’’گیارہ دن ‘‘
5 سے لے کر آج 16 اگست تک مقبوضہ کشمیر کے اندر اور ا س کے حوالے سے دنیا بھر میں اور بالخصوص سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں جو کچھ ہوا اس کی کہانی برسوں تک مختلف شکلوں میں لکھی جائے گی کہ جدید انسانی تاریخ میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد کوریا، ویت نام، فلسطین، عراق، بوسنیا، لیبیا، میانمار اور اب کشمیر میں جو کچھ ہوا ہے یہ ضمیرِ عالم کے چہرے پر انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے وہ دھبے ہیں جنھیں سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت یا علمی تاویلات کا کوئی بھی میک اپ چھپا نہیں سکتا اب اس سے قطع نظر کہ ان کروڑوں متاثرین کا تعلق کس کس رنگ، نسل، علاقے یا مذہب سے تھا اور کیوں انھیں اس جہنم سے گزارا گیا سب سے پہلے دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ یہ سب انسان تھے اور ان میں سے بیشتر کو یہ علم بھی نہیں تھا کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے کشمیر اور کشمیریوں کے مسئلے کا پس منظر اور پیش منظر کیا ہے؟
ایک منٹ کے لیے اس بحث کو بھی ایک طرف کر دیجیے دیکھنے اور سوچنے والی اصل بات یہ ہے کہ گیارہ دن سے جو اسّی لاکھ لوگوں کو اُن کے گھروں میں بند کر دیا گیا ہے اور آٹھ لاکھ فوجی اُن کے علاقے میں کرفیو لگا کر اُن کے ہر انسانی حق کو غضب کرنے میں کلسٹر بم اور پیلٹ گنز سمیت ہر طرح کے تباہ کن اسلحے کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں اُن کے اس اقدام کو روکنے کے لیے عالمی امن اور انسانی حقوق کی محافظ اور پرچار کی قو میں اور تنظیمیں کیا کر رہی ہیں؟
مان لیا کہ دونوں ملکوں کا میڈیا اور عالمی نشریاتی ادارے کچھ مخصوص تعصبات کے تحت کام کرتے ہیں اور اُن پر دکھائی جانے والی صورتِ حال بوجوہ پورا سچ نہیں بتاتی مگر وہ لوگ جو دانشور، تخلیق کار اور اہلِ قلم کہلاتے ہیں اُن کا اس بھیڑ کا حصہ بننا یا اس سے بالکل علیحدہ ہوکر خاموش اور لاتعلق ہوجانا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ دونوں صورتوں میں وہ اُس رول کو ادا نہیں کر رہے جو اُن پر واجب ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے اپنے مُلکوں کے سیاسی اسٹینڈ اور حکومتی نقطہ نظر سے ہٹ کر اس مسئلے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اُن سب لوگوں کے حق میں آواز اُٹھائیں جن کو ایک ایسے جرم کی سزا مل رہی ہے جو سرے سے انھوں نے کیا ہی نہیں۔
بھارت اور پاکستان کے لکھنے والے اور بالخصوص اُردو اور انگریزی زبان میں لکھنے والے تمام تر پابندیوں، فاصلوں اور مصلحتوں کے باوجود ایک دوسرے تک اور سرحدوں کے آرپار اپنے قارئین تک کسی نہ کسی شکل میں پہنچ ہی جاتے ہیں اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان سے ایک دو فی صد انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والوں سے قطع نظر باقی سب کے سب انسانوں کو پہلے انسان اور پھر کسی اور حوالے سے دیکھتے ہیں۔
کم و بیش یہی صورتِ حال دونوں ملکوں کے تعلیم یافتہ اور انصاف پسند لوگوں کی بھی ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں کہ گزشتہ تیس برسوں میں مجھے بارہا بھارت جانے اور وہاں کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ سیاست دان اور اَن پڑھ عوامی گروہ اپنے مفادات یا جذباتیت کی وجہ سے تخریبی پراپیگنڈے کا جلد اور زیادہ شکار ہو جاتے ہیں اور یوں ایک ایسی نفرت کے پرچم بردار بن جاتے ہیں جس کی بنیاد کچھ مفروضوں پر ہوتی ہے اب یہ بھی نہیں کہ دونوں ملکوں کے لکھاریوں کو اس ساری صورتِ حال کا علم نہ ہو۔
کل رات کینیڈا سے ڈاکٹر تقی عابدی اور آج صبح دہلی سے نند کشور وکرم کے فون آئے چند دن قبل اپنا تعارف آپ کے حامل شمپورن سنگھ، گلزار اور برادرم عازم گرو مندر سنگھ کوہلی سے بھی بات ہوئی۔ دلت ادیب اور مصوّر جنیت پرمار سے بھی رابطہ رہتا ہے۔ یہ سب کے سب دوست اور بھارت کے بے شمار انسان دوست اور انصاف پسند ادیب اور اہلِ دانش بھی موجودہ صورتِ حال پر اتنے ہی پریشان اور مضطرب ہیں جتنا کہ اُن کے پاکستانی اہلِ قلم ساتھی مگر بدقسمتی سے ان سب کی تشویش وہ اثر نہیں دکھا رہی جو اسے دکھانا چاہیے تھا۔
فیس بک اور سوشل میڈیا کی ہیجان انگیزی اور غیر ذمے دارانہ جذباتیت کو مودی سرکار کی تعصب پر مبنی جارحیت نہ صرف ہوا دے رہی ہے بلکہ اس کے اُڑائے ہوئے گرد و غبار میں اصل اور فوری مسئلہ یعنی وادی کے مکمل ناکہ بندی، کرفیو، اس سے پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات اور بنیادی انسانی حقوق پر عائد پابندیوں کی وجہ سے وہاں کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال جس انسانی المیے کی نشاندہی کر رہی ہے اُس کا ادراک مودی سرکار سمیت باقی دنیا کو بھی ٹھیک سے نہیں ہو رہا سو ضرورت اس اَمر کی ہے کہ دونوں ملکوں کے لکھنے والے آّگے بڑھیں اور حکومتی مفادات سے بالا تر ہو کر انسانی حقوق کے حوالے سے حق اور سچ کی نمائندگی اور پاسداری کریں کہ فی الوقت بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے امن اور انصاف پسند لوگ اس فریضے کو اُن سے زیادہ بہتر طریقے سے ادا کر رہے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ کشمیر کے لوگوں کو اُن کی مرضی کے مطابق زندہ رہنے کا حق ملے چاہے اس کا جو بھی طریقہ ہو کہ اصل بات منزل کی ہے رستوں کی نہیں۔ میں اس بات کو فی الوقت یہیں پر روکتا ہوں کہ اس موضوع پر لکھنے کو اور بہت کچھ ہے جو انشاء اللہ ضبطِ تحریرمیں بھی آتا رہے گا مگر ابھی ابھی میری نظر ٹی وی سے نشر ہونے والی ایک ایسی خبر پر پڑی ہے جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ خبر مشہور معالج، اُستاد، میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سب سے بڑھ کر ایک باکمال اور ہر اعتبار سے خوبصورت انسان ڈاکٹر فیصل مسعود کی اچانک وفات سے متعلق ہے میرا اُن کا ایک محبت اور احترام کا ملا جلا رشتہ تھا اُن کی بے پناہ مصروفیات کی بنا پر اُن سے براہ راست ملاقات کا موقع تو کم کم ہی ملتا تھا جو عام طور پر کسی عزیز کے طبی مسئلے کے حوالے سے ہوتا تھا مگر ہر بار اُن سے ملاقات کے بعد انسانیت اور زندگی پر اعتماد پہلے سے زیادہ گہرا اور مضبوط ہو جاتا تھا کوئی دو ماہ قبل ہونے والی آخری ملاقات میں انھوں نے اپنی طبیعت کی خرابی کا ذکر تو کیا مگر اپنے اُس مخصوص خوشگوار اندار میں کہ اُن کی وفات کی اس خبر کے ساتھ اُس کا کوئی رشتہ جوڑنا سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔
رب کریم نے اُن کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی اور جس تیزی سے وہ مرض کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے اُس کی وجہ سے از راہِ محبت کچھ لوگ انھیں "جادوگر" بھی کہتے تھے اس شاک کی کیفیت سے نکل لوں تو اُن کے بارے میں اور بھی کچھ لکھوں گا فی الوقت تو سوائے دعائے مغفرت کے کچھ ممکن نہیں۔