عابد علی
عابد علی سے میری پہلی ملاقات کوئی 45 برس قبل ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن میں عزیز دوست مرحوم جمیل ملک کے کمرے میں ہوئی تھی جو اُن دنوں وہاں پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، اُس محفل میں برادرم عارف وقار بھی موجود تھے اور یہ دونوں حضرات عابد علی کو پہلے سے جانتے تھے کہ اُن کی کوئٹہ تعیناتی کے زمانے میں عابد علی مختلف ریڈیو پروگراموں میں صدا کاری کے لیے آیا کرتا تھا، اُس کی غیرمعمولی خوب صورت آواز کی تربیت کا رشتہ بھی اُسی زمانے سے ملتا ہے، دورانِ گفتگو اُس نے بتایا کہ اُسے شعرو ادب سے بھی خصوصی دلچسپی ہے اور اُس نے کچھ افسانے بھی لکھ رکھے ہیں۔
اتفاق سے یہ وہی زمانہ تھا جب میں ریڈیو کے بعد ٹی وی ڈرامے میں بطور مصنف اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ مجھ سے کوئی آٹھ برس چھوٹا تھا اور عمر کے اس فرق کا لحاظ اُس نے زندگی بھر قائم رکھا۔ معلوم ہوا کہ وہ عارف وقار مرحوم، اداکار شاہنوار جونیئر اور اُس وقت کا اُبھرتا ہوا گائیک رجب علی گڑھی شاہو چوک کے قریب ایک عمارت میں کرائے کے دو کمروں میں رہا کرتے ہیں۔
ہم سب میں فنونِ لطیفہ کی قدرِ مشترک کے ساتھ ایک رشتہ یہ بھی تھا کہ ہر کوئی اپنے اپنے میدان میں آٔگے بڑھنے کے لیے کوشاں تھا اور اُس وقت تک کسی کو بھی ایسی کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی جسے تسلی بخش کہا جاسکے۔ سو ہماری خوشیاں محدود اور کم اورگِلے اور خواہشیں تابخاکِ کا شغر تھے۔
آج اُس کا تدفین کے چند گھنٹوں بعد جب میں اُس کے بارے میں تعزیتی کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو یادوں کا ایک ہجوم ہے جو امڈا چلا آرہا ہے، ان دنوں اتوار کی شام وہ میرے ساتھ حلقہ اربابِ ذوق کے ہفتہ وار اجلاس میں گزارتا اور باقی کا پورا ہفتہ ٹی وی اور فلم اسٹوڈیوز کے نواح میں رہتا کہ موقع ملنے پر دنیا کو اپنے فن اور صلاحیتوں سے روشناس کراسکے، اُس کی مردانہ وجاہت اور آواز کی خوبصورتی نے بہت جلد متعلقہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور اسے گزارے لائق کام ملنا شروع ہوگیا۔
یہ رول زیادہ تر ثانوی نوعیت کے تھے لیکن ہر ڈرامے کے ساتھ اُس کے فنی قد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ کسی سیرئیل میں اُس کا پہلا بڑا کردار منو بھائی کا ڈرامہ"جھوک سیال" تھا جو گلوکارہ حاجرہ سید کے والد کے ایک ناول کی ڈرامائی تشکیل تھی اسی ڈرامے کے دوران اُس کی حمیرا چوہدری سے شادی ہوئی جس سے آگے چل کر وہ تین بچیوں کا باپ بنا۔ میرے بہت سے انفرادی ڈراموں کے علاوہ اُس نے چار سیریلز "وارث۔ سمندر۔ وقت" اور "انکار" میں بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کیا۔
اگر چہ اُس کو زیادہ شہرت "وارث" کے کردار "دلاور" کی وجہ سے ملی مگر میرے نزدیک ڈرامہ سیرئیل "سمندر" کا "احمدکمال" اُس کی اداکاری کی معراج ٹھہرتا ہے، کہ اتنی بڑی کاسٹ اور بہت سے مضبوط کرداروں کے باوجود وہ اس ڈرامے میں شروع سے آخر تک چھایا رہا اور ہر بڑے اداکار کی طرح اُس نے اس کردار میں کچھ ایسے رنگ بھرے جو شائد خود میرے ذہن میں بھی اتنے گہرے اور متنوع نہیں تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ بوجوہ میری اور اس کی ملاقاتیں کم ہوتی چلی گئیں مگر دوستی اور احترام کے رشتے میں آخر دم تک کوئی فرق نہیں آیا اُس کی یاد داشت اور حسنِ مزاح دونوں غیر معمولی تھیں۔ آخری ملاقات میں اُس نے مجھے بہت پرانے واقعات یاد دلائے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت دلچسپ تھے اس نے بتایا کہ پہلی ملاقات میں اُس نے مجھے ایک لطیفہ سنایا جو خاصا پرانا تھا اس پر میں نے اس سے کہا کہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں وطنِ عزیز کے جس علاقے سے تم آئے ہو وہاں ہر چیز دیر سے پہنچتی ہے دوسری بات اس سے بھی دلچسپ تھی کسی ڈرامے میں میں نے اپنی طرف سے ایک بہت مزاحیہ جملہ لکھا مگر عابد علی کے سنائے ہوئے لطیفے کی طرح اُس پر بھی کوئی نہیں ہنسا، کچھ عرصے کے بعد میں نے کسی اور اسکرپٹ میں پھر وہی جملہ لکھا مگر نتیجے میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی، عابد علی کو اس بات کا پتا تھا سو جب میں نے تیسری باریہی جملہ اُس کے کردار کے مکالموں میں لکھا تو پہلی اسکرپٹ ریڈنگ کے وقت وہ میرے ساتھ ہی بیٹھا تھا، اس نے وہ جملہ بولا اور پھر آہستہ سے جھک کر میرے کان میں کہا "اس بار بھی اس پر کسی نے نہیں ہنسنا"۔
اداکاری کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بطور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر بھی سامنے آیا اور اگرچہ اس کے بنائے ہوئے ڈرامے ٹھیک ٹھاک تھے "(دوسرا آسمان" نامی سیریل میں تو اس نے فرمائش کرکے مجھ سے کچھ گیت بھی لکھوائے تھے) مگر ان کو وہ پذیرائی نہیں مل سکی جس کی وہ توقع کر رہا تھا اس دوران میں اس کی ازدواجی زندگی بھی کچھ مسائل کا شکار ہوئی جس کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کے ساتھ ساتھ بچیوں سے بھی دُور ہوگیا جو ظاہر ہے ایک بہت ناخوشگوار صورتِ حال تھی مگر مزید خرابی یہ ہوئی کہ کراچی شفٹ ہونے کے بعد اسے بہت ہی کم ایسے کردار ملے جن میں وہ اپنی خداداد اور بے مثال صلاحیتوں کا حقیقی کمال دکھا سکتا کچھ عرصہ قبل اُس سے فون پر بات ہوئی تو اُس نے مجھے میرا ہی ایک شعر یاد دلایا کہ :
آپس کی کسی بات کا ملتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ سمجھتے ہیں کہ بیٹھیں گے کسی دن
اس پر ہم نے جلد ملنے کے وعدے وعید تو کیے لیکن اُس وقت میرے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ "کسی دن" اب کبھی نہیں آئے گا۔ چند دن قبل برادرِ عزیز سہیل اصغر کی ایک پوسٹ سے اُس کی بیماری کا پتا چلا میں نے فون کرکے تفصیل دریافت کی تو اس کی بھرائی ہوئی آواز نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو چند گھنٹے قبل ایک بے حد تکلیف دہ خبر کی صورت میں سامنے آیا ہے بلاشبہ اُس کی رحلت سے اداکاری کا شعبہ ایک بہت بڑے فن کار سے محروم ہو گیا ہے لیکن مجھ سمیت اُس کے ذاتی اور پرانے دوستوں کے لیے یہ ایک ایسا نقصان ہے جو ہماری اپنی عمروں تک ہمارے ساتھ رہے گا۔
رب کریم اس کی روح کو اپنی امان میں رکھے وہ ایک سیلف میڈ انسان تھا اور اُس کی محبت اور موجودگی پر محفل کی روشنی اور گرمجوشی میں اضافے کا باعث بنتی تھی۔ وہ جسمانی طور پر تو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ہے مگر اُس کے ادا کیے ہوئے کردار اُسے ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔