاحب نے مودی کے مبارکباد کے خط کے جواب میں فوراً ہی یہ پیشکش کر دی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے ملاقات کے لیے کوشاں ہیں۔ بھارتی حکومت نے یہ پیشکش قبول کر لی جس پر پاکستان کے بعض حلقوں نے عمران خان کے اقدام کی خوب تعریف کی اور کہا کہ انھوں نے 2016ء میں ہونیوالے اڑی سیکٹر کے واقعہ میں 20بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے ملتوی شدہ مذاکرات کے عمل کی بحالی کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اگرچہ بھارتی حکومت نے بات چیت کی دعوت قبول کرتے ہوئے ہی واضح کر دیا تھا کہ اسے مذاکرات کا اجرا نہ سمجھا جائے کیونکہ غالبا ً اس کے نزدیک اعتماد سازی کے اور بھی مراحل پاکستان کو طے کرنا پڑیں گے لیکن بات چیت کی پیشکش قبول کرنے کو 24گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ بھارت نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پیشکش واپس لے لی۔ بھارت کے مطابق پاکستان کے بھیجے ہوئے دہشت گردوں کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں تین پولیس اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور عمران خان پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے عزائم مذموم ہیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ جسے مذاکرات کی منسوخی کا جواز بنایا گیا ہے، دعوت قبول کرنے سے دو دن پہلے کا ہے لیکن بھارت کا اصرار ہے کہ مذاکرات کی دعوت قبول کرنے کے بعد ان پولیس اہلکاروں کی مسخ شدہ لاشوں کا انکشاف ہوا ہے۔ نئی دہلی نے مذاکرات منسوخ کرنے کے لیے ایک اور عذر لنگ بھی پیش کیا کہ پاکستان نے کشمیری حریت پسند نوجوان برہان مظفر وانی جسے بھارتی فوج نے جولائی 2016ء میں شہید کر دیا تھا کی تصاویر پر مبنی ڈاک ٹکٹ اجرا کیا ہے۔ موجودہ حکومت کا بجا طور پر یہ اصرار ہے کہ یہ ٹکٹ تو نگران حکومت کے دور میں جولائی میں جاری ہوا تھا۔ یہاں یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب بھارت سے مذاکرات کرنے کے لیے اتنے ریشہ خطمی کیوں تھے؟ کم ازکم شاہ محمود قریشی جو زرداری دور میں جی ایچ کیو کی لائن لیا کرتے تھے پاکستان اور بھارت تعلقات کے مدوجزر سے بخوبی واقف تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں آگ لگی ہوئی ہے اور بھارت کی سکیورٹی فورسز تمام تر ہتھکنڈوں کے استعمال کرنے کے باوجود جذبہ حریت کو دبانے میں یکسر ناکام رہی ہے اور اس صورتحال کا سارا الزام مسلسل پاکستان پر تھونپا جا رہا ہے۔ نریندرمودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی پاکستان اور مسلمان دشمنی کے حوالے سے خاصی بدنام ہے۔ گزشتہ انتخابات میں پاکستان کے برعکس جہاں کوئی بھارت سے تعلقات کا نام نہیں لیتا مودی اور ان کے امیدواروں نے دیگر ایشوز کے علاوہ پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کر کے ووٹروں کو بے وقوف بنایا تھا۔ اب جبکہ وہاں انتخابات قریب آ رہے ہیں تو مودی سرکار کیونکر پاکستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے گی، پہلے ہی بھارتی میڈیا اور اپوزیشن پاکستان کی مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے پر بھارتی حکومت کے لتے لے رہے تھے۔ عمران خان نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے میری طرف سے بھارت کو امن مذاکرات کی بحالی کی دعوت دی گئی تھی لیکن اس پر منفی جواب سے مایوسی ہوئی ہے۔ اپنی پوری زندگی میں نے ادنیٰ لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر قابض ہوتے دیکھا ہے، یہ لوگ بصارت سے عاری اور دور اندیشی سے یکسر محروم ہوتے ہیں۔ اگر عمران خان کا اشارہ مودی کے علاوہ نوازشریف کی طرف بھی ہے تو اس موقع پر اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ چین پاکستان پر زور دیتا ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر کریں۔ حال ہی میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے مبینہ طور پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری لیڈر شپ کو یہی مشورہ دیا ہے کہ آپ بھی ہانگ کانگ اور مکاؤ کی طرح انتظارکریں۔ خود کو اقتصادی طور پر مضبوط کریں اور پھر کشمیر حاصل کریں۔ امریکہ تو روز اول سے ہی رٹ لگا رہا ہے لیکن ہمارے مشیران کرام یہ بنیادی نکتہ بھول جاتے ہیں کہ ہانگ کانگ میں آزادی کی کوئی تحریک نہیں چل رہی تھی جبکہ مقبوضہ کشمیر شروع دن سے ہی بھارتی تسلط کے خلاف سراپا بغاوت ہے۔ اگر پاکستان کشمیر کو فی الحال طاق نسیان میں رکھ کر بھارت سے جپھی ڈالتا ہے تو یہ پاکستان اورکشمیریوں کی قربانیوں سے بے وفائی ہو گی لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانا اوراقتصادی تعاون بڑھانا پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ عمران خان کو پاکستان اور بھارت کے تعلقات اور مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں کا غالبا ً پورا ادراک نہیں ہے۔ انھیں یہ معاملات سمجھنے چاہئیں کہ تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ستر سالہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیا نوازشریف کے خلاف یہ مہم کہ وہ ’را، کا ایجنٹ ہے اور یہ کہ ’مودی کا جو یار ہے غدارہے، اس وقت کی سیاسی ضرورت تھی؟ ۔ حال ہی میں افغانستان میں امریکی سفیر نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان نے افغانستان اور بھارت کو تجارت کے لیے راہداری دینے کی پیشکش کی تھی لیکن بھارت کی طرف سے مذاکرات کے انکار کے بعد اب فوری طور پر اس بیل کے منڈھے چڑھنے کا بھی کوئی امکان نہیں رہا۔ ایسے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے بھارت اور افغانستان کے بارے میں جو ہوائی قلعے بنائے ہوئے تھے وہ دھڑام سے گر گئے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی فوج کے دھمکی آمیز بیان کہ پاکستان کو سبق سیکھانے کا وقت آ گیا ہے، نپا تلا جواب دیا ہے اور بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان اپنے عوام اور خطے کے عوام کی خاطر امن کی راہ تلاش کرنے کا خواہاں ہے۔ عمران خان سعودی عرب کا بھرپور دورہ کرنے کے بعد واپس لوٹے ہیں۔ اگرچہ سرکاری طور پر اس دورے کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی فوائد کے بارے میں صرف یہی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے’ سی پیک، میں شمولیت پررضامندی ظاہر کر دی ہے اوراس بارے میں اگلے ماہ میں مذاکرات ہونگے۔ لیکن بعض اخبارات کے مطابق سعودی عرب گوادر میں آئل سٹی بنائے گا اور اس نے10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔ یہ دعوے مبالغہ آرائی کے زمرے میں ہی آئیں گے۔ سب سے پہلے تو اس پر یقین نہیں آتا کہ امریکہ جو کھلم کھلا ’سی پیک، کا مخالف ہے وہ سعودی عرب کو جس کی سکیورٹی کا وہ ضامن ہے کیونکر اجازت دے گا کہ وہ گوادر میں آئل سٹی بنائے اور ’سی پیک، میں بھرپور حصہ لے۔ عمران خان نے ایک سعودی اخبار کو انٹرویو میں بجا طور پر کہا ہے کہ دنیائے اسلام کو اپنے باہمی تنازعات مذاکرات سے حل کر نے چاہئیں اور یہ بھی کہا ہے کہ حوثیوں کے ساتھ تنازع حل کرانے کے لیے پاکستان ثالثی کا رول ادا کرنے کو تیار ہے لیکن اسی سانس میں عمران خان نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پاکستان اس تناظر میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے اور کسی کو سعودی عر ب پر حملہ کر نے کی اجا زت نہیں دے گا۔ واضح رہے کہ میاں نواز شریف نے بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرانے کا پنگا لیا تھا جب وہ جنوری 2016ء میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے ساتھ ریاض گئے تھے لیکن اس کے نتیجے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میاں صاحب سے ناراض ہو گئے تھے۔ یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ نوازشریف نے سعودی عرب فوج بھیجنے کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا تھا اور متفقہ طور پر یہی فیصلہ ہوا تھا کہ پاکستان کوئی فوجی کردار ادا نہیں کرے گا۔ اب کیا صورتحال ہے وزیراعظم کو اپنے حالیہ دورے کے بارے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے۔