علی یاسر
نو عمری یا جوانی کی موت کے بارے میں اکثر ہم روا روی میں یہ کہہ جاتے ہیں کہ "وقت سے پہلے چلا گیا" یا یہ کہ "ابھی یہ وقت نہیں تھا اُس کے جانے کا" ایسا کہنے والوں میں خود بھی شامل رہا ہوں مگر عزیز دوست دلدار پرویز بھٹی مرحوم کے جنازے پرایک بظاہر ان پڑھ دیہاتی بابے نے ایک ایسی بات کی کہ اب میں کبھی اس طرح کے الفاظ زبان پر نہیں لاتا اُس نے کہا جب ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ کس نے کب جانا ہے تو پھر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ وقت سے پہلے چلا گیا یا یہ کہ ابھی یہ اُس کے جانے کا وقت نہیں تھا؟ پھر اُس نے اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جانے والا تو اپنے صحیح اور مقررہ وقت پر ہی جاتا ہے اُس سے محبت کرنے والے نہیں چاہتے تھے کہ وہ ابھی جائے۔
کل صبح فیس بُک پر علی یاسر کی رحلت کی خبر ایسی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ چند لمحوں کے لیے ایک بار پھر میں "وقت اور ناوقتی" کے اسی دوراہے پر آن کھڑا ہوا۔ چند دن قبل فون پر ہونے والی آخری گفتگو میں وہ بتا رہا تھا کہ تین مہینے منسٹری میں خواری کے بعد وہ آج ہی اکادمی ادبیات میں اپنی سیٹ پر واپس آیا ہے جہاں تعطل کا شکار بے شمار کام جمع ہوئے پڑے ہیں اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اکادمی سے متعلق احباب کے گِلوں اور سوالوں کا جواب کیسے دے، پھر جیسے خودکلامی کے انداز میں بولا "بہرحال میں نے کام شروع کر دیا ہے "۔
ابھی دو ماہ پہلے کی بات ہے وہ مظہر بھائی، احمد جلال اورشازیہ بی بی کے پی ٹی سی ایل کے سالانہ مشاعرے کے انتظامات اتنی محنت اور اپنائیت سے کر رہا تھا جیسے وہ مہمان کم اور میزبان زیادہ ہو۔ اب سوچتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ وہ ہر کام ایسی ہی دلجمعی، خندہ پیشانی اور ذمے د اری کے ساتھ کیا کرتا تھا جس کی ایک مثال اُس کی دفتری اور دیگر مصروفیات کے باوجود پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حصول بھی تھا، اب یہ اور بات ہے کہ اُسے اپنے نام کے ساتھ "ڈاکٹر" لکھنے اور سننے کی عادت بھی نہیں پڑسکی تھی کہ ایک دم سارا تماشا ہی ختم ہوگیا، ابھی تو اس کی اس کامیابی پر بجنے والی تالیوں کی گونج بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ان کی جگہ آہوں اور کراہوں نے لے لی اور رحمن فارس کے اس شعر نے ایک حقیقی منظر نامے کی شکل اختیار کرلی کہ
کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
کل سے اب تک فیس بُک پر اظہار افسوس کرنے والوں نے اُس کے بہت سے اشعار کے حوالے دیے ہیں لیکن میرا دھیان بار باراس کی اُن دو مشہور اور پسندیدہ غزلوں کی طرف جا رہا ہے جس میں موت اور جدائی اور وقت کی روانی اور بے کرانی ایک عجیب طرح سے ایک دوسرے پر overlap ہو رہے ہیں۔ یہ سچ ہے یا مجھے ہی ایسا لگ رہا ہے ذرا دیکھیئے۔
کل تمہیں کوئی مصیبت بھی تو پڑسکتی ہے
ہم فقیروں کی ضرورت بھی تو پڑسکتی ہے
اتنی عجلت میں بچھڑنے کا ارادا نہ کرو
پھر ملاقات میں مدّت بھی تو پڑسکتی ہے
آدمی زاد ہوں مجھ کو نہ فرشتہ سمجھو
لب کشا ہونے کی ہمت بھی تو پڑسکتی ہے
یہ بھی ہوسکتا ہے زندہ نہ رہوں اُس کے بغیر
اور تنہائی کی عادت بھی تو پڑسکتی ہے
یہ شاعری بھی کیا جادوگری ہے کہ چشم زدن میں الفاظ کے مطلب کچھ سے کچھ ہوجاتے ہیں بالخصوص جب شاعر خود "ہے" سے "تھا" تک کا سفر کرتا ہے تو یہ تبدیلی اُس کے کہے ہوئے لفظوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اب دیکھئے اس غزل کی "ردیف۔ پڑسکتی ہے"میں جو امکان کی کیفیت تھی اس نے کیسے اسے امرِواقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ دوسری غزل تو اور زیادہ معنی آفریں اور پراسرارہوگئی ہے کہ
میں ہوں صاف گو کسی پیش و پس میں نہ آؤں گا
ترا وہم ہے، تری دسترس میں نہ آؤں گا
میں گُلوں کی شکل میں آؤں گا ترے سامنے
مرے یار صورتِ خاروخس میں نہ آؤں گا
مجھے روک لو میں چلا گیا تو چلا گیا
کسی طورپھر میں تمہارے بس میں نہ آؤں گا
علی یاسر کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جن کا باقاعدہ فنی سفر شروع ہی اکیسویں صدی میں ہوا ہے ان بیس برسوں میں کہنے کو تو بے شمار شاعر سامنے آتے ہیں مگر جن چند نوجوانوں نے زیادہ تیزی اور مہارت کے ساتھ یہ مسافت طے کی ہے اُن کی تعداد کوئی بہت زیادہ نہیں جب کہ پہلی صف میں جگہ پاسکنے والے سخن گو تو اور بھی کم ہیں۔
علی یاسر جس تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اس میں مزید فروغ اور پائیداری کے امکانات اس لیے بھی زیادہ تھے کہ وہ اُردو شاعری کی کلاسیکی روائت سے نہ صرف گہری دلچسپی رکھتا تھا بلکہ اس ضمن میں اس کا مطالعہ اور ترجیحات بھی بہت حوصلہ افزا تھیں۔ گزشتہ چند برسوں میں نوجوانی میں اس دنیا سے پردہ کرجانے والے شاعروں میں دانیال عزیز کے بعد وہ دوسرا شاعر ہے جن کا مستقبل بہت روشن نظر آرہا تھا وہ ایک خوش رُو، خوش گفتار اور خوش مزاج انسان تھا جو یقیناً بہت آگے تک جاسکتا تھا لیکن… اب یہ "لیکن" ہی وہ خطرناک موڑ ہے جسے کاٹتے ہوئے منظر اور ناظر دونوں پھر اس گرداب میں گھومنے لگ جاتے ہیں کہ وقت کہیں ہے بھی یا نہیں؟
لفظ کا حسن معانی میں ہوا کرتا تھا
میرا کردار کہانی میں ہواکرتا تھا