سائنس اور مذہب
سائنس اور مذہب کی بحث ہے تو بہت پرانی لیکن اس کا کوئی ایسا نتیجہ اب تک نہیں نکل سکا جس پر اتفاق رائے ہوسکے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ بحث کرنے والے دریاکو اپنے اپنے کناروں سے دیکھتے ہیں جب کہ اصل دریا کہیں درمیان میں ہوتا ہے۔
آج ہی سائنس سے متعلق اُردو زبان میں چھپنے والے چند رسالوں میں سے ایک بہت اہم اور معیاری رسالے "گلوبل سائنس" کے پہلے صفحے پر نظر پڑی تو خیال آیا کہ یہ تحریر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنی چاہیے کہ اکیسویں صدی میں بھی اگر اس درمیانی اور صحیح راستے کو نہ سمجھا گیا تو بہت دیر ہوجائے گی اور یہ کہ مستقبل میں عام ہونے والی مصنوعی ذہانت اس مسئلے کو مزید پیچیدہ اور ناقابلِ حل بنا دے گی۔ "گلوبل سائنس" جیسے رسالوں کی سب سے بڑی خدمت تو یہ ہے کہ ان کی معرفت انگریزی نہ جاننے والے بھی سائنسی معلومات، ایجادات اور ان کے فوائد سے آگاہ ہوسکتے ہیں اس پر مزید بات میں آگے چل کر کروں گا، فی الوقت یہ اقتباس دیکھئے۔
"آج جب کہ ہم اپنے تئیں انسانی تاریخ کے سب سے ترقی یافتہ دور میں جی رہے ہیں یہ خیال شدّت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ہمیں مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے الگ رکھنا چاہیے کیونکہ مذہب ہماری سوچ کو ایک مخصوص عقیدے سے باندھ دیتا ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ ہم سوچے سمجھے بغیر ہی اس عقیدے کو قبول کرلیں اس کے برعکس سائنس میں کسی بھی چیز کو عقلی پیمانے پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی قبول یا ردّ کیا جاتا ہے۔ تحقیق و تفتیش ہی سائنس کا طرہّ امتیاز ہے جن کی بدولت نئی سے نئی دریافتیں اور ایجادات ہوتی ہیں اور انسان کی انفرادی زندگی اور اجتماعی معاشرت تک میں انقلابات رونما ہوتے ہیں ۔
اس نقطہ نگاہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بعض حلقوں میں مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے مختلف بلکہ مخالف بنا دیا گیا ہے افسوس اس بات کا ہے کہ اہلِ سائنس اور اہلِ مذہب دونوں حلقے ایک دوسرے کو ردّ کرنے میں شدّت پسندی کی طرف جا رہے ہیں جسے انسانیت کے لیے کسی بھی طور مفید قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قرآن پاک کوئی سائنسی کتاب نہیں یہ تو "کتاب ہدائت" ہے لیکن پھر بھی اس میں مظاہرِفطرت پر دعوتِ تحقیق دینے والی آیات کی تعداد سیکڑوں میں ہیں ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک منفرد انداز سے مختلف مظاہرِ فطرت کی طرف متوجہ کیا ہے، تحقیق کرنے کے نتائج تک پہنچنے کا معاملہ ہم پر چھوڑ دیا ہے یعنی ہمیں اختیار دے دیا ہے کہ تحقیق کریں یا تقلید یا پھر نظر انداز کرتے ہوئے گزر جائیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ سائنسی تحقیق کے لیے کوئی عقیدہ رکھنے یا نہ رکھنے کی کوئی شرط نہیں یہ کام تو کوئی ملحد بھی بہت اچھی طرح سے انجام دے سکتا ہے اور صاحب عقیدہ بھی۔ یہ رائے درست ہے لیکن یہاں ہمارا مقصد اس فکری خلیج کو پُر کرنا ہے جو مذہب اور سائنس کے مابین حائل ہے اور جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے جو کچھ بھی ہم نے لکھا اس کا مدعا یہ ہے کہ سائنس کو "غیروں کی سازش" اور "ایجاد پرستی کا ہتھیار، سمجھ کر اس سے دُور رہنا اور اس سے نفرت کرنا چھوڑیئے مظاہرِ فطرت اللہ رب العزت کی نشانیاں ہی تو ہیں ان پر غور کیجیے اور اسرارِ کائنات کو کھنگالیے کہ یہی قرآنِ پاک کی دعوتِ فکر بھی ہے اور اولو الالباب ہونے کا تقاضا بھی۔
اس تحریر کے مصنف اسی رسالے کی گلوبل سائنس کے مدیرعلیم احمد ہیں جنھیں میں برسوں سے جانتا ہوں اس نوجوان نے اپنے محدود وسائل کے باوجود ہمیں بائیس برس تک اس میگزین کو جاری رکھا مگر کچھ عرصہ قبل مالی وسائل اور اشتہارات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اُسے اسے بند کرنا پڑا۔ کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک ملاقات کے دوران میں نے اُن کی ہمت بندھانے کی کوشش کی اور بتایا کہ یہ کام ایک طرح سے قومی خدمت بھی ہے اس لیے وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں رہی وسائل کی بات تو اس کے لیے "ہمدرد فاؤنڈیشن"اور "فارم ایوو"جیسے چند اور اداروں سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ ابھی تک ایک بھی اشتہار نہ ملنے کے باوجود انھوں نے "گلوبل سائنس" کی اشاعت کا پھر سے آغاز کردیا ہے۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اس کے مندرجات دیکھنے اور اس کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد یہ مسئلہ بھی بہت حد تک حل ہوجائے گا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہم جیسے بوجوہ پیچھے رہ جانے والے معاشروں کو ہی ہے کہ جو مذہب اور سائنس کو دو مختلف کناروں سے دیکھ رہے ہیں۔
چند دن قبل فیس بک پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کا اسی موضوع پر ایک خطاب سننے کا موقع ملا جس میں انھوں نے مذہب کے حوالے سے Reasoning کی اہمیت پر بہت بھرپور انداز میں روشنی ڈالی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح مسلمانوں نے آٹھویں سے دسویں صدی کے درمیان جدید سائنس کی بنیادیں استوار کیں اور یہ کہ اب ہمیں "ہم نے کیا کیا " کے بجائے "کیا کرنا چاہیے" پر زور دینا چاہیے کہ یہی ترقی کا اصل راستہ ہے اور یہ کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل میں سے ایسے نیوٹن، آئن اسٹائن اور سٹیفن ہاکنگز تیار کرنا چاہیئیں جو سائنس کی دنیا کو اپنے عقیدے کی مدد سے آباد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔