’’ہم دوست بنیں کیسے؟
میرے تجربے اور مشاہدے کے مطابق بھارت کی عام جنتا ہرگز ہرگز اتنی اسلام اور پاکستان مخالف نہیں جتنی کہ اُن کے میڈیا پر دکھائی جاتی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کارندوں اور بی جے پی کے بیشتر لیڈروں نے ایسی فضا پیدا کر دی ہے کہ وہاں کے بیشتر دانشور اور عوام حکومتی پالیسیوں سے اختلاف رائے کی ہمت نہیں کر پاتے اور یوں بھارت ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کے باوجود اس وقت دنیا میں ایک فاشسٹ قوت کی طرح دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔
مگر یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ آج کی دنیا دولت، معیشت اور مساوات کا ایک ملغوبہ بن چکی ہے۔ سو بیشتر بڑے ممالک سرکاری سطح پر نریندر مودی کی کشمیر پالیسی کے خلاف کھل کر بات نہیں کرتے البتہ وہاں کا میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اُن کی اس مجرمانہ خاموشی کا کفارہ ضرور ادا کر رہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کیا ہو رہا ہے اس کی کوئی مصدقہ خبر اور صورتِ حال کے بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی کہ تقریباً ڈیڑھ مہینے سے اُن سے رابطے کا ہر وسیلہ بند کر دیا گیا ہے جو اپنی جگہ پر ایک سوئے ہوئے آتش فشاں کے پھٹنے کا راستہ بن رہا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ وہاں کے انصاف پسند عوام اور صاحب الرائے دانشور بالکل ہی خاموش ہوں، ٹی وی چینلز کی معرفت وہاں پر ہونے والے جلسے جلوسوں، ریلیوں اور بیانات کی کچھ جھلکیاں بتاتی ہیں کہ بہت لوگ سزا کے خوف سے بلند ہو کر کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز یں بلند بھی کر رہے ہیں۔
فیس بک کی معرفت بھی بہت سے اہم لوگوں کے مودی پالیسی کے خلاف بیانات سننے کو ملتے ہیں اور ان انصاف اور امن پسند انسانوں کی ایک بہت تعداد خود اسی ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے جس کے "ہندوتوا" نعرے کو لے کر مودی حکومت یہ گناہِ عظیم کر رہی ہے۔ میں نے بھارت کے متعدد مشاعرہ بنیاد دوروں میں دیکھا ہے کہ بیشتر لوگ نہ صرف پاکستان کے وجود پر یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ ہر طرح کے ظلم اور بے انصافی کو ہماری ہی طرح بُرا اور مکروہ سمجھتے ہیں۔
اسی بی جے پی کے ہی مہان لیڈر آنجہانی اٹل بہاری واجپائی نے (اُن کا ماضی جو بھی رہا ہو) حکومت میں آنے کے بعد سیاسی سطح پر قائم مخالفانہ روّیوں کو درست کرنے کے لیے قدم بڑھایا تھا، یہ اور بات ہے کہ بعض عالمی مفادات کے زیر اثر کچھ ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ سانپ اور سیڑھی کے کھیل کی طرح بات پھر نقطہ آغاز پر واپس آ گئی۔
میں نے بھارتی لیڈر شپ کے عمومی روّیئے، جسے محاورے میں بغل میں چُھری اور منہ میں رام رام بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایک نظم "ہم دوست بنیں کیسے؟" لکھی تھی اُسے اس امید پر دوہرا رہا ہوں کہ ساری دنیا کے ساتھ انصاف پسند بھارتی عوام بھی نریندر مودی کے اس ظلم کی مذمّت اور روک تھام کریں تا کہ دونوں ملکوں کے بیچ سچ مُچ کے دوست بننے کا کوئی رستہ کھل سکے۔
وہ کہتا ہے، مرے ماضی کے رستوں کے پرانے ہم سفر آ جا
ہم اچھے دوست بن جائیں
بھلا کر سب گِلے شکوے
ہر اک رنجش کو رکھ کر درگزر کے طاق میں
دیکھیں
میں کہتا ہوں
یہ سارے خوبصورت لفظ، جذبوں سے بھرے جملے
محبت آشنا باتیں
بہت اچھی تو لگتی ہیں
مگر جو ہاتھ تم مجھ سے ملانے کے لیے آگے بڑھاتے ہو
وہ لاکھوں بے نوا کشمیریوں کے خوں سے رنگیں ہے
تمہارے پاؤں کے نیچے مرے اپنوں کی لاشیں ہیں
فضا میں عورتوں کی سسکیاں
بچوں کی چیخیں ہیں
درختوں اور گھروں میں آگ کے شعلے لپکتے ہیں
دھواں رستوں میں پھیلا ہے
دھواں آنکھوں میں پھیلا ہو!
تو ایسے میں
بتاؤ کس طرح ہم درد کے رشتے
وفا کے راستے دیکھیں!
محبت کا کوئی موسم ہمارے درمیاں اُترے!
دِنوں کی سر زمینوں سے، کہو کیسے
وفا ناآشنا لمحوں کا یہ سیلِ رواں اُترے !
نشانِ امن کی جو فاختہ تم نے اُڑائی ہے
بتاؤ، وہ کہاں اترے؟