بلاول کی انتخابی مہم
بلاول بھٹو زرداری بھی میدان میں اتر آئے ہیں، انہوں نے اپنی سیاسی مہم کا آغاز کرتے ہوئے کراچی میں لیاقت آباد کی گراؤنڈ میں خطاب کیا چونکہ عروس البلاد کراچی حالیہ دہائیوں میں ایم کیو ایم کا گڑھ بن چکا تھا اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں فارغ ہو گئی تھیں لہٰذا یہ فطری بات تھی کہ پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن نے توپوں کا رخ بھی کراچی کے مہاجرووٹوں کے حصہ داروں کی طرف رکھا۔ بلاول بھٹو کا جلسہ کیوں کہ زیادہ تر کراچی کی سیاست تک محدود تھا لہٰذا اس کا عمران خان کے لاہور کے جلسے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جس میں زیادہ تعداد باہر سے تھی اور لاہور سے قدرے کم تھی۔ بلاول بھٹو نے ایم کیو ایم کو کراچی کی’ مستقل قومی مصیبت، قرار دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ایم کیو ایم کے ہر دھڑے سے پیپلز پارٹی کراچی کے عوام کو نجات دلائے گی۔ اگرچہ میاں نواز شریف دعویدار ہیں کہ انہوں نے کراچی کی روشنیاں بحال کیں، بلاول کا کہنا ہے کہ یہ کام ہماری حکومت نے کیا۔ ویسے دیکھا جائے تو کراچی کی روشنیاں بحال کرنے میں وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور سکیورٹی اداروں سمیت سب کو کریڈٹ جاتا ہے لہٰذا پیپلز پارٹی اکیلے اس کام کا کریڈٹ نہیں لے سکتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم لندن اور ایم کیو ایم پاکستان کی کراچی میں کمر ٹوٹنے کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو گا۔ یقیناً یہ وہ کراچی نہیں ہے جہاں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا اور الطاف حسین کی ایک دھمکی پر سارا شہر بند ہو جاتا تھا۔ عجیب ستم ظریفی یہ تھی کہ ایم کیو ایم حکومت میں بھی ہوتی تھی اور شہر کو شٹ ڈاؤن بھی کرتی تھی۔ الطاف حسین کا دبدبہ اس حد تک تھا کہ اس کے ایک اشارے پر ملک کے تمام ٹی وی چینل گھٹنے ٹیک دیتے تھے اوردھمکی آمیز خطابات لندن سے بھی براہ راست نشر کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ایم کیو ایم کی کوکھ سے کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال کی سربراہی میں پاک سر زمین پارٹی جنم لے چکی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان بھی دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے اور ایم کیو ایم پاکستان سے بہت سے لوگ مصطفی کمال کی پارٹی میں جا چکے ہیں یا مزیدجانے والے ہیں۔ سیاسی انجینئرنگ کے پروگرام کے تحت پاک سر زمین پارٹی کنگز پارٹی نظر آتی ہے۔ ظاہر ہے پیپلزپارٹی کو اندرون سندھ کے علاوہ شہری سندھ سے بھی نشستیں درکار ہیں اور بلاول کا جلسہ اسی مہم کی کڑی ہے۔ انتخابات سے پہلے ایک عجیب روایت چل پڑی ہے، سیاسی حریف ایک دوسرے کو کسی نہ کسی جماعت کیساتھ ملا کر اس کا چٹا بٹا قرار دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن کے مطابق پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور ایم کیو ایم کے بانی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بلاول بھٹو کے مطابق اس مرتبہ سندھ کے عوام عمران خان کے روپ میں کسی اور الطاف حسین کو قبول نہیں کرینگے حالانکہ عمران خان کی سیاست الطاف حسین کی سیاست سے یکسر مختلف اور منفرد ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے قرار دیتے ہیں جبکہ شریف برادران یہی الزام عمران خان پر عائد کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی کسی کا چٹا بٹا نہیں۔ حسب ضرورت سیاستدان ایک دوسرے کو جپھی ڈالتے رہتے ہیں جیسا کہ عمران خان نے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کے صادق سنجرانی پر ٹھپہ لگا دیا تھا۔ بلاول نے جو اب خاصی اچھی تقریر کرنے لگے ہیں طعن و تشنیع کے تیر خادم اعلیٰ پر بھی برسائے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ کراچی کو نیو یارک بنانے سے پہلے گوالمنڈی لاہور کے گٹر تو صاف کرا لیں۔ یقیناً کراچی میں ایم کیو ایم کا دبدبہ ختم ہونے کے بعد سب سیاسی جماعتیں وہاں اگلے انتخابات میں اپنا اپنا حصہ لینے کیلئے سرگرداں ہیں لیکن جیسا کہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ محنت ہم کرتے تھے لیکن خوف و ہراس کی فضا میں میلہ ایم کیو ایم لوٹ کر لے جاتی تھی، اب ایسا نہیں ہو گا۔ پیپلز پارٹی اس سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے بہتر پوزیشن میں ہے۔ یقیناً میاں نواز شریف یہ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی میں امن کی بحالی ان کا کارنامہ ہے اور شہباز شریف کراچی کے طوفانی دورے میں پاکستان کے اس بزنس ہب کی شکل بدلنے کا دلآویز وعدہ کر چکے ہیں لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں نہ تو تحریک انصاف اور نہ ہی مسلم لیگ ن نے وہاں اپنی کوئی حیثیت بنائی ہے۔ ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کو نامعلوم فرشتے ہی کراچی، حیدر آباد اور سکھر سے ووٹ دلوا کر اسمبلیوں میں لائیں گے۔ شاید اس حوالے سے پیپلز پارٹی کو بھی کچھ زیادہ نہ ملے اورمیلہ پاک سر زمین پارٹی کراچی کے عوام کو سہانے خواب دکھا تے ہوئے لوٹ لے۔ بلاول نے ووٹ مانگتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر ہمیں ووٹ دئیے گئے تو ہم کراچی میں روشنیاں بحال کر دیں گے۔ مفت تعلیم، صحت کی معیاری سہولتیں اور پانی کی ترسیل کا نظا م بھی بہتر بنائینگے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے کام حکومت سندھ نے جو وہاں ایک دہائی سے اقتدار میں ہے پہلے کیوں نہ سرانجام دئیے۔ ڈیفنس اور کلفٹن کے فیشن ایبل علاقوں کے سوا کراچی میں سڑکیں ہیں اور نہ ہی نکاسی آب کا نظام، صفائی کا حال بھی ابتر ہے۔ شہر میں پانی کی قلت کے حوالے سے ٹینکر مافیا منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مافیا میں پیپلز پارٹی کے بعض رہنما بھی ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو ایک انتہائی روشن خیال، باشعور اور پڑھے لکھے نوجوان ہیں، انہیں بہت پہلے ان معاملات پر توجہ دینی چاہئے تھی لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اگر انہیں کراچی کو درپیش گوناگوں مسائل کا ادراک ہو ہی گیا ہے تو امکان غالب ہے کہ آئندہ حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہو گی۔ لہٰذا ان کو کراچی کے علاوہ پورے صوبہ سندھ کا بھی خیال کرنا چاہئے جو غربت اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ بلاول بھٹو کو اپنے والد صاحب کی رہنمائی میں پارٹی کی طنابیں پوری طرح اپنے ہاتھ میں لینی چاہئیں اور اگلے پانچ سال کیلئے لائحہ عمل تیار کر لینا چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کافی دنوں سے بلاول ہاؤس لاہور میں مقیم ہیں۔ یقیناً وہ پنجاب میں پارٹی کی دگرگوں سیاسی اور انتخابی صورتحال کو درست کرنے کیلئے محنت کر رہے ہیں لیکن یہ چیلنج بہت کٹھن ہے بالخصوص پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن کے جانے کے بعد جن کی تحریک انصاف میں جانے کی خبریں عرصہ دراز سے گردش کر رہی تھیں، پارٹی کیلئے حالات اتنے موافق نہیں۔ آ جا کر پارٹی کی نمایاں لیڈر شپ میں قمر زمان کائرہ ہی نظر آتے ہیں۔ جہاں تک سینیٹ میں سابق اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا تعلق ہے وہ بھی ایک طرف ہو گئے ہیں حالانکہ پارٹی کو ان کی جملہ صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اگر پنجاب ہی سے سندھ کے کوٹے میں چند سینیٹرز نامزد کرنا پارٹی کیلئے ضروری تھا تو وہ مصطفی نواز کھوکھر کے بجائے چودھری صاحب کو کر دیتے۔ یہ افواہیں بھی گرم ہیں کہ چودھری صاحب پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ رہے ہیں لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے درست کہا کہ اس عمر میں میں کہاں جاؤں حالانکہ چودھری اعتزاز احسن اتنے بے بس نہیں ہوئے۔ اگر وہ چاہیں تو تحریک انصاف میں بھی جا سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرینگے۔ زرداری صاحب نے گلہ کیا ہے کہ نواز شریف نے انہیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑا کر خود ہاتھ ملا لیا۔ یقیناًان کے اس الزام میں اس حد تک صداقت ہے جب آصف زرداری اور ان کے ساتھی اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے زیر عتاب آئے تو میاں صاحب نے ان سے اس حد تک ہاتھ کھینچ لیا کہ زرداری صاحب کے "اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا"کے ریمارکس کی روشنی میں انہیں پہلے سے دئیے گئے کھانے کا دعوت نامہ بھی منسوخ کر دیا۔