کورونا کی نئی لہراور جلسے
پاکستان کا شمار معدودے چند ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کورونا وبا کی پہلی لہر پر کامیابی سے قابو پایا گیا۔ عدم برداشت اور محاذ آرائی کے دور میں بھی وفاق اور صوبوں نے اس مہلک وبا سے نبٹنے کے لیے مل کر مربوط حکمت عملی اختیار کی جس سے اموات بڑھنے کی رفتار کم ہوتی گئی اور بالآخر احتیاطی تدابیر جن میں لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن شامل تھیں کو آہستہ آ ہستہ نرم کیا گیا۔ ریستورانوں کی رونقیں بحال، شادی ہالز آباد، تعلیمی ادارے کھل گئے اور معمولات زندگی بحال ہو گئے، یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خصوصی کرم تھا۔ اس بارے میں مختلف اندازے لگائے جا رہے تھے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موذی وبا اس برے اندازسے حملہ آور نہیں ہوئی جیسا کہ یورپ اور امریکہ میں ہوئی جہاں لاکھوں کی تعداد میں اموات ہوئیں اور زندگی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کے لوگوں میں مدافعتی ٹیکے لگنے سے قدرتی طور پر قوت مدافعت پائی جاتی ہے۔ بعض یہ دور کی کوڑی لائے کہ گرم موسم میں کورونا کم پھیلتا ہے لیکن اس کا درست جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ اگر گرمی میں کورونا نہیں پھیلتا تو بھارت کے ان علاقوں میں جہاں شدید گرمی پڑتی ہے وہاں کورونا آگ کی طرح نہ پھیلتا۔ ایک بات جو خاص طورپر قابل غور ہے کہ پاکستان میں آبادی کی کثیر تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ وہاں پر ماسک اور دیگر ایس اوپیز پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے لیکن معاملات پھر بھی قابو میں رہے۔ اب جبکہ کورونا کی نئی لہر بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔
تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں کورونا شروع ہونے سے اب تک مجموعی طور پر وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 3 لاکھ 82 ہزارسے زائد ہے جس میں سے 3 لاکھ 31 ہزار760 صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ اموات کی تعداد 7 ہزار 760 تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک میں کورونا وائرس کے 2 ہزار 954 کیسز اور 48 اموات کا اضافہ رپورٹ ہوا جبکہ 875 مریض صحت یاب بھی ہوئے جس کے بعد فعال کیسز کی تعداد 41 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ دوسری طرف ملک میں سب سے زیادہ کورونا وائرس کے مثبت آنے کی شرح حیدرآباد میں 33.51 فیصد ریکارڈ کی گئی جب کہ میرپور آزاد کشمیر میں 25، پشاور اور مظفرآباد 17.89، کراچی 12.63، گوجرانوالہ 1.16، اسلام آباد 5.52، کوئٹہ 5.01 اور لاہور میں 3.93 فیصد شرح ریکارڈ کی گئی۔ واضح رہے کہ ملک میں اس عالمی وبا کا پہلا کیس 26 فروری 2020ء کو رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد سے جون تک وبا کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھی گئی تھی۔ تاہم جولائی میں صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی اور یہ سلسلہ ستمبر کے اوائل تک جاری رہا۔ ستمبر کے وسط سے ایک مرتبہ پھر کیسز میں اضافہ ہونا شروع ہوا اور اکتوبر میں اس میں مزید تیزی آگئی، جس کا رجحان نومبر میں کافی بڑھتا نظر آرہا ہے اور یومیہ کیسز جو سینکڑوں میں اور اموات جو درجن سے بھی کم ہونا شروع ہوگئی تھیں بالترتیب اب ہزاروں اور درجنوں میں پہنچ چکی ہیں۔
دوسری طرف کورونا سے متاثر ہونے والے کاروبار اب قریباً ٹھپ ہو چکے ہیں اور ان کے مالکان سراپا احتجاج ہیں بالخصوص شادی گھروں کے مالکان تو سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ پیر کو این سی او سی کے اجلاس میں جو اعداد وشمار بتائے گئے وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی صدارت میں چاروں صوبائی وزرائے تعلیم کی بریفنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 26 نومبر سے 11 جنوری تک تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے جائیں گے، اس فیصلے کا اطلاق دینی مدارس پر بھی ہو گا۔
کورونا کے اس ماحول میں بھی سیاست کا کاروبار معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ حکومت کے بصد اصرار کے باوجود اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے اپنے جلسوں کا پروگرام ملتوی کرنے سے انکار کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ اب پیچھے ہٹنا گناہ کبیرہ ہو گا۔ ناقدین کے مطابق پشاور کا جلسہ گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے مقابلے میں حاضری کے لحا ظ سے کمزور تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کا اصرار ہے کہ جنوری تک حکومت کی چھٹی ہو جائے گی۔ پہلے یہی رہنما فرماتے تھے کہ حکومت دسمبر تک گھر چلی جائیگی، نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر ایک ماہ کی ایکسٹینشن، دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم کے طے شد ہ شیڈول کے مطابق ملتان اور لاہور کے جلسے باقی ہیں۔
یہ صورتحال حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بقائے باہمی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تویہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پی ڈی ایم کے تمام جلسے حاضری کے لحاظ سے کامیاب تھے۔ مزید برآں ان سے میاں نوازشریف کے بیانیے کو تقویت حاصل ہوئی ہے، اپوزیشن کے لیے یہ کا میابی کافی ہونی چاہیے۔ جہاں تک حکومت گرانے کا تعلق ہے نہ وہ اپوزیشن کی اجازت سے اقتدار پر مسلط ہے اور نہ ہی جلسوں کے ذریعے ختم ہو گی۔ حکومت جانے اور آنے کے کئی لوازمات ہیں جن سے مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری اور میاں نواز شریف اچھی طرح واقف ہیں۔ حکومت کو اگر بحث کی خاطر ہی مدت پوری کرنے سے پہلے کان سے پکڑ کر نکال دیا جائے تو اس خلا کو کس طرح پُر کیا جائے گا۔ کیا مولانا اینڈ کمپنی کو ئی عبوری حکومت بنانے کے خواہشمند ہیں یا وہ کس کو لانا چاہتے ہیں اور کن لوگوں کو اقتدار سونپنے کے حامی ہیں۔ بہتر ہو گا کہ سب صبر سے کام لیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔
اس وقت سب سے اولین ترجیح کورونا وبا پر قابو پانا ہونی چاہئے۔ اس مقصد کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک صفحے پرہونا چاہیے۔ اس حوالے سے حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اس وقت تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود معیشت کی حالت پتلی ہے اور ملک مزید اقتصادی بدحالی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وقت محاذآرائی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے تعاون اور بقائے باہمی کے تحت گزارنا چاہیے۔ انتقامی کارروائیوں کے حوالے سے اپوزیشن کی جائز شکایات کو دور کرنا ہو گا لیکن ا س کے لیے بڑادل دکھانا پڑے گا جس کا مظاہرہ کرنے کیلئے فریقین میں فقدان ہے۔