Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Arif Nizami
  3. Ewan Bala, Tah O Bala

Ewan Bala, Tah O Bala

ایوان بالا۔۔۔تہہ و بالا

متحدہ اپوزیشن چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی کے بعد اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے تو اپنے تمام سینیٹرز سے استعفے لے لیے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف سخت برہم ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ غداروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا کیونکہ ووٹنگ تو خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتی ہے۔ 1973ء کے آئین کے تحت قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے خفیہ رائے شماری کی پابندی نہیں ہے جبکہ سینیٹ میں ایسا نہیں ہے یقینا آئین بنانے والوں نے سوچا ہو گا کہ سینیٹ ایوان بالا ہے جہاں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی ہے اور اس میں ایسی شخصیات کو لایا جائے گا جو قابلیت اور بصیرت تو رکھتے ہونگے لیکن الیکشن کے گورکھ دھندے میں نہیں پڑتے۔ بد قسمتی سے عملی طور پر مختلف حکومتوں نے کچھ سینیٹرز کو چھوڑ کر اس اصول پر عمل نہیں کیا اور سیاسی مصلحتوں کے تحت سینیٹ ٹکٹ دیئے جو سیاستدان عام انتخابات میں ناکام ہو جا تے تھے انھیں سینیٹ میں بھیج دیا جاتا تھا بالخصوص مسلم لیگ (ن) نے نورتن اور پی اے ٹائپ لوگوںکو سینیٹ میں بھیجنے کو ترجیح دی۔ مجھے یاد ہے کہ جب فرزند اقبال جسٹس(ر) جاوید اقبال مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن بنے تو انھیں اپنی مختصر ٹرم ختم ہونے پردوبارہ ٹکٹ دینے کا سوال اٹھا۔ میری چودھری شجاعت حسین سے جو اس وقت میاں نوازشریف کے دست راست تھے ملاقات ہوئی، میرا کہنا تھا کہ آپ جسٹس جاوید اقبال جیسی سربر آوردہ شخصیت کو سینیٹ میں لے ہی آئیں جس پر چودھری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں برجستہ کہا "سانوں بہتے پڑھے لکھے بندے نہیں چاہی دے، سینیٹ دا ٹکٹ تے لئے لیند ے نیں، جدوں ووٹ منگن جائی دا اے کہندے نیں سانوں پہلے کنونیس کرو" گویا کہ سینیٹرز سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی لیڈر شپ کے مرغ دست آموز بن جائیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی پارٹی کے وفاداروں کو ہی ٹکٹ دیتی ہیں لیکن اس ضمن میں میرٹ کے بجائے مصلحتیں ہی آڑے آتی ہیں۔ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے حالیہ دنگل میں ناکام ہونے والے پہلوان میر حاصل بزنجو اتنے مایوس تھے کہ انھوں نے ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں کہا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ان کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اس الزام کو سختی سے رد کرتے ہوئے افسوسناک قرار دیا۔ اپوزیشن کو محض مقتدر اداروں کو اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ضمیر فروخت ہوئے، ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا۔ سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن وطن عزیز میں کن انتخابات یا حکومت سازی کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ نہیں ہوئی۔ وفا داریاں تبدیل کرنا ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ بن چکا ہے، اب تو ایسا لگتا ہے کہ سیاست کا اخلاقیا ت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ جب میاں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو جلا وطنی میں تھے تو جنرل پرویز مشرف نے ان دونوں سیاسی جماعتوں پر شب خون مارا اور مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے مسلم لیگ (قائد اعظم) نے جنم لیا یعنی اقتدار کے حصول کے لیے راتوں رات بابائے قوم کے نام پر پارٹی بنائی گئی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی سے پیٹر یاٹس بنے۔ اس سا ری سیاسی انجنیئرنگ کے مدارا لمہام اس وقت کے ڈی جی رینجرز اور پرویز مشرف کے معتمد خصوصی میجر جنرل حسین مہدی تھے، جن کی لاہور میں شاہراہ قائداعظم پر واقع سرکاری رہائش گاہ پر سیاست دانوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ بعدازاں جب یہ دونوں جماعتیں برسر اقتدار آئیں تو انھوں نے سیاسی خانہ بدوشوں کو پھر جی آیاں نوں کہا اور پیپلز پارٹی نے تو پیٹریاٹس کے سربراہ فیصل صالح حیات کو بھی دوبارہ گود لے لیا۔ البتہ میاں برادران کی چودھری برادران سے صلح نہ ہو سکی لیکن کئی لوٹے جو مشکل وقت میں مشرف کے ساتھ مل گئے تھے واپس آ گئے، ان میں محترمہ ماروی میمن بھی شامل تھیں جو مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے سے پہلے ہر جماعت کے ساتھ سودے بازی کرتی رہیں، بالآخر وہ مسلم لیگ (ن) میں آئیں تو انھیں خوب پذیرائی بخشی گئی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سربراہ بنا دیا گیا، وہ سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے بہت قریب تھیں لیکن اب وہ اس جماعت اور اسحق ڈار کو خوب برا بھلا کہہ رہی ہیں۔ سب سے دلچسپ مثال مخدوم خسروبختیار کی ہے جنہوں نے جنوبی صوبے کے نام پر پہلے جنرل پرویزمشرف کے دور میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور بن کر مزے لوٹے پھر مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں بھی وزارت کے ثمرات سے مستفید ہوئے اور اب خان صاحب کی گود میں بیٹھے ہیں۔ ان کے برادر خورد ہاشم جواں بخت پنجاب کے وزیر خزانہ ہیں۔ نیب خسرو بختیار کے خلاف اثاثوں میں تیز رفتار اضافے کے حوالے سے انکوائری بھی کر رہا ہے لیکن وہ بدستور وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات ہیں۔ ایسے کئی سیاسی مسافر ہیں جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے تحریک انصاف میں جا چکے ہیں گویا کہ اس حمام میں کرپشن اور لوٹا کریسی کے خلاف جہاد کرنے والی پی ٹی آئی سمیت تمام بڑی جماعتیں ننگی ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوتے وہ پیچھے رہ جا تے ہیں۔ جب تک سیاست میں دولت کی ریل پیل ہی واحد معیار ہو گا اور انتخاب لڑنا مہنگا کھیل رہے گا، سیاستدان الیکشن میں خرچ کیا گیا پیسہ بمعہ سود وصول کرتے رہیں گے۔ ایسے عناصر کی فائلیں تو بنی ہوئی ہیں جو وقت آنے پر ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہیں اور مرضی کے مطابق ان کا قبلہ تبدیل کرا لیا جاتا ہے۔ سینیٹ میں حالیہ تحریک عدم اعتماد پر لگنے والا مینا بازار بھی انہی خرابیوں کی غمازی کرتا ہے۔ جہاں تک حاصل بزنجو کا تعلق ہے کیا وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے موزوں امید وار تھے؟ وہ بلوچ قوم پرست ہیں اور ان کا تعلق بھی قومیت پرست جماعت سے ہے اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپوزیشن میں ہیں۔ انتہائی شریف اور مرنجان شخصیت ہیں لیکن ایک ایسا منصب جو صدر مملکت کے بعد سب سے بڑا اور صدر مملکت کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر بنتا ہے اس پر بزنجو صاحب کو کیسے متمکن ہونے دیا جاتا؟۔ صحافی عمرچیمہ کے مطابق منحرف ہونے والے سینیٹرزمیں سے سات کا تعلق پیپلزپارٹی، پانچ کا مسلم لیگ (ن) سے جبکہ دو کا تعلق چھوٹی جماعت سے ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ملک کے بہت بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے ذریعے رات گئے نیب کے زیر حراست پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو مطلع کیا گیا کہ سندھ میں آپ کی حکومت توڑنے کی پوری تیاریاں ہیں، آپ کے کچھ ساتھی تو پہلے ہی چھرا گھونپنے کو تیار ہیں، لگتا ہے کہ یہ دھمکی خان صاحب کے کام آ گئی۔ ویسے بھی حکومت اور اس کے طاقتور حواریوں کو یہ خدشہ بھی تھا کہ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی جہاں حکمران جماعت کی معمولی اکثریت ہے پر بھی حملے کیے جائیں گے لہٰذا معاملے کو یہیں روک دیا جائے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ زرداری صاحب نے گزشتہ برس کے شروع میں صادق سنجرانی کو اس قسم کے جوڑ توڑ کے ساتھ چیئرمین سینیٹ بنوایا تھا اور اس کا کریڈٹ بھی لیا تھا اور اب پیپلزپارٹی کے طفیل ہی ان کا منصب بچ گیا۔ فطری طور پر اس بدترین ناکامی کے بعد اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)کے درمیان اعتماد کا فقدان مزید بڑھ گیا ہے۔ دونوں نجی محفلوں میں ایک دوسرے کو پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ خواجہ آصف اور شیری رحمان نے تو اپنے بیانات کے ذریعے بیچ چوراہے بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ ویسے دونوں ہی ٹھیک کہتے ہیں۔ اگر ن لیگ کے پانچ سینیٹر دانستہ طور پر ووٹ خراب نہ کرتے تو سنجرانی فارغ ہو جاتے اور پیپلزپارٹی کے سینیٹرز نے باقاعد ہ منصوبہ بندی کے تحت سات ووٹ صادق سنجرانی کو ڈالے۔ اب اپوزیشن اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت !

Check Also

Bushra Bibi Hum Tumhare Sath Hain

By Gul Bakhshalvi