’’بحرین 2020‘‘
ٹھیک 25 برس قبل بحرین میں نئی نئی قائم ہونے والی ادبی اور ثقافتی تنظیم "الثقافہ" کے دوستوں کی دعوت پر پہلی بار بحرین کی سرزمین پر پاؤں رکھنے کا موقع ملا تھا، تب سے اب تک یہ سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری ہے لیکن اس کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ بحرین کی تاریخ، محل وقوع اور مقامی کمیونٹی کے بارے میں کچھ معلومات شیئر کر لی جائیں کہ یہ غالباً وہ پہلا علاقہ ہے جہاں اسلام کا پیغام سمندری ر استے سے پہنچا اور اس کا آغاز رسول کریمؐ کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔
یہ چند چھوٹے چھوٹے جزیروں کا مجموعہ ہے جو سعودی عرب کے مشرق میں واقع جڑواں شہروں دمام اور الخبرسے تقریباً ملے ہوئے ہیں کہ بحرین کے مرکزی جزیرے یا شہر منامہ اور دمام کے درمیان سمندر میں بنائے گئے پُل (جسے عرف عام میں cause way کہا جاتا ہے ) کے راستے درمیانی مسافت تقریباً23 کلومیٹر بنی ہے یعنی اگر امیگریشن وغیرہ کے مراحل کو نکال دیا جائے تو آپ پندرہ بیس منٹ میں دوسری طرف پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے مختلف اوقات میں اس کے دونوں کناروں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے مگرا س بار اس کو زیادہ دیر تک اور زیادہ قریب سے دیکھنے ا ور سمجھنے کا وقت ملا جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا۔
اس سفر کا متحرک غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے دوست تھے ا ور مقصد وہاں کی کمیونٹی کو ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد اور کام سے آگاہی فراہم کرنا تھا جس کے لیے ایک ایسی محفل کا اہتمام کیا گیا جس کے پہلے حصے میں ادارے کے تعارف اور دوسرے میں میرے ساتھ ایک خصوصی شام تھی جس میں تین چار مقامی شعرا نے بھی اپنے کلام سے نوازا۔ بحرین کی اپنی ایئر لائن گلف ایئر کا فائدہ یہ ہے کہ یہ نہ تو راستے میں کہیں رُکتی ہے اور نہ ہی جہاز بدلنا پڑتا ہے مگراس کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ لاہور سے اس کی پروازیں محدود ہیں سو ہمیں اس براہ راست پرواز کے لیے پہلے بذریعہ کار سیالکوٹ جانا پڑا، خیال تھا کہ ہم موٹروے کے ذریعے کالا شاہ کاکو تک جائیں تا کہ شہر اور شاہدرہ کے رش سے بچا جا سکے مگر اُس روز دھند اس قدر شدید تھی کہ ابھی تک موٹروے پر راستہ بند تھا، سو ایک لمبا چکر کاٹ کر جی ٹی روڈ تک پہنچنے میں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا۔
عامر جعفری اور ڈاکٹر اشتیاق گوندل نے Sial Air کے دوستوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ہم لنچ اُن کے ساتھ کریں گے ا ور ڈیڑھ بجے تک ایئر پورٹ پہنچ جائیں گے کہ فلائٹ کا وقت سوا تین بجے سہ پہر تھا۔ مگر ہم اُن کے پاس پہنچے ہی ایک گھنٹہ لیٹ، سو نہ تو ان کا دفتر ہی ٹھیک سے دیکھ پائے اور نہ ہی کھانے سے انصاف کیا جا سکا، بس اتنا پتہ چل سکا کہ سیالکوٹ ایئر پورٹ کی طرح Sial Airبھی سیالکوٹ کے چیمبر آف کامرس اور شہروں کا اپنا تیار کردہ منصوبہ ہے اور عنقریب یہ اندرونِ ملک پروازوں کا سلسلہ شروع کر دے گی۔ بھاگم بھاگ ہم ایئر پورٹ پہنچ تو گئے مگر یہاں ایک اینٹی کلائمکس ہمارا منتظر تھا کہ نہ صرف پرواز 35 منٹ لیٹ تھی بلکہ ایئر پورٹ کا عملہ اس قدر محبتی اور مہمان نواز تھا کہ انھوں نے تمام مرحلے مکمل کر کے دس منٹ کے اندر اندر بورڈنگ کا رڈ ہمارے ہاتھوں میں تھما دیے اور اس اہتمام اور کثرت کے ساتھ ہمارے ساتھ سیلفیاں اور تصویریں بنوائیں کہ یوں لگا جیسے ہم وقت سے بہت پہلے پہنچ گئے ہوں۔
بحرین ایئر پورٹ میرے تجرے میں آنے والے اُن چند ایئر پورٹس میں سے ایک ہے جو اپنی کچھ مخصوص نشانیوں کی وجہ سے ہمیشہ آسان اور مانوس سے لگتے ہیں لیکن اب یہ احساس شائد دوبارہ کبھی نہ ہو کہ اس کا بنا ہوائی اڈہ تکمیل کے قریب ہے جو اطلاعات کے مطابق موجودہ ایئر پورٹ سے پچاس گنا بڑا ہے، اسے متحدہ عرب امارات والوں نے دبئی ایئر پورٹ کی طرز پر تعمیر کیا ہے لیکن غالباً یہ خیال نہیں رکھا کہ ایئر ٹریفک کے اعتبار سے دونوں جگہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ایئر پورٹ پر آصف عارف صاحب اور عزیزی راشد بٹ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہمارے منتظر تھے۔ راشد نے بتایا کہ وہ برادرم شبیر بٹ کا بیٹا ہے اور اُسی ہوٹل Royal Phoenicia میں کام کرتا ہے جہاں ہمارا قیام ہو گا، اس نے سوئٹرز لینڈ سے ہوٹل مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری لے رکھی ہے لیکن تقریباً ساری عمر بحرین میں گزارنے کے باوجود اُس کے آبائی علاقے کوٹلی اور پاکستان اوراُردو سے محبت اُس کی بات بات سے ظاہر ہوتی ہے جو کمرہ نمبر 618 مجھے دیا گیا وہ اس قدر وسیع و عریض تھا کہ ا س میں عام فائیو اسٹار ہوٹلوں کے تقریباً چار بیڈ روم سما سکتے تھے جب کہ اُس کی کھڑکی سے چند درمیان کی عمارتوں کو چھوڑ کر دور تک سمندر ہی سمندر تھا۔
میری اس ملک نما شہر میں 25 سال قبل کی آمد سے اب تک بے شمار علاقہ سمندر سے Reclaim کر کے نہ صرف آباد کیا جا چکا ہے بلکہ یہاں کی سڑکیں عرب عمارات بھی پرانے شہر سے قدرے مختلف اور جدید یورپی شہروں کے انداز پر تعمیر کی گئی ہیں۔
میری عادت ہے کہ کسی نئے ملک یا شہر میں آنے کے بعد سب سے پہلے گھر والوں کو اپنے خیریت سے پہنچنے کی اطلاع کر دیتا ہوں۔ وائی فائی اور واٹس ایپ نے اس کام کو پہلے کی نسبت بہت آسان کر دیا ہے مگر ہوا یہ کہ بقول عزیزی رشید بٹ چھ برس میں پہلی بار ہوٹل کے وائی فائی سسٹم میں کوئی ایسی خرابی واقع ہوئی ہے جو کئی گھنٹوں سے ٹھیک نہیں ہو سکی اور اس تکلیف کے لیے وہ ہم سے بے حد معذرت خواہ ہے اس پر مزید اتفاق یہ ہوا کہ اُسے یہ معذرت آیندہ دو دن تک بار بار کرنا پڑی لیکن یہ ٹیکنالوجی کے فروغ کا کمال ہے کہ اب Hot Spot وغیرہ کے ذریعے مقامی دوست آپ کے فون کو اپنے کنکشن سے منسلک کر دیتے ہیں اور یوں یہ پریشانی برائے نام ہی رہ جاتی ہے۔ گھر یعنی ہیڈ آفس میں حاضری لگوانے کے بعد بحرین سے متعلق پرانی یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کی تو ناموں اور مناظر کا ایک ہجوم سا جمع ہوتا گیا۔ الثقافہ کی پہلی دعوت کے موقع پر میرے ہم سفروں میں احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، شہزاد احمد اور عطاء الحق قاسمی شامل تھے جب کہ میزبانوں میں مرحوم افضل نجیب، امتیاز پرویز، نور پٹھان، سید وحاج، سید صلاح الدین، ڈاکٹر سلیم، احمد عادل، شفاعت ملک اور سعید قیس ایسے احباب تھے جن سے عمر بھر کی دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا۔
بحرین غالباً مشرقِ وسطیٰ کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ پاکستانیوں کو وہاں کی شہریت دی گئی ہے۔ ایک زمانے میں یہ علاقہ مشرق وسطیٰ میں انٹرنیشنل بینکوں کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن اب یہاں زیادہ تر پاکستانی سیکیورٹی اور اس سے متعلق دیگر شعبوں سے منسلک ہیں۔ ایران اور سعودی عرب تنازع میں بھی اس علاقے کو ہمیشہ سے ایک خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی کچھ مسائل کا شکار بھی ہے مگر اب گزشتہ چند برسوں سے ایک ہنگامی صورتِ حال سے گزرنے کے بعد اس نوع کی کشیدگی میں تو کمی واقع ہوئی ہے مگر معاشی اعتبار سے بھی حالات اتنے اچھے نہیں رہے۔