اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
ایک نظم کا یہ مصرعہ "اے قائد ہم شرمندہ ہیں، بانی پاکستان کے افکا ر پر عمل درآمد سے مسلسل اغماض برتنے کی بنا پر ایک محاورہ کی سی شکل اختیار کر چکا ہے۔ امسال بھی قائداعظم محمد علی جناحؒ کی71ویں برسی خاموشی سے گزر گئی، حکمران جماعت نے قائد کی یاد منانے کے لیے کسی یادگاری تقریب کا اہتمام نہیں کیا۔ مقام شکر ہے کہ کم ازکم قائداعظمؒ کی جماعت ہونے کی دعویدار مسلم لیگ (ن) اس امر کے باوجود کہ شہبازشریف کے سوا چوٹی کی لیڈر شپ پابند سلاسل ہے نے لاہور میں ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ اس مرتبہ یوم قائد کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن منظر عام پر نہیں آئے کیونکہ اس روز یوم عاشور کی تعطیل کے باعث اخبارات شائع نہیں ہوئے۔ قائد کی یاد منانے کا بہترین طریقہ تو یہی ہے کہ ان کے افکار پر عمل درآمد کرنے کے عزم کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی تجزیہ کیا جائے کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے 72برس گزرنے کے باوجود ہم قائد کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر پائے، نیز یہ کہ ہم قائد کے پیغام سے کس قدر دور ہیں؟۔ اس ضمن میں مایوسی پھیلانا قرین انصاف نہ ہو گا۔ قائد کے پاکستان میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن جب ہم سرحد پار بھارت میںبسنے والے بیس کروڑ مسلمانوں کی حالت زار دیکھتے ہیں تو ماسوائے معدودے چند ناشکروں کے، ہمیں پاکستان کے باسیوں کو دیکھ کر فخر ہوتا ہے۔ ویسے تو نریندرمودی کی مسلمان اور اقلیت دشمن پالیسیوں سے اب یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اور اس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ ہندو توا کی پرچارک بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصیت آئینی حیثیت ختم کرنے کے غاصبانہ اقدام کے مابعد اور اس سے پہلے بھی جس انداز سے بھارتی سکیورٹی فورسز مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کر رہی ہیں وہ اب دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم عمران خان قائد اعظمؒ کی 11اگست 1947ئکی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ "آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ، یقینا "سیکولر "بھارت میں اقلیتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
اگرچہ وطن عزیز میں ابھی دگرگوں صورتحال ہے لیکن کیا پاکستان کے مسلمانوں اور اشرافیہ نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ ہم اپنے ہاں اقلیتوں کے ساتھ قائداعظمؒ کے فرمودات کی روشنی میں کیسا سلوک کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں آمر ضیاء الحق نے جس طرح 1973ء کے آئین میں اپنی ڈھب کی شقیں شامل کیں وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ناقابل رشک باب ہے کہ آج بھی کئی ایسی شقیں ہیں جو قائد کے افکار کے یکسرمنافی ہیں۔ جداگانہ انتخاب کا احیا نظریہ پاکستان کی یکسر نفی تھی لیکن کچھ رجعت پسند عناصر مصر تھے کہ یہی تکمیل پاکستان ہے۔ مقام شکر ہے کہ اقلیتوں کیلئے جداگانہ انتخابات ایک آمر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ختم ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان ریاست مدینہ کا بہت ذکر کرتے ہیں، ان کے مطابق تبدیلی پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے سے ہی آئے گی لیکن وہ آج تک یہ واضح نہیں کر سکے کہ ایسی ریاست کے خدوخال کیا ہونگے، وہ سیدھی بات کیوں نہیں کرتے کہ پاکستان کو قائد کا پاکستان بنائیں گے لیکن قائد کا پاکستان بنانے کے لیے جہد مسلسل کرنا ہو گی۔ جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانا ہو گی، مخالف کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا، غریب کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنا ہو گی اور ریاست میں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت بڑھانا ہو گی، اس وقت تو ان معاملات پر ریاست بہت پیچھے ہے۔ پنجاب پولیس کا معاملہ ہی لےلیں، آئی جی پنجاب نے پولیس تشدد اور زیادتیوں کے بارے میں تواتر سے آنے والی شکایات پر بجائے معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور اصلاح کرنے کے پولیس اہلکاروں پر تھانوں میں موبائل فون لانے، سمارٹ فون جو تصویر اور ویڈیو بنا سکتے ہیں لانے اور رکھنے پر پابندی عائد کر دی ہے، اس کے علاوہ اب اس پابند ی کا اطلاق سائلین پر بھی ہو گا۔ بجائے پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بے گناہ افراد کی وائرل ہونے والی ویڈیوز کی بنا پر تشدد کے مرتکب افراد کی بیخ کنی کی جاتی الٹا نزلہ پولیس کے ہاتھوں پسنے والے عوام پر ہی گرا ہے۔ گویا کہ پولیس کی پر تشدد کارروائیاں تھانوںاور عقوبت خانوں تک ہی محدود رہیں تاکہ" سب اچھا، نظر آئے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک خاتون کانسٹیبل اس بنا پر سروس سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئی کہ ایک وکیل نے اس پر تشدد کیا لیکن بوجوہ ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی جس انداز سے حکومت باقاعدہ اپنی پولیس کو تحفظ فراہم کر رہی ہے کیا یہی قائداعظم کا پاکستان ہے، کیا یہی خان صاحب کی ریاست مدینہ ہے؟۔
قائداعظم نے پاکستان کا حصول ایک جمہوری اور آئینی جدوجہد کے ذریعے کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے پاکستان میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا احیا ہونا چاہیے لیکن ہوا اس کے الٹ۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک نصف سے زیادہ مدت اقتدار پر فوجی طالع آزما قابض رہے اور انھوں نے جمہوری اقدار کا ستیاناس کر کے رکھ دیا۔ لیکن اس حوالے سے ہمارے سیاستدانوں کو بھی بری الذمہ قرار دینا مبنی بر انصا ف نہیں ہو گا۔ ابھی قائد کی آنکھیں بند نہیں ہوئی تھیں کہ سیاستدان باہمی چپقلش میں الجھ گئے اور ناجائز طور پر حصول دولت کے دھندے میں پڑ گئے۔ پاکستان میں کرپشن کا پہلا منبع متروکہ املاک ثابت ہوا اور اس کے ذریعے سیاستدانوں اور ان کے حواریوں نے بہتی گنگا میںخوب ہاتھ دھوئے۔ 1958ء سے قبل سازشوں کے ذریعے حکومتیں بنتی اور فارغ ہو جاتی تھیں۔ بعض حکومتیں تو چند مہنیو ں اورہفتوں کی مہمان تھیں۔ اس تناظر میں آرمی چیف جنرل ایوب خان جو شروع سے ہی تاک میں تھے نے 7 اکتوبر 1958ء کو اقتدار پر شب خون مارا اور اس مارشل لا کو انقلاب کا نام دے دیا۔ یہ اقدام وطن عزیز میں مارشل لا کی نئی ریت کا آغاز تھا۔ جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی مملکت خداداد پاکستان میں چار مارشل لا لگ چکے ہیں۔ نیم سیاسی نیم فوجی حکومتیں اس کے علاوہ ہیں۔ قائد کے پاکستان میں جمہوریت کی اتنی بے تو قیری ہوئی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں بلاواسطہ طور پر منتخب 80ہزار بی ڈی ممبروں کو جمہوریت کا مالک بنا دیا گیا۔ اس نظام کو جسے بنیادی جمہوریت کا نام دیا گیا کے تحت جب قائد کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے1964ء میں صدارتی انتخاب لڑا تو انھیں دھاند لی کے ذریعے شکست سے دوچار کر دیا گیا۔ ایوب خان کی پالیسیاں بالآخر سقوط ڈھاکہ پرمنتہج ہوئیں۔ پاکستان میں ایک اور بڑا ظلم 1958ء سے قبل ہی ون یونٹ کا قیام تھا۔ قائداعظم کے فرمودات کے یکسر برعکس مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم کرنے کے بجائے مغربی پاکستان کو صوبوںکو ختم کر کے پیرٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ یہ فارمولہ ایک وفاقی جمہوری پاکستان کے قائداعظم کے ویژن کے یکسر خلاف تھا۔ اسے ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ ایوب خان کے جانشین یحییٰ خان نے ایل ایف او کے ذریعے صوبے بحال کئے۔ قائد کے افکار اور تعلیمات کو صرف نظر کرنے کی تاریخ طویل ہے۔ یہ مجرمانہ اغماض آج بھی جاری ہے جس کا ایک کالم میں احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔