امریکہ ،پاکستان ایک صفحے پر ؟
وزیراعظم عمران خان آج وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ غالبا ً کسی پاکستانی سربراہ مملکت یا حکومت کی پانچ برسوں میں اعلیٰ امریکی قیادت سے یہ پہلی ملاقات ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے مابین مذاکرات ایک ایسے مرحلے پر ہو رہے ہیں جب یہ ممالک ماضی میں خودکو ایک دوسر ے کا حلیف اور پھر فرینڈاینمی Frenemyکہتے رہے ہیں یعنی تعلقات یکسر سرد مہر ی کا شکار تھے جس کی بنا پر صدر ٹرمپ نے آتے ہی پاکستان کے لیے فوجی اور اقتصادی امداد یہ کہہ کر بند کر دی تھی کہ ہماری امداد افغانستان میں ہمارے ہی جوانوں کو مارنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ امریکہ کا پاکستان سے ’ڈومور، کا مطالبہ ایک طرح سے گردان کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ بھارتی راگ الاپتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردی کے ہر واقعے اور کشمیر میں معاملات بگڑنے کا ذمہ دار پا کستان کو قرار دیا جاتا تھا۔ چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات بالخصوص ’سی پیک، صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو شدید کھٹکتا ہے حتیٰ کہ جب پاکستان آئی ایم ایف پیکیج کے لیے ابتدائی طور پر مذاکرات کا آغاز کر رہا تھا تو ٹرمپ نے کہہ دیا تھا کہ ہم پاکستان کو اس لیے آئی ایم ایف کا پیکیج نہیں دیں گے کہ وہ اس رقم سے چین کے قرضے اتارے گا۔ آخر وہ کونسی تبدیلی آئی ہے جس کی بنا پر امریکہ نے پاکستان کو دوبارہ جپھی ڈالنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر بھارت میں خوب ہا ہا کار مچی ہوئی ہے۔ بھارتی تجزیہ کار بہادرا کمار جو بلا کم و کاست بات کرنے کے لیے مشہور ہیں ان کے مطابق عمران خان کا یہ دورہ بھارت کے لیے کڑوی گولیاں نگلنے کے مترادف ہو گا کیو نکہ نریندر مودی تو اپنے تئیں پاکستان کو یک وتنہا کر کے چین کے خلاف ایک سٹرٹیجک محاذ بنا کر امر یکہ کی گود میں جا بیٹھے تھے۔ بہادرا کمار کا کہنا ہے جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے، پاکستان واشنگٹن کا قریب ترین پارٹنر بن چکا ہے اور اس ضمن میں بھارت کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے۔ بھارت کا سب سے بڑا بیانیہ یہی تھا کہ نومبر 2008 ء میں ہونے والا ممبئی حملہ جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی کارستانی تھی اور وہ پاکستان میں بلا روک ٹوک دندناتا پھرتا ہے۔ اسلام آباد نے حافظ سعید کو گرفتار کر کے یکدم اس غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے امریکہ کے دورے کے بعد حافظ صاحب کو رہا کر دیا جائے گا لیکن ایسا ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ حافظ سعید کی گرفتاری پاکستان کے پالیسی سازوں کی طالبان اور جہادیوں کے بارے میں ایک نئی پالیسی کی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پہلے ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے تھے کہ ہم خطے میں ہونے والی دہشت گردی کی کیسے حمایت کر سکتے ہیں کیونکہ ہم تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ امریکہ کو شکایت تھی کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے مخلص نہیں ہے اور محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتا رہتا ہے حالانکہ حقیقی طور پر پاکستان کی ہمیشہ یہی سوچ رہی ہے کہ افغانستان کا سیا سی حل تلاش کرنا پڑے گا کیونکہ فوجی کارروائیوں کے حوالے سے افغانستان کو سپر طاقتوں کا قبرستان قرار دیا جاتا ہے جس میں برطانیہ، سوویت یونین کے بعد اب امریکہ کو بھی دفن ہونا پڑ رہا ہے۔ امریکی انتظامیہ کے مطابق پاکستان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے علاوہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کرانے میں مخلص ہے۔ ستمبر تک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں یہ مذاکرات چلتے رہے اور اگر پاکستان نے طالبان کو افغانستان سے مذاکرات کرنے پرآمادہ کر لیا اور رواں برس کے اواخر تک امریکی فوج کا انخلا شروع ہو گیا تو یہ پاکستان کے لیے طرہ امتیاز ہو گا۔ اس وقت صورتحال انتہائی نازک ہے کیونکہ افغان طالبان جس شدت سے افغانستان میں حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ یہ اصرار کرے پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی سیز فائر کرائے۔ ان حملوں کے لیے فی الحال تو پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا رہا لیکن جیسا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس ویلز نے گزشتہ ماہ کانگریس کے سامنے اپنے تفصیلی بیان میں کہا تھا کہ ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ پاکستان نے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کا مقصد طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا تھا لیکن ساتھ ساتھ یہ پخ بھی لگا دی کہ اس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پاکستان نے زیر حراست طالبان لیڈر ملا برادرکو رہا کر کے اور طالبان لیڈر شپ کے قطر کے سفر کے لیے سہولت کار بن کر کلید ی رول ادا کیا حتیٰ کہ ملا برادر چین کا بھی دورہ کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات ہے کہ ان مذاکرات میں امریکہ، چین اور روس بھی سٹیک ہولڈر ہیں اور امریکہ نے بھارت کو اصرار اور حجت کے باوجود اس عمل سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا ہے، اس طرح امریکہ نے بھی پاکستان کی ایک بنیادی شرط مان لی ہے۔ اس پر بھی مبصرین کا ماتھا ٹھنکا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی قیادت اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی دورے میں وزیراعظم کے ہمراہ ہیں یہ اس بدیہی حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ افغانستان اور دیگر دفاعی سٹرٹیجک اور خارجہ امور میں فوج کا ایک کلیدی اور فیصلہ کن رول ہے۔ مجھے یاد ہے کہ2010 ء میں جب شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر خارجہ تھے تو اس وقت فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی سٹرٹیجک مذاکرات کے لیے واشنگٹن گئے تھے۔ ا نھوں نے وہاں افغانستان کے بارے میں چودہ نکات پر مشتمل ایک دستاویز صدر بارک اوباما کو پیش کی تھی، جسے واپسی پر انھوں نے میڈیا کے ساتھ بھی شیئر کیا تھا۔ اس دستاویز کا ایک نکتہ بڑا دلچسپ تھا جس میں جنرل کیانی نے امریکہ سے کہا تھا کہ آپ (امریکیوں) کے پاس گھڑیاں ہیں اور طالبان کے پاس وقت۔ نیز یہ کہ افغانستان میں پاکستان کا اثر ونفوذ ایک جغرافیائی حقیقت ہے کہ آپ اپنے ہمسایوں سے کیسے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اس وقت تو شاید صدر اوباما کو جو پاکستان کو ہر سال تین بلین ڈالر کی اقتصادی اور فوجی امداد دے رہے تھے یہ بات اچھی نہ لگی ہو اور انھوں نے جنرل کیانی کے واکھیان کو پڑھے بغیر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہو گا۔ بعدازاں پاکستان کو ملنے والی امداد بند کر دی گئی اور یہ امداد محض علامتی طور پر امسال 71ملین ڈالر تک محدود کر دی گئی۔ گزشتہ برس اکتوبر میںٹرمپ نے پاکستان کو دہشت گردی کا محرک قرار دے دیا اور پاکستان کے خلاف پابندیاں لگانے کا مطالبہ بھی کر دیا لیکن اس کے اگلے ہی ماہ نومبر میںانھوں نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم عمران خان سے افغانستان کے حوالے سے مذاکرات کے لیے مدد مانگ لی۔ موجودہ فوجی قیادت خطے میں امن کی خواہاں ہے۔ امریکہ اور پاکستان کا ایک ہی صفحے پر آ جانا ہماری بہت بڑی فتح ہو گی۔ اس دورے کی کامیابی سے پاکستان کو اقتصادی طور پر بھی بہت سے فوائد ہونگے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان اور ٹرمپ میں کیمسٹری اچھی رہے گی۔ دونوں ہی لاابالی طبیعت کے مالک ہیں۔ سیاست ان کا پیشہ نہیں تھا اور دونوں ہی اپوزیشن اور ناقد میڈیاکے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر بنانے پر بھی زور دے گا لیکن ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب مودی کا بھارت پاکستان سے براہ راست مذاکرات کرے اور کشمیر میں ظلم کا بازار بند کرنے پر آمادہ ہو۔