امریکہ سے نیا تنازع
امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کیس میں احمد عمر شیخ اور اس کے ساتھیوں کی سپریم کورٹ سے بریت کے باعث امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک نیا قضیہ کھڑا ہو گیا ہے۔ پاکستان کے خارجہ پالیسی سازوں کو قوی امید تھی جو با ئیڈن کی نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تجدید تعلقات بہتر اور مثبت انداز میں شروع ہونگے بالخصوص افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا اور وہاں قیام امن کے لیے پا کستانی کوششوں کو سراہا جائے گا لیکن اس تنازع نے فی الحال تو ان معاملات اور آس پر کسی حد تک پا نی پھیر دیا ہے۔ امریکہ کے وزیرخارجہ اینٹنی بلنکن کی بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ٹیلی فونک گفتگو ہوئی جس میں دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری اور مشترکہ معاملات سے متعلق بات چیت کی گئی۔ دونوں عہدیداروں کے درمیان کورونا ویکسین سے متعلق اقدامات، علاقائی تعاون اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید بڑھانے سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے گفتگو میں خطے میں بھارت کے کردار اور علاقائی تعاون میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ خطے میں امریکہ اور بھارت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور تعاون کی راہیں تلاش کی جائیں گی۔ امریکی وزیر خارجہ کی اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر خا رجہ شاہ محمود قریشی سے بھی بات ہوئی۔
اس ٹیلی فونک گفتگو کا موضوع ڈینیئل پرل کے قتل میں ملو ث ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا یہ فیصلہ دہشتگردی کے متاثرین کیلئے تکلیف دہ ہے، عمر شیخ پر امریکہ میں مقدمہ چلائیں گے، ڈینیئل پر ل کے خاندان کو انصاف کے حصول کیلئے پرعزم ہیں۔ آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان امریکہ کے ما بین تعا ون اور علاقائی استحکام کو فروغ دینے کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اس ٹیلی فون سے یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ بھا رت کے ساتھ امریکہ کے سٹرٹیجک تعلقات اور تعا ون میں کمی آنے کے بجائے جوبائیڈن دور میں بھی اضافہ ہو گا۔
پاکستان نے جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے سے جو بڑی امید یں وا بستہ کر رکھی تھیں وہ ٹوٹتی نظر آتی ہیں۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن تجربہ کا ر سیا ستدان ہیں جو پاکستان کا دور ہ بھی کر چکے ہیں، سیاستدانوں کو بھی جانتے ہیں بلکہ انہیں یہاں کے معاملات کا ادراک بھی ہے۔ اب لگتا ہے کہ امریکہ کے ڈومور، کے مطالبات میں تسلسل آ جائے گا۔ پاکستان چاہے بھی تو چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو مفادات کی بھینٹ چڑھا کر امریکہ کی گود میں نہیں بیٹھ سکتا کیونکہ بھارت چین کے خلاف امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے۔ اتنی بھاری قیمت ادا کرنا پاکستان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لحاظ سے سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے کی ٹائمنگ انتہائی خراب تھی جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی شاہ محمود قریشی سے گفتگو کا موضوع تجدیدتعلقات کے بجائے ڈینیئل پرل کیس کے ملزموں کی رہائی تھا۔ پاکستان نے امریکہ سے اقتصادی تعلقا ت کے فروغ کے لیے ایک باقاعدہ پلان مرتب کر رکھا تھا جس کی بنیاد یہ تھی کہ اب حکومت پاکستان کی پہلی ترجیح امریکہ سے اقتصادی پارٹنر شپ ہو گی۔ ایک امریکی تجزیہ کار پال کروگمن کے مطابق پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس ٹیلی فونک گفتگو کی جوروداد سرکاری طور پر جاری کی اس میں ڈینیئل پرل کے قتل کیس کا ذکر بیان کے آخر میں سرسری طور پر کیا گیا ہے لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے جاری کردہ بیان کا آغاز ہی ڈیینیئل پرل کیس سے ہوتا ہے۔ امریکی تجزیہ کار پال کروگمن کے مطابق یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان عدم اعتما د کی خلیج کم نہیں ہوئی۔ ویسے تو عام تاثر یہ تھا کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کے زبانی کلامی تعلقات خوشگوار تھے لیکن عملی طور پر امریکہ کی طرف سے کوئی اظہار نہیں ہوا۔ گویا کہ ٹرمپ کے خان صاحب کے بارے میں اچھے فقرے بول دینا محض رسمی ہی تھا بلکہ ٹرمپ نے تو پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کر دی تھی جو اب بھی بند ہے۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اگر کوئی تعاون ہے تو وہ افغانستان کے تناظر میں عسکری معاملات پر ہے۔
ڈینیئل پرل کیس کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کے مابین بعض اہم معاملات پر تضادات اور اختلافات موجو د ہیں۔ اگرچہ سندھ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی ہے۔ تاہم اس معاملے کو حل کرنے کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت کو سیاست اور وقتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر سوچنا پڑے گا کیونکہ بعض ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وفاق نے سندھ حکومت کے لیے شرمندگی کا سامان پید اکرنے کے لیے ڈینیئل پرل کیس کی صحیح انداز میں پیروی نہیں کی حالانکہ قومی معاملات پر اس قسم کی سیاسی مصلحتیں مہنگی پڑ سکتی ہیں۔
ڈینیئل پرل کیس کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مزید کئی معاملات تشنہ اور حل طلب ہیں۔ مثال کے طورپر ایک طرف تو اسلام آباد افغانستان میں امریکہ کی پوری مدد کر رہا ہے دوسری طرف امریکہ، بھارت اور کئی مغربی ممالک یہ الزامات عائد کرتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں تخریبی کارروائیاں کرنے والے افغان طالبان کی خفیہ پشت پناہی بھی کررہا ہے جس کی پاکستان کئی مرتبہ دوٹوک ترد ید بھی کرچکا ہے لیکن امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوتا اور واشنگٹن سے یہ صدا آتی رہتی ہے کہ ڈومور،۔ دوسرا اہم مسئلہ ایف اے ٹی ایف کا ہے جس کے تحت پاکستان کئی اقدامات کرنے کے باوجود بھی گرے لسٹ میں ہے۔ امریکہ کا اصرار ہے کہ دہشت گردی کے لیے فارن فنڈنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ اسے اب گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا لیکن ایسے لگتا ہے کہ دباؤبڑھانے کے لیے شاید ابھی گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ دوطرفہ اقتصادی، فوجی اور دیگر شعبوں میں واشنگٹن اور اسلام آباد کے مابین تعاون کی اہم ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لیے امریکہ پاکستان سے بھاری قیمت مانگے گاجس کا بنیادی عنصر پاکستان کا سی پیک، سے پیچھے ہٹنا ہے جو شاید اب پاکستان کے لیے ممکن نہ ہو۔
ایک بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ناتے بھارت کو پاکستان کے مقا بلے میں برتری حاصل ہے۔ مثال کے طور پر کورونا کی وجہ سے ان گئے گزرے حالا ت میں بھی بھارت کے جی ڈی پی میں اضا فے کی شرح 8.8فیصد بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان کی یہ شرح بہترین اندازوں کے مطابق 2.5فیصد سے زیا دہ نہیں ہے۔ اس پس منظرمیں آپس میں لڑنے جھگڑنے کے بجائے پاکستان کو نہ صرف جمہو ریت کا رول ماڈل بلکہ اقتصادی طور پر مضبوط بنانا ہو گا۔ بد قسمتی سے فی الحال اس سپر ٹ کا فقدان ہے۔