نوسرباز (حصہ اول)
نوسر باز عرفِ عام میں ایسے وارداتیئے کو کہا جاتا ہے جو کسی جھوٹی کہانی کو اس مہارت سے بیان کرے کہ سننے والے کو نہ صرف اُس کی بات پر یقین آجائے بلکہ اس یقین کی وجہ سے وہ اپنے شکار سے کچھ رقم یا کوئی اور فائدہ بھی لینے میں کامیاب ہوجائے۔
پرانے وقتوں میں اس برادری کو "ٹھگ" کہا جاتا تھا فرق صرف یہ ہے کہ ٹھگ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے تھے جب کہ نو سرباز عام طور پر اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، ان لوگوں کی کہانیوں سے دنیا بھر کے لوک ادب سمیت بے شمار لطائف اور دھوکہ بازی کے واقعات بھرے پڑے ہیں مگر آج کل کے نو سر باز بھی کسی سے کم نہیں۔
میڈیا اخبارات اور آپ بیتیوں کی شکل میں اس طبقے کے ایسے ایسے قصے دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں کہ کبھی کبھی تو آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور یہ خیال بھی آتا ہے کہ اگر اس طرح کے لوگ کسی مثبت کام میں اپنی اس "فتنہ پرور ذہانت" کو استعمال کریں تو ترقی کے کیسے کیسے راستے کھل سکتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب تک اس طرح کی کوئی واردات خود پر نہ گزرے ہر کوئی اس کا شکار ہونے والوں کی حماقت، لالچ، بھول پن اور کم عقلی کا مذاق اُڑاتا ہے خود میں بھی چند برس پہلے تک اس صف میں شامل تھا اور اگر "لاٹری" میں میری جیتی ہوئی نئی کار راستے میں خورد برد نہ ہوجاتی تو شائد آج بھی میں اُسی "خبطِ ذہانت" میں مبتلا ہوتا اب یہ کمال ان نوسر بازوں کا ہے کہ اس "تجربے " کے باوجود گزشتہ ہفتے وہ مجھے گھیرنے میں کم از کم ابتدائی طور پر تقریباً پوری طرح سے کامیاب ہوگئے اور عین ممکن تھا کہ میں اڑھائی تین لاکھ روپے سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی "خفت" کا بھی شکا ہوجاتا جس سے دو چار ہونا اس مالی نقصان سے بھی کہیں زیادہ مہلک اور شرمندہ کن ہے۔
جس مہارت اور انسانی نفسیات کے عمومی اور فوری ردعمل کی گہرائی کے مطالعے کے ساتھ اس واردات کا تانا بانا بُنا گیا اگر میری ڈرامے کے اسکرین پلے کرداروں کے ری ایکشن اور ٹائمنگ کا شعور اور اس کی پریکٹس کام نہ کرتی تو شائد کامن سنس، منطق اور احتیاط کے سارے کلیے دھرے کے دھرے رہ جاتے کہ ان (اب تک کے نامعلوم افراد) نے اس واردات کا جو اسکرین پلے بنایا تھا اس میں کیس اسٹڈی کی تمام جزئیات کا نہ صرف بھرپور خیال رکھا گیا تھا بلکہ ہر متعلقہ ریفرنس پر بھی خوب خوب محنت کی گئی تھی تو چلیے پہلے ہم یہ واقعات زمانی ترتیب سے پیش کرتے ہیں۔
بدھ 4 دسمبر کو سہ پہر تین بجے کے قریب مجھے ایک فون آیا۔ بات کرنے والی خاتوں نے تعارف کرایا کہ وہ کراچی ٹیلی وژن کے ایک بہت سینئر افسر کی سیکریٹری ہیں اور وہ افسر آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ سیکریٹری نے نے فون ملایا، بات شروع ہوئی تو انھوں نے اپنے تعارف کے ساتھ ساتھ چند گزشتہ ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا اور بتایا کہ کچھ دیر قبل انھیں اسلام آباد سے مرکزی وزیر غلام سرور صاحب کے پی اے کا فون آیا تھا۔ منسٹر صاحب کو امجد اسلام امجد صاحب کا نمبر فوری طورپر چاہیے کہ ایک بہت اہم مسئلے پر اُن سے فوری بات کرنی ہے۔
وزیراعظم صاحب نے انھیں کسی کمیٹی کا سربراہ بنایا ہے۔ میں نے آپ کا نمبر آپ کی اجازت کے بغیر دے دیا ہے کہ معاملہ سرکار کا تھا، منسٹرصاحب ابھی آپ سے بات کریں گے۔ انھوں نے اپنا پرسنل نمبر بھی آپ کے لیے دیا ہے تاکہ آپ خود بھی اُن سے بات کرسکیں چونکہ معاملے کی تفصیل کا اُن کو بھی پتہ نہیں تھا اس لیے میں نے کچھ نہ سمجھنے کی سی کیفیت میں فون بند کردیا۔
چند سیکنڈ کے بعد ہی بیل ہوئی، کسی نے پہلے میرا نام پوچھا اور پھر کہا کہ میں غلام سرور صاحب کا پی اے ہوں۔ وہ آپ سے بات کریں گے، ہولڈکیجیے، فوراً ہی دوسری طرف سے جو کوئی بھی بولا، اس نے پہلے اپنا تعارف کرایا، پھر کچھ باتیں میری شاعری اور ڈرامے کی تعریف میں کہیں اور بتایا کہ وہ بہت مدّت سے میرے مدّاح ہیں، آج اتفاق سے رابطہ بھی ہوگیا۔ معاملہ یہ ہے کہ UNDPکے ساتھ پاکستان کے کلچر اور فنون لطیفہ کے فروغ کے سلسلے میں کوئی معاہدہ ہوا ہے ا ور اگرچہ یہ کام اُن کی منسٹری کا نہیں لیکن انھیں سونپا گیا ہے۔
ایمرجنسی کی بات یہ ہے کہ مجھے آج ہی اسلام آباد پہنچ کر کچھ کاغذات پر دستخط کرنے ہیں کیونکہ UNDPکے متعلقہ نمائندے کو صبح کی فلائٹ سے امریکا جانا ہے اور اگر آج یہ کام نہ ہوا تو اس سے پاکستان کا اور دونوں کا بہت نقصان ہوگا کہ یہ فنڈ Lapseکرجائے گا اور بات اگلے سال پر چلی جائے گی۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے اصولی طور پر اب کسی سرکاری، نیم سرکاری عہدے اور ملازمت وغیرہ سے دُور رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، اس لیے… میرا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی خود کو منسٹر کہنے والے صاحب نے سمجھانے کے انداز میں ایک بڑی موثر تقریر کی کہ یہ کام حکومت کا نہیں "پاکستان" کا ہے۔
(جاری ہے)