فطرت سے ہم کلامی
کئی برسوں سے برادرم ڈاکٹر اشتیاق گوندل سے ایک وعدہ مسلسل التوا کا شکار ہوتا چلا آرہا تھا کہ فیملیوں کے ساتھ ایک دن اُن کے گاؤں والے ڈیرے پر گزارا جائے اور فطرت کے اُن مظاہر کو چُھو کر اور قریب سے دیکھا جائے جو اب ہم شہریوں کے لیے کتابوں، تصویروں، لوک گیتوں اور روایتوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں اور بالخصوص ہماری نئی نسل اُس پاکستان اور اُس کے مسائل سے ناواقف اور بے تعلق ہوتی جارہی ہے جو گھٹنے کے باوجود اب بھی 60% سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ طے پایا کہ اتوار 23فروری اس خواب کی تعبیر کادن ہوگا اور سب دوست ساڑھے گیارہ بجے تک اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اشتیاق گوندل کے ڈیرے پر پہنچ جائیں گے۔
اب موٹروے بننے کی وجہ سے بہت آسانی ہوگئی ہے کہ ایم2 پر سالم انٹر چینج سے اُتریں تو وہاں تک پہنچنے میں بیس منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے دوسرے شہروں سے آنے والوں میں لاہور سے میرے علاوہ عامر چیمہ، وقاص جعفری اور عامر جعفری شامل تھے جب کہ کھاریاں سے میاں عبدالشکور اور اسلام آباد سے انور مسعود نے آنا تھا۔ وقاص جعفری اور انور مسعود کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے نہ آسکے البتہ اُن کا ذکرِ خیر دم ہمہ دم ساتھ رہا۔
طے یہ تھا کہ ہماری گاڑی میرا بیٹا علی ذی شان چلائے گا کہ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی ڈاکیومینٹریز کے حوالے سے اُس کا میزبانوں سے ایک ذاتی تعلق بھی تھا لیکن ہوا یہ کہ اخوت والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب کی ایک ریکارڈنگ کے سلسلے میں وہ سفر کی صبح چار بجے تک مصروف رہا اور ایسی حالت میں اُس کا ڈرائیوکرنا تو ایک طرف، ساتھ چلنا بھی مشکل تھا اس لیے ڈرائیور شہباز کو ایمرجنسی میں بلایا گیا لیکن اُس کی اتوار کی چھٹی مکمل خراب ہونے سے اس لیے بچ گئی کہ اُس کا آبائی گھر نزدیک ہی کوٹ مومن میں ہے اور یوں اُسے بھی اپنے احباب سے ملنے کا موقع مل گیا۔
گزشتہ چند برسوں سے شہروں کے مضافات میں فارم ہاؤس بنانے کا فیشن بہت عام اور مقبول ہوا ہے لیکن اس کے مالکان کی فطری سہل پسندی اور شہری گھروں کی سہولیات سے وابستگی کی وجہ سے وہاں یہ احساس مشکوک سا رہتا ہے کہ ہم کسی گاؤں میں ہیں جب کہ انھیں استعمال بھی زیادہ تر پارٹیوں اور شادی سے متعلق تقریبات کے حوالے سے کیا جاتا ہے ا ور یوں ان کا فارم ہاؤس ایک formaility سی بن کر رہ جاتا ہے لیکن اشتیاق گوندل بھائی کا یہ فارم ہاؤس نما ڈیرہ کئی ماڈرن سہولیات کے باوجود ابھی تک فطرت سے بہت قریب ہے کہ یہاں آپ کو مختلف طرح کے پالتو اور دیگر جانوروں، اُن کی بدبو، کچے پکے رستوں، روایتی ٹانگے اور مختلف طرح کے پودوں کے ساتھ ساتھ جدید تر فارمنگ کے اصولوں پر مبنی ایسی سبزیاں بھی نظر آئیں گی جنھیں ایسے طریقوں سے پیدا کیا گیا ہے جنھیں ماضی کا انسان شائد سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ہمارے بیٹھنے کے لیے صوفوں، کرسیوں اور روایتی چارپائیوں (جنھیں منجھیاں بھی کہا جاتا ہے) کا انتظام کیا گیا تھا حقے اور گڑ والی چائے کے ساتھ ساتھ ابھی ابھی اتارے گئے تازہ کنوں بھی موجود تھے۔ خواتین کو خالص دیہاتی کلچر کی پابندی کرتے ہوئے نزدیک ہی ایک ایسی جگہ پر بٹھایا گیا تھا جہاں وہ پردے میں رہتے ہوئے آزادی کے ساتھ بات چیت کرنے کے علاوہ گھوم پھر بھی سکیں۔
میرے پوتے ابراہیم اور موسیٰ مقامی بچوں سے یوں گھل مل گئے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں، کم و بیش یہی حالت قدرے بعد میں آنے والے برادرم عامر جعفری کے بچوں کی تھی البتہ میاں عبدالشکور اور عامر چیمہ کے بچے ہمارے والے حصے میں ہی رہے کہ اُن کے مٹی سے کھیلنے اور تانگے کی شوقیہ سواری کے دن کب کے گزر چکے تھے۔ وقت اور عمر اپنی جگہ پر بہت بڑی حقیقت سہی مگر امر واقعہ یہی ہے کہ جس انسان کے اندر کا بچہ اُس کا ساتھ مکمل طور پر چھوڑ جائے وہ ایک طرح سے کلر بلائنڈ ہوجاتا ہے کہ اُس کے لیے تتلی اور چھپکلی ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔ بچپنے کے حسن اور تازگی سے محرومی اچھے بھلے زندہ انسان کو روبوٹ بنا دیتی ہے ایک ایسا روبوٹ جسے فطرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہتا۔
میں توڑ توڑ کے خود کو بناتا رہتا ہوں
اب ایک عمر ہوئی پھر بھی بچپنا نہ گیا
شروع شروع میں ابراہیم اور موسیٰ نے دھول اور جانوروں کی آلائش سے پیدا شدہ بدبو کا ذکر ضرور کیا مگر کچھ ہی دیر میں وہ نہ صرف اس سے مانوس ہوگئے بلکہ جانوروں اور اُن کے دانے پانی کی نوعیت کو جاننے اور ان کی فراہمی کے معاملات میں بھی شریک ہوتے چلے گئے، انھیں تانگے میں سواری کرتے دیکھ کر یکدم مجھے خیال آیا کہ اب جو تجربہ ان بچوں کے لیے ایک عجوبے کی شکل میں ہے ہمارے اپنے بچپن میں یہ سواری سب سے زیادہ سستی، آسان اور عام تھی اور ان دنوں سالم تانگہ کرائے پر لینا ایک طرح کی عیاشی ہواکرتی تھی۔
آہستہ آہستہ مہمانوں کے ساتھ ساتھ میزبانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا کہ قریبی علاقوں (بالخصوص بھلوال سے) بہت سے دوست ملاقات کے لیے چلے آئے اور یوں گفتگو کا دائرہ بھی پھیلتا چلا گیا۔ ایک طرف برکات صاحب اور عامر چیمہ کی زمینوں کی تقسیم، پیمائش اور موروثی جھگڑوں کے عجیب و غریب قصے تھے تو دوسری طرف اشتیاق گوندل حیات و کائنات کے پُر پیچ مسائل اور وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی فکر کے علم برداروں کے تساہل اورنئے اُٹھتے سوالات کے بروقت جواب نہ ڈھونڈ سکنے پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے جب کہ تیسری اور چوتھی طرف نوجوان اور بچے اپنے اپنے مسائل کو اپنے طریقے سے سمجھنے یا انھیں اہمیت نہ دینے کے عمل میں مبتلا تھے پانچویں طرف خواتین کی تھی۔ واپسی کے سفر میں معلوم ہوا کہ اُن کے موضوعات مردوں کی نسبت ماحول سے زیادہ قریب اور عملی نوعیت کے تھے اور فطرت کے مظاہر کی اس قربت سے وہ بہت خوش اور محظوظ ہوئی ہیں۔
یہاں ایک بار پھر احباب نے اس بات پر تعجب اور تحسین کا اظہار کیا کہ ڈرامہ سیریل "وارث" کی تحریر سے پہلے میں نے کبھی کسی گاؤں میں ایک رات بھی نہیں گزاری تھی یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اس پر تو میں کئی بار بات کر چکا ہوں لیکن اب بھی جب کبھی کسی گاؤں میں رکنے یا اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ذہن میں فارسی کا یہ جملہ بار بار گونجتا ہے کہ "شنیدہ کے بودمانند دیدہ" فطرت اور مظاہرِ فطرت سے براہ راست مکالمہ واقعی کسی نعمت سے کم نہیں کہ یہ آپ کے اندر ایک ایسی رفعت اور وسعت پیدا کرتے ہیں جو ہر طرح کے بیانیے اور کتاب سے آگے کی چیز ہیں، سو جہاں اور جب بھی موقع ملے اس ماحول میں کچھ وقت ضرور گزارنا چاہیے جہاں فطرت شہروں کی ملاوٹ سے پاک اور آزاد ہو۔