اپنوں کے درمیان
4، 5 اور 6 اکتوبر کے تینوں مشاعرے کہنے کو تو لندن ہی میں تھے مگر ہر مشاعرہ گاہ کا دوسری مشاعرہ گاہ سے فاصلہ ایک اور ڈیڑھ گھنٹے کے درمیان تھا، معلوم ہوا کہ لندن کی سرکلر روڈ نما موٹر وے ایم 25 کا پھیلاؤ ایک سو میل سے بھی زیادہ علاقے پر محیط ہے، ویسٹ لندن کا علاقہ جس میں ہیتھرو ایئرپورٹ، سلاؤ اور ساؤتھ ہال وغیرہ واقع ہیں، ایسٹ لندن کے علاقے الفورڈ سے تقریباً دو گھنٹے کی مسافت پر ہے جب کہ یہاں سے برمنگھم آپ پونے دو گھنٹے میں پہنچ سکتے ہیں۔
ساؤتھ ہال سے یاد آیا کہ شاعر دوست اعجاز احمد اعجاز اسی علاقے میں رہتا تھا سو برطانیہ کے پہلے آٹھ دس اسفار میں ہم نے اس نواح کی بہت خاک چھانی تھی اور اسی گھر میں وہ واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر میں پہلے بھی کہیں کر چکا ہوں مگر اس کو دہرانا چونکہ قندِ مکرّر کی ذیل میں آتا ہے اس لیے اس کا ذکر بے محل نہ ہوگا، اُس زمانے میں ابھی موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے، اعجاز میرے لیے چائے بنا رہا تھا کہ اُس کی لینڈ لائن کی گھنٹی بجی اس نے کچن سے آواز دی کہ "دیکھنا کون ہے" میں نے فون اُٹھایا تو آگے سے کسی سردار جی کی ہچکولے کھاتی ہوئی آواز آئی "اعجاج"۔ میں نے کہا جی نہیں۔ اس کے بعد جو گفتگو ہوئی وہ کچھ اس طرح تھی "تسی کون ہو؟" میں نے کہا "میں اُن کا دوست ہوں " سوال ہوا "تسی وی شیر (شاعر) او؟" چونکہ انکار مشکل تھا اس لیے مجھے "ہاں " کہنا پڑا اس پر وہ مزید چہک کر بولے "تے فیر کچھ سُٹو (پھر کچھ سناؤ)" یہ ایک ایسی بے ساختہ فرمائش تھی جس پر دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے لفظوں میں بس یہی کہا جا سکتا تھا کہ "کیا فرمائش کرکے آزمائش میں ڈال دیا ہے "۔
سہیل ضرار نے مادام تساؤ میوزیم کی ٹکٹوں کے ساتھ اگلے دن کے لیے "لندن آئی" کی ٹکٹیں بھی آن لائن بک کرا دی تھیں یہ ایک ایسا عجیب و غریب برقی پنگھوڑا ہے جس میں چیئر لفٹ کی طرح مگر اُس سے کئی گنا بڑے تقریباً تیس کیبن فاصلے فاصلے سے اس طرح فٹ کیے گئے ہیں کہ ایک کیبن میں دس سے پندرہ تک لوگ آسانی سے سماجاتے ہیں اور یہ کم و بیش چیونٹی کی رفتار سے ایک بہت بڑے دائرے میں اس طرح سے گردش کرتے ہیں کہ آپ دریائے ٹیمز کے پانیوں کے ساتھ ساتھ پورے لندن کے دور دراز تک کے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔
اسے اگر انجیئنرنگ کی ٹیکنالوجی کا ایک شاہکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا مگر اس طرح کے جُھولے اب دنیا کے کئی اور ترقی یافتہ ممالک میں بھی بنائے جا چکے ہیں مگر جو بات لندن کی ہے وہ کہیں اور کہاں۔ رحمن فارس اپنے سالے کے ساتھ کچھ وقت گزار کے ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکا تھا مگر عزیزی عمران پرتاب گڑھی حسبِ عادت اور حسب معمول لاپتہ تھا اور اس کا فون بھی بند جا رہا تھا سو یہی طے پایا کہ ہم اس بلندی اور پستی کے کھیل سے محظوظ ہو لیں کہ یہ اس کا سیکنڈ لاسٹ پھیرا تھا عام طور پر لوگ ان بہت آہستہ حرکت کرنے والے کیبنوں میں تقریباً بھاگ کر سوار ہوتے ہیں لیکن انور مسعود کی سلو موشن چال کا انداز کچھ ایسا تھا کہ عملے کی مددگار لڑکیوں نے ہمارے والے کیبن کو اُس وقت تک روکے رکھا جب تک انور اُس میں سوار نہیں ہو گیا ہمارے علاوہ اس کیبن میں ایک ایسا گورا جوڑا تھا جو صورت سے میاں بیوی نما نظر آتے تھے لیکن گفتگو پر پتہ چلا کہ وہ اصل میں باپ بیٹی تھے اور یہ خاتون اپنے نوّے برس کے والد کو جو غالباً پولینڈ سے آیا تھا سیر کرانے کے لیے یہاں لائی تھی باپ اور بیٹی کی محبت کا یہ منظر بیک وقت عجیب بھی تھا اور خوب صورت بھی کہ وہاں عام طور پر بوڑھے والدین کے لیے بوجوہ کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا اس سفر کا کل دورانیہ تقریباً پچیس فٹ تھا، ایک قریبی سوینئر شاپ سے بے حد مزیدار قلفی نما آئسکریم کھا کر ہم واپسی کا سفر شروع ہی کرنے والے تھے کہ ایک طرف سے عمران اور سعید آتے دکھائی دیے۔
لندن آئی اپنے آ ج کے آخری سفر پر روانہ ہونے کے لیے تقریباً تیار تھی سو ہم نے جلدی سے ان کو اس پر سوار کرایا کہ بصورتِ دیگر عمران شائد اس دورے کی حد تک اس تجربے سے محروم رہ جاتا اور خود دوبارہ آئسکریم کے فریزر کی طرف تیز تر قدموں سے چلے کہ اس دکان نے بھی چھ بجے بند ہو جانا تھا، لندن کی بیشتر دکانیں اسی طرح سر شام بند ہو جاتی ہیں کہ شراب خانوں، ڈانس کلبوں اور ریستورانوں اور مخصوص اسٹورز کے علاوہ تمام کاروباری مراکز کے شٹرز گرا دیے جاتے ہیں۔ انتظار کے اس وقفے میں سہیل ضرار نے بتایا کہ Ukim کے سربراہ ریاض ولی آزاد کشمیر میں آنے والے حالیہ زلزلے کے متاثرین کے لیے ریلیف کا انتظام مکمل کر کے گیارہ اکتوبر کو واپس آ رہے ہیں اور امید ہے کہ اگلے تین مشاعروں میں وہ ہمارے ساتھ ہوں گے، ایک دوبار اُن سے فون پر بات بھی ہوئی لیکن ملاقات کی صورت اس لیے نہ نکل سکی کہ لندن پہنچنے میں انھیں الٹے قدموں واپس پاکستان جانا پڑا کہ وہاں اُن کے کسی بہت قریبی عزیز نے سفرِ آخرت اختیار کر لیا تھا۔
Ukimا س وقت برطانیہ میں چالیس سے زیادہ اسلامک سینٹر چلا رہا ہے کہ وہاں مسجد بنانے کی قانونی شکل یہی ہے کہ اسے مذہبی حوالے سے ایک ہمہ گیر ادارے کی شکل دے دی جائے، سو ان سینٹرز میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کے کھیلنے اور کھانے پینے کی جگہیں بھی بنائی جاتی ہیں، بچوں سے یاد آیا کہ میرے چھ سالہ پوتے موسیٰ ذی شان کا فون پر کہا ہوا ایک جملہ وہاں کے حلقہ احباب میں بچے کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ بہت مزے لے لے کر دہرایا گیا، لاہور سے روانگی کے وقت اس نے مجھے اپنے لیے بنٹیز اور چاکلیٹ لانے کی فرمائش کی تھی جس کی یاد دہانی اُس نے فون پر کچھ اس طرح سے کرائی"دادا کیا میری بنٹیز اور چاکلیٹ کا انتظام ہو گیا ہے"
لفظ "انتظام " کا ایسا برمحل اور بامعنی استعمال اُس کی عمر کے حوالے سے بہت سراہا گیا۔ احسان شاہد سے پرانی یاد اللہ ہے سو جب یہ پتہ چلا کہ اُس کو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے OBE کا سرکاری ایوارڈ ملا ہے تو ہم نے چاہا کہ اُسے مل کر مبارک دی جائے مگر آگے چل کر یہ خواہش ایک باقاعدہ ادبی تقریب کی شکل اختیار کر گئی جو برادرم احسان شاہد نے اپنی ادبی تنظیم کے بینر تلے اس طرح سے منعقد کی کہ ایک باقاعدہ مشاعرے کی سی شکل بن گئی۔ مقامی ادارے "دھنک" کی روحِ رواں سیّدہ کوثر سمیت بہت سے نئے اور پرانے احباب سے ملاقات رہی، برادرم وقار احمد نے بتایا کہ احسان شاہد ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ کمیونٹی ویلفیئر کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اور ملکہ کی طرف سے یہ ایوارڈ اُس کے ساتھ ساتھ پوری کمیونٹی کے لیے بھی عزت اور افتخار کی بات ہے۔