انقرہ
استنبول میں ہمارا قیام 23دسمبر تک تھا اور طے یہی پایا تھا کہ 27 دسمبر کو روانگی سے پہلے باقی کے تین دن انقرہ اور قونیہ میں گزارے جائیں۔ انقرہ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی سربراہ آسمان بیلن اوزجان نہ صرف مسلسل رابطے میں تھی بلکہ اُس کا اصرار بھی تھا کہ ہمارا قیام اُسی کے گھر پر ہوگا اور ایسا ہوا کہ وہ خاتون اپنی محبت اور منفرد لہجے سے اپنی بات منوانے کا ہنر جانتی ہے۔
میری اُس سے پہلی ملاقات جی او آر تھری والے گھر میں ہوئی تھی جہاں وہ پروین شاکر پر لکھے گئے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس کے حوالے سے انٹرویو کے لیے آئی تھی جس کا خوشگوار تسلسل تب سے اب تک قائم ہے اور تھا۔ برادرم عمر فاروق کے ذریعے سے ٹکٹوں کی بکنگ ہوگئی سو اب ہمیں سیدھاجاکر ٹرین میں سوار ہونا تھا لیکن میری آسان ا ور سفری سہولیات کے لیے اُس نوجوان نے وہ دن ہمارے نام کردیا، ہمارے ساتھ سفر کرکے انقرہ گیا اور ہمیں محفوظ ہاتھوں میں پہنچا کر چند گھنٹے بعد واپسی کی ٹرین پکڑلی جس سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ "الخدمت" سے تعلق رکھنے والا ہر شخص خدمت میں راحت محسوس کرتا ہے۔
ٹرین کا ڈبہ ہماری ریل کار جیسا تھا سیٹیں آرام دہ اورجہاز کی طرح کی تھیں اور چائے پانی کا معقول انتظام تھا جس کی قیمت ٹکٹ میں شامل تھی، کمپارٹمنٹ کے وسط میں ایک چھوٹی اسکرین نصب تھی جو سفر کے دوران آنے والے اسٹیشنز اور وہاں رکنے کے وقفے کی مہلت وغیرہ کے ساتھ طے کیا جانے والا فاصلہ اور موجودہ رفتار بھی ہندسوں اور آواز کی شکل میں بتائی جاتی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ ٹرین 255 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک جائے گی مگر یہ رفتار حسبِ ضرورت کم یا زیادہ ہوتی رہے گی۔
سیٹ کے سامنے کھانے کی فولڈنگ میز کے نیچے اخبار رسالے یا دستی اشیاء رکھنے کے لیے ایک بڑی سی جیب بھی موجود تھی۔ میری بیگم فردوس نے اُس میں ہاتھ ڈالا تو ایک مردانہ پرس نکل آیا جس میں خاصی مقدار میں ٹرکش لیرے بھی موجود تھے ہم نے عمر فاروق کے ذریعے متعلقہ عملے سے رابطہ کیا انھوں نے ہمارا شکریہ ادا کرنے کے بعد بتایا کہ اکثر لوگ اپنی قیمتی چیزیں جاتے وقت ساتھ لے جانا بھول جاتے ہیں، سو ریلوے نے lost and foundکا ایک باقاعدہ شعبہ بنا رکھا ہے اور یہ بٹوا ایک دو دن میں متعلقہ شخص تک پہنچ جائے گا کوئی ایک گھنٹہ چلنے کے بعد ٹرین کی رفتار یک دم تیز ہونا شروع ہوگئی اور جلد ہی اپنی آخری منزل یعنی 255تک پہنچ گئی۔
اس وقت مجھے برادرم محمود شام بہت یاد آئے کہ جاپان کے ایک سفر میں اُن کے ساتھ پہلی بار وہاں کی بُلٹ ٹرین میں بیٹھنے کا موقع ملا جو چار سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتی ہے، اب ہوا یوں کہ باقی لوگ تو ایک ڈیڑھ گھنٹے کے سفر میں ٹرین کی اس "برق رفتاری" پر حیران اور اس تجربے سے لطف اندوز ہوتے رہے جب کہ محمود شام نے اس دوران میں اِدھر اُدھر دیکھے بغیر پورا کالم لکھ مارا۔ استنبول سے انقرہ تک کا یہ سفر تقریباً ساڑھے چار گھنٹے کا تھا معلوم ہوا کہ وہاں ہماری طرح براہ راست ٹرین کے ڈبوں سے اپنے مہمانوں کو وصول نہیں کیا جاتا بلکہ ہوائی اڈے کی طرح یہاں بھی اس کے لیے ایک خاص علاقہ مخصوص ہوتا ہے ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی تھی۔
ڈاکٹر آسمان اور اُس کا ایک نوجوان ساتھی اُستاد ہمارے منتظر تھے جن کے گرم جوش مصافحوں اور معانقوں کی وجہ سے موسم کے اثرات کچھ دیر کے لیے نظروں سے اوجھل ہوگئے حالانکہ پارکنگ ایریا تک پہنچنے میں ہمیں کھلے آسمان تلے سے گزرنا تھا، آسمان یعنی ڈاکٹر آسمان کی گاڑی میں دو بڑے بکسوں اور پانچ افراد کے لیے جگہ کم تھی، سو طے یہ ہوا کہ آسمان اور عمر فاروق ٹیکسی پر آئیں گے، ریلوے اسٹیشن سے یونیورسٹی کا فاصلہ سات آٹھ منٹ کا تھا جہاں تقریباً سارے کا سارا شعبہ اُردو ہمارا منتظر تھا۔ آسمان نے بتایا کہ ایک ٹی وی انٹرویو کی وجہ سے ہمارے پاس اس کے گھر جاکر سامان رکھنے اور چائے وغیرہ پینے کا وقت نہیں ہے سو اس کے لیے اس کی معذرت قبول کی جائے۔
آگے چل کر معلوم ہوا کہ وہ اس لفظ کو بہت کثرت اور بڑے متنوع انداز میں استعمال کرتی ہے۔ انقرہ میں پاکستان کے سفیرسائرس سجاد قاضی اُن کی بیگم اور سفارت خانے کے افسران کے ساتھ ساتھ کئی اور احباب بھی تقریب میں موجود تھے جس کا اہتمام یونیورسٹی کے شعبہ اردو اور انقرہ کے پاکستانی اسکول کے دوستوں ڈاکٹر اے بی اشرف اور غالب گیلانی نے مل کر کیا تھا، سائرس قاضی صاحب سے استنبول کے ایوارڈ فنکشن میں ایک سرسری سی ملاقات ہوئی تھی جس کا خوشگوار تاثر اس استقبالیہ محفل سے لے کر انقرہ کے سارے قیام تک مسلسل بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا گیا، بعد کی ملاقاتوں میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ لارنس کالج گھوڑا گلی میں تعلیم کے دوران ہمارے مرحوم دوست مسرور کیفی کے شاگرد بھی رہ چکے، ڈیفنس اتاشی عمران، اصغر صاحب سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق پاکستان ایئر فورس سے ہے اور وہ اُسی سیٹ پر کام کر رہے ہیں۔
جس پر میرے عزیز دوست ایئر وائس مارشل (اب ریٹائرڈ ) ساجد حبیب چند برس قبل تین سال کے لیے یہاں آئے تھے۔ وہاں دوستوں سے چند ماہ قبل برادرم ڈاکٹر سید تقی عابدی کی کتاب "امجد فہمی" کی تعارفی تقریب کا بھی بہت ذکر رہا جس میں میں پلوامہ واقعے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکتا تھا کہ عین اس سے اگلے دن میری فلائٹ تھی جو آیندہ تین چار دن منقطع رہی۔ اے بی اشرف بھائی سے تو کسی نہ کسی طرح رابطے کی صورت رہی مگر غالب گیلانی سے "تائیدِ تازہ" میں چالیس برس نکل گئے، اُن کے مجھ پر پڑھے گئے مضمون میں بہت سے ایسے احباب اور اساتذہ بالخصوص سجاد باقر رضوی مرحوم کا تذکرہ تھا جس نے کئی بھولی ہوئی یادوں اور چہروں کوپھر سے زندہ اور تازہ کردیا۔ ڈاکٹر اے بی اشر ف کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے ستر کی دہائی میں اُس وقت مجھ پر مضمون لکھا تھا جب ابھی میں ادبی دنیا میں نووارد تھا اور اپنی پہچان کی تلاش کے عمل میں تھا، طے ہوا کہ 26 دسمبر کو عمران اصغر صاحب کے گھر سے چائے پینے کے بعد رات کا کھانا اُن کی طرف ہوگا۔
آسمان کے گھر پر اُس کی بہت پیاری بیٹی دفینے سے ملاقات ہوئی معلوم ہوا کہ اُس کا شوہر جو اس یونیورسٹی میں فرانسیسی زبان پڑھاتا ہے فی الوقت کسی دفتری کام میں ہے اور اس سے ہماری ملاقات پرسوں ہوگی کہ کل ہمیں قونیہ کے لیے روانہ ہونا ہے جہاں ہمارے مرشد اقبال کے بھی پیرو مرشد مولانا روم ابدی نیند سو رہے ہیں جن کے کلام کو میزبانِ فارسی قرآنِ مجید کی تفسیر کا درجہ دیا گیا ہے۔