ضمنی انتخابات: دھڑے کی سیاست
پچھلے تیس بتیس سال کے دوران ملکی سیاست کو جتنا سمجھنے، مانیٹر کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے نتیجے میں ایک موٹی بات سمجھ میں آئی ہے کہ ہمارے ہاں حلقہ جاتی سیاست (constituency based Politics) کا رجحان ہے۔ ہر حلقے کے اپنی زمینی حقائق اور معروضی حالات ہیں، انہی کے مطابق الیکشن لڑا اور ہارا یا جیتا جاتاہے۔ اس لئے ملک گیر سروے سے زیادہ حلقہ جاتی تجزیوں کی اہمیت ہے۔
اصل مقابلہ مقامی دھڑوں میں رہتا ہے۔ دھڑے کی سیاست پنجاب اور کے پی میں بہت اثرانداز ہوتی ہے، پنجاب کی دیہی سیاست تو اس کے بغیر نامکمل ہے۔ بعض جگہوں پر یہ دھڑے مستقل پوزیشن رکھتے ہیں جیسے پنجاب میں ایک عرصے تک مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے حامی دھڑے بنے تھے۔ درمیان میں کچھ عرصہ ق لیگ نے ن لیگ کی جگہ لے لی۔ مجھے یاد ہے کہ2002 کے الیکشن کے دوران کئی حلقوں میں جانا ہوا، وہاں ق لیگی امیدوار یہ دلیل دیتے کہ میاں صاحبان باہر ہیں، مگر ہم نے تو سیاست کرنی ہے۔ ہم مسلم لیگی ہیں، اس لئے ابھی مسلم لیگ ق سے لڑ رہے ہیں جب میاں آ جائیں گے تو مسلم لیگ ن میں واپس چلے جائیں گے۔ اس وقت مقابلہ پیپلزپارٹی سے تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب "ایک زرداری سب پر بھاری" کا پیپلزپارٹی پر کنٹرول نہیں تھا اور یہ ملک کی سب سے بڑی قومی جماعت تھی۔ زرداری صاحب کی برکت سے یہ صرف سندھ کی جماعت بن گئی ہے، باقی صوبوں میں اس کی حیثیت اتنی کمتر ہوگئی کہ امیدوار تک نہیں ملتے۔ پنجاب میں پچھلے دو انتخابات سے پیپلزپارٹی کی جگہ تحریک انصاف نے لے لی۔
مقامی دھڑوں کے ساتھ ساتھ چند فیصد ووٹوں کو متاثر کرنے والی لہر اپنی جگہ چلتی ہے۔ سوئنگ ووٹر اس سے متاثر ہوتا ہے۔ کئی بارایک پارٹی کے جیتنے اور دوسروں کے ہارنے کا اندازہ الیکشن سے پہلے ہی ہوجاتا ہے۔ یہ امر بھی نتائج کوتھوڑا بہت متاثر کرتا ہے۔ کاسمو پولیٹین شہروں جیسے لاہور کی سیاست کچھ مختلف ہے، مگر یہاں بھی برادریوں کی اہمیت ضرور ہے۔ ارائیں، کشمیری، کھوکھر، راجپوت، کمبوہ یا دیگر برادریوں سے وابستگی ٹکٹ ملنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ بڑے شہروں میں پارٹی ووٹ زیادہ ہوتا ہے اورمقبول پارٹی کا ٹکٹ اہمیت رکھتا ہے۔ بعض علاقے مختلف وجوہات کی بنا پر کسی خاص جماعت کے گڑھ کہلاتے ہیں۔
کسی متحرک یا بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کرانے والے لیڈر سے بھی اس کی جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ گوجرانوالہ میں غلام دستگیر خان، سیالکوٹ میں خواجہ آصف، ناروال میں احسن اقبال نے اپنی مضبوط پوزیشن بنائی۔ چودھری اختر وریو جیسے سیاستدان یا فیصل آباد کے چودھری نذیرجیسے لوگ اتنا مضبوط ذاتی اثر بنالیتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی دو تین الیکشن تک اس کا فائدہ لیتی رہتی ہے۔ گجرات میں چودھری ظہور الٰہی کے بعد ان کے وارث چودھری برادران نے پچھلے تیس پینتیس برسوں سے اپنی پوزیشن بڑی حد تک برقرار رکھی۔ مقامی دھڑے ہمیشہ ایک جگہ پر قائم نہیں رہتے، ان کی سرکردہ شخصیات اپنی سیاسی پوزیشن بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی ایک پارٹی سے ٹکٹ تو اگلی بار ٹکٹ کہیں اور سے لے لیا۔ اس کے ساتھ پورے دھڑے نے اپنی سیاسی پوزیشن تبدیل کر لی۔ جنوبی پنجاب کی سیاست میں یہ عام رجحان ہے۔
دھڑوں کی سیاست کی اپنی ایک سائنس ہے۔ اہم شخصیات جنہیں ہم الیکٹ ایبلز کہہ دیتے ہیں، یہ پورا سال سیاست کرتے ہیں، ڈیرے داری پر اچھی بھلی رقم خرچ ہوتی ہے۔ تھانے کچہری کے معاملات نمٹانے کے لئے باقاعدہ لوگ ملازم رکھے جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایک اہم سردار نے ایک بار بتایا کہ انہوں نے ایک ریٹائر ڈپٹی سیکرٹری کو باقاعدہ تنخواہ پر ملازم رکھا ہے تاکہ حلقے کے لوگوں کے لاہور سیکریٹریٹ میں پھنسے کام کرائے جا سکیں۔ ہر ہوشیار سیاستدان اپنے حلقے کی خوشی غمی کی تقریبات میں باقاعدگی سے شامل ہوتا ہے۔ کسی ایم این اے یا سابق رکن اسمبلی کا مقامی افراد کی فوتیدگی یا شادی کی تقریب میں شامل ہونا ان کے لئے سٹیٹس سمبل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لوگ نہ جا سکیں تو علاقے میں اس گھر والے شرمندہ شرمندہ پھرتے ہیں۔ اگلے الیکشن میں پھر انہیں منانے کے لئے بڑے منت ترلے کرنے پڑتے ہیں۔ لودھراں کے ممتاز سیاستدان جو بعد میں قتل ہوگئے، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ الیکشن کمپین میں ہر گھر کے بڑے کے پیروں میں باقاعدہ سر پر باندھی رومال نما پگڑی گرا دیتے تھے کہ میری عزت کا سوال ہے، ووٹ لازمی دینا۔ یہی ان کے بیٹے کی کامیابی کا گر ہے۔
کامیاب سیاسی شخصیات کے پیچھے ان کے پورے خاندان کی سپورٹ شامل رہتی ہے۔ سمجھدار بھائیوں، ہوشیار بیٹوں اور تجربہ کارچچا ماموں وغیرہ کا ہونا امیدوار کے لئے بونس ہے۔ صرف اپنے طور پر الیکشن جیتنا آسان نہیں رہتا، یہ پورا پیکج ہے۔ بعض گھرانوں میں ایک بیٹے کو الیکشن لڑاتے ہیں، دوسرانسبتاً متواضع اور خوش اخلاق بھائی ڈیرے داری کرتا ہے جبکہ سب سے اتھرے اور منہ زور بھائی بیٹے یا بھتیجے کی ذمہ داری الیکشن ڈے پر زورآزمائی کرنا ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق ڈنڈی پٹی والی سیاست انہی سرکش، جذباتی جوانوں کے سر پر چلتی ہے۔
عبیداللہ شادی خیل میانوالی کے معروف سیاستدان ہیں، عمران خان نے اس بار انہیں بری طرح شکست دی ہے، مگر وہ ہمیشہ ایک اہم مضبوط تگڑے امیدوار رہے ہیں، پچھلی بار عمران خان کی وہاں سے چھوڑی نشست پر ضمنی انتخاب جیت لیا تھا۔ ایک بار ان کے علاقے کی مقامی سیاست سے گہری شناسائی رکھنے والے ایک مقامی صحافی سے بات ہو رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ عبیداللہ شادی خیل کے دوبزرگ چچا ہیں، ہر روز دونوں بابے گھر سے دوالگ الگ گاڑیوں میں نکلتے ہیں، ایک کا رخ مشرق اور دوسرے کا مغرب کی طرف ہوتا ہے۔ شام تک وہ علاقے کا تفصیلی چکر لگاتے ہیں۔ کہیں کوئی فوتیدگی ہوئی ہے تو تعزیت کے لئے چلے گئے، دعا مانگی اور پھر اجازت طلب کر لی۔ کسی شادی میں شریک ہوگئے، کہیں شامل نہیں ہوسکتے تو چند منٹ کے لئے سہی اس گھر میں چلے گئے، دولہا یا دلہن کی فیملی کو مبارک دی، چائے کا کپ یا لسی کا گلاس پی لیا، حلوہ بنا ہوا تو چند چمچ اس کے چکھے، نیندر(شادی کے گھر دی جانے والی مخصوص رقم)دی اور پھر چلتے بنے۔ یہ روٹین سال بھر رہتی ہے۔ آپ اندازہ لگا لیں کہ جس گھر کی خوشی غمی میں یہ شریک ہوں گے جب ووٹ دینے جائیں گے تو کچھ نہ کچھ لحاظ وہ کرے گا۔ ایسے لوگ جس امیدوار کے گھرانے میں ہوں، اسے ہرانا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ اوپر سے وہ الیکٹ ایبل اگرکشادہ دست اور کشادہ دل ہے، خرچ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے تو پھر کئی الیکشن جیتتا جائے گا۔ الیکٹ ایبل یا اس کے کسی قریبی عزیز بھائی بیٹے کی بداخلاقی اور ملنسار نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن ہارے بھی جاتے ہیں۔ رکن اسمبلی تو اسمبلی کے اجلاس یا قومی سطح کی سیاست میں مصروف رہا، پیچھے حلقے کی ذمہ داری جس کو سونپی گئی، وہ نااہل نکلا اور اچھے بھلے حامی مخالف بنا بیٹھا۔
جے یوآئی ف کے حامی یہ بات سننا پسند نہیں کریں گے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیٹ سے مولانا فضل الرحمن کی شکست میں ان کے بھائی صاحب کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے رویے نے بہت لوگوں کو شاکی کیا۔ مولانا اپنے بیٹے کے دوسرے حلقے سے الیکشن کی وجہ سے مقامی سطح پر توجہ نہ دے پائے۔ نتیجہ ان کے خلاف گیا۔ یہی غلطی مخدوم شاہ محمود قریشی نے کی۔ انہیں اندازہ تھا کہ اس بارتحریک انصاف کو اکثریت حاصل ہوجائے گی اس لئے وہ صوبائی اسمبلی سے بھی الیکشن لڑے تاکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار بن سکیں۔ یاد رہے پچھلے الیکشن (2013) میں شاہ محمود سمیت کسی مرکزی لیڈر نے صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا تھا۔ قریشی صاحب نے اپنی صوبائی اسمبلی کی سیٹ کو ایزی لیا اور تمام تر زور اپنے بیٹے کے قومی اسمبلی کے حلقے پر لگا دیا کہ وہاں اس کا مقابلہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سے تھا۔ قریشی صاحب خود قومی اسمبلی کی سیٹ جیت گئے، ان کا بیٹا بھی ایم این اے بن گیا، مگر شاہ محمود ایم پی اے نہیں بن سکے۔ وزیراعلیٰ بننے کا خواب بکھر گیا۔ انہیں توقع بھی نہیں ہوگی کہ سلمان نعیم جیسا نوجوان امیدوار انہیں پچھاڑ دے گا۔ قریشی صاحب کو اگر اندازہ ہوجاتا تو وہ آسانی سے سلمان نعیم کو مینج کر لیتے بلکہ شائد محمد حسین ڈہیڑ سے بھی معاملات اتنے نہ بگاڑتے۔ اصولی طور پر تو انہیں کسی محفوظ صوبائی اسمبلی کی نشست سے بھی لڑنا چاہیے تھا تاکہ ایم پی اے تو لازمی بن جاتے۔ عمران خان انہیں وزیراعلیٰ بنانے کے لئے آسانی سے تیار نہ ہوتے لیکن شاہ محمود کے ایم پی اے بننے کی صورت میں خان پر دبائو ہوتا، ممکن ہے وہ مجبور ہوجاتے۔ معلوم نہیں شاہ محمود قریشی نے اپنے بیٹے کو ایم این اے بنانے کی ایسی عجلت کیوں دکھائی؟ بیٹے کو اپنی چھوڑی سیٹ پر بھی ایم این اے بنوایا جا سکتا تھا، وزیراعلیٰ بننے کا تاریخی موقعہ تھا، جو ضائع ہوگیا۔ ایسی غلطی 2002ء میں میاں اظہر نے کی۔ انہیں سمجھدار دوستوں نے مشورہ دیا کہ کسی محفوظ حلقے سے بھی الیکشن لڑیں، انہوں نے نہ سنی۔ لاہور اور شرقپورسے لڑے، دونوں حلقے ہار گئے اور ساتھ ہی وزیراعظم بننے کا چانس بھی۔
دو دن پہلے ہونے والے ضمنی انتخابات کے بیشتر نتائج اسی دھڑے کی سیاست کی مرہون منت ہیں۔ اس تناظر میں دیکھیں تو ہار جیت سب واضح طور پر سمجھ آ جائے گی۔ بیانیہ کی شکست یا فتح کہنے کی باتیں ہیں، اصل فیکٹر مقامی سیاست، دھڑے بازی یا مقامی سطح کے اختلافات تھے۔