آغا امیر حسین
گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی کے آخری برسوں کی بات ہے سارا لاہور شہر کسی بھی طرف سے ٹائون ہال سے سائیکل پر تیس منٹ کی مسافت کے اندر اندر ختم ہوجاتا تھا اور یہ ٹائون ہال اپرمال اور لوئر مال کے تقریباً دہانے پر واقع تھا جب کہ فنونِ لطیفہ، ادب، کتاب اور اعلیٰ تعلیم سے متعلق بیشتر ادارے بھی اسی نواح میں واقع تھے۔
پاک ٹی ہائو س سے دس منٹ کی پیدل مسافت پر ہال روڈ کے کنارے کتابوں کی ایک دوکان کھلی جس کا نام اس وقت کے اعتبار سے بہت انوکھا اور مختلف تھا کلاسیک، نامی اس خوبصورت دوکان کے مالک آغا امیر حسین تھے اور مزید لطف کی بات یہ ہے کہ اس کی زیادہ تر رونق جدید ادب اور انقلابی ادب کے اُردو تراجم سے تھی کہ یہ حال ہی میں جدا ہونے و الے ٓغا امیر حسین کا Passion بھی تھا اور Profession بھی جس کی خوشبو وہ تقریباً چھ د ہائیوں تک مسلسل پھیلاتے رہے اگرچہ اُس وقت مال روڈ اور اس کے نواح میں کتابوں کی دکانیں خاصی تعداد میں تھیں لیکن کلاسیکی حوالے سے کشمیری بازار اور نصابی وغیرنصابی کتابوں کے حوالے سے اُردو بازارہی کو کتاب اور کتابی صنعت کا مرکز سمجھا جاتا تھا، یہ نیاز صاحب کے سنگِ میل پبلی کیشنز اور خالد شریف کے ماورا پبلشرز کے مال روڈ پرآنے سے قدرے پہلے کی بات ہے۔
مقبول اکیڈمی، مکتبہ کاروان، آئنہ ادب اور میری لائبریری وغیرہ بھی اُس کے آس پاس تھے البتہ مزنگ روڈ پر قائم ہونے والی کتابوں کی دوکانیں اور اشاعتی ادارے قدرے بعد کی بات ہیں، اس پسِ منظر کا بیان اس لیے ضروری تھا کہ اس کو سمجھے بغیر آغا امیر حسین مرحوم کے قائم کردہ ادارہ کلاسیک کی صحیح قدروقیمت اور انفرادیت کو ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب غیریورپی اور بالخصوص مارکسی ادب سے برصغیر بالخصوص موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں کی آشنائی بہت واجبی سی تھی کہ روسی ادب پر کمیونسٹ اور لادین افکار کی ترویج کا ٹھپہ لگا کر اسے ایک طرح سے BAN کردیا گیا تھا اور انگریزی کے علاوہ دیگر یورپی اور بین ا لاقوامی ادب تراجم کی کمیابی کے باعث ادب کے شائقین کی پہنچ سے دُور تھا۔
جدید رُوسی ادب کے تراجم پر مشتمل سستے ایڈیشن پہلے پہلے سے پیپلز پبلشنگ ہائوس اور عالمی ادب کے تراجم کلاسیک ہی کی معرفت عام ہوئے ا ور دیکھتے ہی دیکھتے کلاسیک جدید ادب کے قارئین کے لیے ایک زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کر گئی کہ ملک اور بیرون ملک سے آنے والے کسی بھی ادب دوست کے لیے لاہور آنے کا ایک مقصد "کاسیک" پر حاضری دینا بھی ہوتا تھا جہاں آغا امیرحسین کی مشہور، گہری اور خوب صورت مسکراہٹ ان کی منتظر ہوتی تھی۔
آغا صاحب ایک خوش رُو، خوش گفتار اور خوش مزاج انسان تھے۔ کتاب کا اچھا گاہک اُن کی کمزوری تھی کہ وہ اُ س سے گفتگو کے دوران بزنس کو بھی بھول جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب اُن کے اردگرد کتابوں کی دوکانیں تیزی سے گفٹ شاپس میں تبدیل ہورہی تھیں اور کتابیں دکانوں کے کونوں میں سمٹتی چلی جارہی تھیں، وہ بہت دیر تک کتاب کا مقدمہ لڑتے رہے، معاشی تقاضوں کے دبائو کے تحت چند برس قبل انھیں بھی کتابوں کا زیادہ تر کاروبار پہلی منزل پر لے جانا پڑا مگر وہ اس صورت حال سے بے حد نا خوش تھے۔
لیکن اس ناخوشگوار صورتِ حال کا ایک اچھا پہلو یہ نکلا کہ نہ صرف اُن کے اندر کا لکھاری جاگ اُٹھا بلکہ ماہنامہ "کلاسیک" کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انھوں نے ماہناموں کی روائت میں کچھ ایسے اضافوں کا اہتمام کیا جو اس سے قبل نہ ہونے کے برابر تھے، اس میں سب سے خوبصورت بات پوری پوری کتابوں کو بہت کم قیمت پر اس رسالے کے ایڈیشنوں کے طور پر چھاپنا بھی تھا۔ یہ کتابیں اپنی جگہ پر شائقینِ ادب کے لیے ایک کم قیمت اور خوب صورت تحفہ تو تھیں ہی مگر اس سے بھی زیادہ قابلِ قدر اُن کے وہ اداریہ نما مضامین تھے جن میں وہ حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ عالمی، ادبی اور سیاسی مسائل پر بھی مضبوط اور عالمانہ تبصرے کرتے تھے جن میں اُن کی روشن خیالی، انسان دوستی، ادب کی معنویت اور انسانی استحصال سے پاک معاشرے اور افتادگانِ خاک کا درد نمایاں تھا۔ اس دوران میں انھوں نے ا پنی آپ بیتی کے علاوہ سفرنامے بھی لکھے جن میں اعلیٰ انسانی اقدار کے ساتھ اُن کی وابستگی ہمیشہ نمایاں رہی۔
مارکسی اور روسی ادب سے اُن کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی انقلابی ادب اور جدید لاطینی امریکی ادب کا مطالعہ تو اُن کی تحریروں میں جھلکتا ہی تھا لیکن بہت سے اسلامی ممالک کے ادب پر بھی اُن کی گہری نظر تھی۔
کورونا کے پھیلائو سے قبل ہونے والی آخری ملاقات اس وقت میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہی ہے، نچلی اور درمیانی منزل پر اُن کے صاحبزادے دُکان میں قائم کردہ اضافی کاروباروں میں مصروف نظر آئے، پتہ چلا کہ آغا صاحب زیادہ تر اُوپر والی منزل میں وقت گزارتے ہیں جہاں اب بھی چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں ہیں، ہم بہت دیر تک کتابوں کے ماضی، حال اور مستقبل کی باتیں کرتے رہے، ترقی پسند ادب کی تحریک اور تنظیم کے فرق پر سیرِ حاصل گفتگو ہوئی۔
انھوں نے میرے اس خیال سے اتفاق کیا کہ اس ضمن میں مرحومہ قرۃالعین حیدر کے ایک نسبتاً کم معروف ناول "آخرِشب کے ہم سفر" میں اس مسئلے کی جس خوبصورتی اور گہرائی سے وضاحت کی گئی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے اور یہ کہ ترقی پسند ادب کی تنظیم کے حوالے سے جو احباب دنیا کے مختلف حصوں میں سر گرم نظر آرہے ہیں، انھیں سب سے زیادہ وقت اور تاریخ کے اُس فیصلے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جس سے سبق تو لیا جاسکتا ہے، اُسے بدلا نہیں جاسکتا۔
کتاب اور کتابوں کی دُکانوں کی اس مبینہ درماندگی کے دور میں آغا امیر حسین جیسے لوگ ایک اُمید کی کرن کا درجہ رکھتے تھے، وہ اس دم بدم مختصر ہوتی ہوئی جماعت کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے اور یقینا وہ زندہ ادب کے پاسداروں کی تاریخ میں دیر تک اور عزت کے ساتھ یاد کیے جائیں گے۔