نغمگی کے قدِّ بالا پر قبائے ساز تنگ
کچھ عرصہ پہلے تک ہر معاشرے، ہر قوم اور ہر شہر میں چند ایسے لوگ ضرور ہوا کرتے تھے جو اپنے روزگار سے متعلق شعبے یا پیشے میں کامیاب زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ کسی مشغلے، شوق، عادت یا خصوصیت کے حوالے سے بھی جانے اور مانے جاتے ہیں، سو جس طرح کسی لفظ کے صحیح معنی و مفہوم تک پہنچنے کے لیے ہم اُس زبان کی کسی مستند ڈکشنری یا لغت سے مدد لیتے ہیں، بالکل اسی طرح یہ لوگ بھی کسی مخصوص شعبے کے حوالے سے سند کا درجہ اختیار کرجاتے تھے۔
اب یہ کمال انھیں غیر معمولی یاداشت کی وجہ سے حاصل ہوتا تھا یا وسیع مطالعے، تجربے اور مشاہدے کے باعث؟ اس کی وجہ اُن کا فطری شغف ہوتا تھا یا طبیعت میں ترتیب کا رحجان یا مسلسل محنت اور غیر معمولی دلچسپی اس کا فیصلہ کرنا آسان نہیں، میرے خیال میں یہ شخص ان سب یا ان میں سے بیشتر اوصاف کا مجموعہ ہوتے ہیں۔
انگریزی محاورے میں ایسے لوگوں کو collectorبھی کہا جاتا ہے، جیسے ابھی چند برس قبل ہم سے جدا ہونے والے لطف اللہ خان تھے کہ ان کی ساری عمر مشاہیر کی آوازوں کو جمع کرتے گزری جنھیں وہ دنیا بھر سے ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ خود بھی ریکارڈ کیا کرتے تھے۔
اتفاق سے کل شام امریکا سے میرے پاس جو دوست خاص طور پر ملنے آئے وہ اپنی دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ موسیقی اور بالخصوص برصغیر کی موسیقی کے ایک بے مثال collectorہیں اور اب چونکہ ٹیکنالوجی کے فروغ نے کئی ایسی آسانیاں بھی پیدا کردی ہیں جن کا مشہور ریکارڈنگ کمپنی EMI کے آغاز کے وقت شاید تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس لیے اُن کے کام کا دائرہ اس قدر وسیع ہوگیا ہے کہ اُن سے بات کرتے وقت "یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے" ٹائپ مصرعے مسلسل ذہن میں گونجتے رہتے ہیں۔
علی عدنان کے بیان کے مطابق وہ 1989 میں امریکا کو پیارے ہوئے تھے مگر اُن کا دل اب بھی اپنی چھوڑی ہوئی دھرتی اوراس کے میوزک میں اٹکا ہوا ہے اور وہ تب سے اب تک ہر سال میں تین چار مرتبہ یہاں کا چکر لگا کر اُن رشتوں کو بھی بحال رکھتے ہیں جن سے اُن کے شوق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
چند برس قبل جب اُن سے پہلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے میرے ریڈیو، ٹی وی اور فلم سے متعلق کچھ ایسے گیتوں کا ذکر کیا جو خود میری یاداشت سے بھی تقریباً محو ہوچکے تھے اور اُس کے بعد بھی وہ نہ صرف مجھ سے مسلسل رابطے میں رہے بلکہ مجھے بعض گم گشتہ گیتوں کی ریکارڈنگ بھی بھجواتے رہتے ہیں۔ وہ ساز و آواز کے جملہ شعبوں یعنی گانے والے، موسیقار، سازندوں، راگ داری اور گائی جانے والی شاعری سب کے رموز و اسرار سے نہ صرف گہری واقفیت رکھتے ہیں بلکہ اس سے متعلق تاریخی حوالوں پر بھی اُن کی دسترس قابلِ رشک ہے۔
گزرتے اور بدلتے ہوئے وقت موسیقی کے انداز اور گائیکوں کی انفرادی پرفارمنس میں جو تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں اور اُن کے باہمی تال میل میں کیا اور کس طرح سے فرق پڑتا ہے، اس کے بھی بہت سے نئے در اس گفتگو کے درمیان وا ہوئے وہ صحیح معنوں میں بیک وقت موسیقی کے collector بھی ہیں، پارکھ بھی اور ایک ریسرچ اسکالر بھی اور یوں اُن کا تعلق فنونِ لطیفہ کے اس بہت بڑے شعبے کے اُن کمیاب لوگوں سے بنتا ہے جو اب تقریباً نایاب ہوتے جارہے ہیں۔
علی عدنان سے اس گفتگو کے دوران جزوی طو پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ وقت کے ساتھ ساتھ صرف موسیقی کے انداز، کن رس لوگوں کا ذوق اور گانے والوں کی اپنی ترجیحات ہی نہیں بدلیں، سارا منظرنامہ ہی اس تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے کہ ان سب کے بھی اپنے اپنے موسم ہوتے ہیں، اب یہ الگ بات ہے کہ منظر اور ناظر علیحدہ علیحدہ بدلتے ہیں یا ایک ساتھ اور موسم گزرتے ہیں یا اُن کو دیکھنے والی آنکھیں، اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور خود میں بھی اکثر مختلف حوالوں سے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں سو یہ نظم بھی ہے تو اسی زنجیر کی ایک کڑی لیکن اس کو ہلانے کا فریضہ علی عدنان سے ہونے والی اس ملاقات نے ادا کیا ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ کندن لال سہگل اور اختری بائی فیض آبادی سے لے کر نیرّہ نور اور عاطف اسلم تک موسیقی کے یہ موسم بھی خود بدلے ہیں یا ان کے سننے والے کان۔ نظم کا عنوان ہے "موسم اور ہم":
کوئی موسم ہو
کتنا خوش نما یا غمزدہ موسم
کہیں پر ان کے رُکنے کی بھی اک معیار ہوتی ہے
وہ چاہیں بھی تو اُس حد سے تجاوز کر نہیں سکتے
مگر ان کے بدلنے کے طریقے طے نہیں ہوتے
نہ یہ ہرگز
کسی خواہش کسی ارمان کے پابند ہوتے ہیں
نہ کہتے ہیں کسی سے کچھ نہ سنتے ہیں کسی کی یہ
یہی قانون ہے ان کا، تقاضا بھی ہے فطرت کا
سو ٹھہرا ا س تماشے کے
تماشائی تو ہیں ہم تم
مگر اک سین بدلے تو
پھر اس کے ساتھ ہی یکدم کئی چیزیں بدلتی ہیں
ابھی جو تھے تماشائی
وہ خود بھی اس انوکھے کھیل کے کردار بنتے ہیں
یہی کردار ہیں جن سے کہانی آگے چلتی ہے
نئے رشتے نکلتے ہیں
بظاہر ایسا لگتا ہے
کوئی موسم ہو کتنا خوشنما یا غمزدہ موسم
ہم ان کے ساتھ رہتے اور نئے رستوں پہ چلتے ہیں
جہاں منظر بدل جائے وہیں موسم بدلتے ہیں
مگر جو غور سے دیکھیں تو کھلتا ہے
ہیں سب اپنی جگہ قائم کہیں پہ کچھ نہیں بدلا
حقیقت میں یہ سب موسم
ہمارے ذہن کے اندر ہی بنتے اور بگڑتے ہیں
کہیں آتے نہ جاتے اور کہیں رکتے نہ چلتے ہیں
یہ سب اپنی جگہ پر
مستقل موجود رہتے ہیں
اور ان کے بیچ سے ہوکر
یہ ہم ہیں جو گزرتے ہیں