ذائقے جونایاب ہوگئے
یہ ویک اینڈ لاہور سے باہر شیخو پورہ، فیصل آباد روڈ پرواقع قصبہ بھکی کے قریب اپنے بڑے بھائی صاحب کے گھر گزرا۔ بھائی گائوں یا قصبے میں نہیں رہتے بلکہ اس روڈ پر موجود درجنوں فیکٹریوں میں سے ایک میں ایڈمن مینجر ہیں۔ ملوں میں رہنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ خاصا بڑا، وسیع وعریض گھررہائش کے لئے مل جاتا ہے، کشادہ لان اور پھل دار درخت کی سہولت بونس میں سمجھ لیں۔ بھائی صاحب کی طرف سے پیغام ملا کہ ہماری بلیوں اور بکریوں نے بچے دے رکھے ہیں، بچوں کو لے کر آئو، وہ دیکھ کر خوش ہوں گے۔ ادھر ہم نے سوچا کہ سیاست کے جھمیلوں سے دور، سوشل میڈیا کے جھنجھٹ سے آزاد دو دن گزارے جائیں جہاں اخبار ہو نہ نیوز چینلز کی بک بک، فیس بک ہو نہ واٹس ایپ کے دھڑا دھڑ آتے پیغامات۔
سو اگلے دو دن ہم نے سکون سے سرسبز لان کے عین وسط میں چارپائی ڈال کر مزے سے دھوپ سینکتے اور گھر کی میٹھی، خوشبودارموسمیاں اور دیگر انواع واقسام کے گھریلو کھانے کھاتے گزارے۔ ایک طرف لوہے کے موٹے پائپو ں سے بنا بڑا جھولہ بھی لگا تھا، اس پربنچ نما کشادہ سیٹ فٹ تھی۔ ایک بار جب سب گھر والے اندر کمروں میں تھے، ڈرتے ڈرتے ہم نے اس جھولے پر بھی بیٹھنے کی کوشش کی۔ خدشہ تھاکہ بے پناہ وزن (قارئین براہ کرم اسے علم وفضل کا بوجھ تصور فرمائیں) سے کہیں یہ بدبخت زمیں بوس ہی نہ ہوجائے۔ خیرہی گزری۔ یوں چند لمحے ہمیں بھی ایک طویل عرصے کے بعد اس تجربے سے لطف اٹھانے کا موقعہ ملا۔
مزے دار معاملہ اگلی صبح ہوا، جب لان میں اگائے گھر کے یعنی آرگینک ساگ اور مکھن کے ساتھ باجرے کی روٹی کھانے کا موقعہ ملا۔ سرائیکی میں ہم اسے ڈھوڈا کہتے ہیں۔ ویسے تو خوشاب، سرگودھا میں ایک بڑی لذیذ مٹھائی بھی ڈھوڈے کے نام سے ملتی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ والدہ صاحبہ سردیوں میں خاص طور سے یہ اہتمام کیا کرتی تھیں۔ والد صاحب وکیل تھے، ان کے بعض کلائنٹس دیہات سے تعلق رکھتے تھے تو وہ خاص طور سے سردیوں میں آتے تو ساگ کا دیگچہ بھی لے آتے۔ سرسوں کا تازہ ساگ جس پر کئی گھنٹے لگاکر اسے اچھی طرح گھوٹا گیا ہو، پھر اسے تازہ تڑکے کے بعدکھانے کا لطف ہی اور ہے۔ ہمارے گھر میں ساگ ہمیشہ دہی کے ساتھ کھایا جاتا۔ والدہ بعض سبزیاں خاص طور سے دھوپ میں سکھایا کرتیں تاکہ آف سیزن میں انہیں استعمال کیا جا سکے۔ ان میں ساگ سرفہرست تھا۔ یہ خشک ساگ عام طور سے چنے کی دال ڈال کر بنایا جاتا اور اخیر قسم کی لذت اس میں پوشیدہ ہوتی۔
ہم خاکوانی پٹھان گوشت خور ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ والد صاحب کو گوشت مرغوب تھا۔ سری پائے، اوجھڑی، بھنا گوشت فرمائش کر کے پکواتے۔ اوجھڑی کے بارے میں ہمارے ایک بزرگ کا فلسفہ تھا کہ شیر شکار کرنے کے بعد سب سے پہلے یہی کھاتا ہے۔ شیر بننے کے چکر میں ہم بھی ذوق شوق سے اوجھڑی کا سالن کھاتے۔ چھوٹی بکرے کی اوجھڑی یا اوجری کا اپنا ذائقہ ہوتا، مگر ماہرین فن ہمیشہ گائے کی اوجری تجویز کرتے۔ ہمارے ہاں قربانی کا گوشت سکھانے کا بھی اچھا خاصا رواج تھا۔ قربانی کا کچھ گوشت مرچ مسالہ لگا کردھوپ میں سکھایا جاتا۔ بڑی سوئی کی مدد سے انہیں لمبا لمبا رسی کے مانند سی لیا جاتا۔ انہیں تلاریں کہا جاتا۔ یہ خشک گوشت سنبھال کر رکھ لیا جاتا اوربعد میں مختلف مواقع پر اسے پیس کر بھون کر پکایا جاتا۔ دس محرم کی صبح اس کے ساتھ ناشتہ کرنے کی خاص روایت تھی۔ اس کے پیش نظر شائد یہ روایت تھی کہ اس روز اہل بیت کے پاس سوائے تھوڑے خشک گوشت کے کچھ نہیں بچا تھا اور اسی سے گزارا کرنا پڑا۔ اظہار یکجہتی کے لئے شائد ایسا کیا جاتا۔ ویسے شادی کے بعد اپنے سسرال والوں کے ایک بالکل ہی مختلف رواج کا علم ہوا۔ وہ لوگ دس محرم کوسادہ ساگ بناتے، اس روایت کا حوالہ دیتے کہ اس روز کربلا میں ساگ پات کے سوا کچھ نہیں تھا تو وہ بنایا گیا۔ واللہ اعلم باالصواب۔ ہم بچے ان لمبی لمبی بوٹیوں کو چمٹے کے ساتھ چولہے کی آگ میں بھون کر بھی کھاتے، جلا جلا، نمکین گوشت اتنا لذیذ ہوتا کہ لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔ والدہ محترمہ بھی ترین پٹھان تھیں، مگر طبعا ً انہیں گوشت سے زیادہ سبزیاں پسند تھیں۔ وہ اسی لئے ساگ، شلجم اور نجانے کیا کیا سُکھاتی رہتیں اور پھر اپنے لئے فرائی پان میں بھون کر یا ویسے ہی کچھ سالن ٹائپ بنا لیتیں، ہم احتراماً طنز تو نہ کرتے، مگر کبھی بھول کر بھی ان سبزیوں کو نگاہ کرم سے نہیں دیکھا تھا۔ امی جی والد صاحب کی پسند کے احترام میں پائے پکاتیں، مگر خود برائے نام چکھتیں۔ پائے کا بڑادیگچہ بنتا جس میں ڈیڑھ دو کلو مشک کی بوٹیاں پڑتیں، جنہیں لال بوٹی یا لاہوری اصطلا ح میں بونگ کا گوشت کہا جاتا ہے۔ پائے کے سالن کے ڈونگے قریبی عزیزوں کے گھر بھی بھیجے جاتے اور عام طور سے اس دن دو چار مہمان مدعو کر لئے جاتے۔ گرما گرم روٹیوں کے ساتھ پائے کا گاڑھا شوربہ جو انگلیوں کو لگے تو وہ آپس میں چپکنے لگ جائیں۔ احمد پورشرقیہ کے اکثر سرائیکی گھرانوں میں سِری کا سالن بنانے کا رواج بھی تھا۔ ہر جگہ پائے نہیں بنتے تھے، بہت بار صرف سری پکتی اور وہ بھی کمال ہوتی، مغز کاکبھی الگ سالن بنایا جاتا، کبھی ساتھ شامل کر دیتے۔ ہمارے پرانے محلے کٹڑہ احمد خان میں بشیر پائے والے کی دکان مشہور تھی۔ وہ اب فوت ہوچکے ہیں۔ کمال کی لذت ہاتھ میں تھی۔ بچپن میں ان کی دکان سے یخ بستہ سرد صبح کو جا کر سالن لے آتا تھا۔ اللہ بخشے استاد بشیر ہمارے والد صاحب کے احترام میں پائے کی خاص بوٹیاں ڈال دیتا کہ میری طرف سے وڈے خان صاحب کے لئے سوغات سمجھیں۔ اس زمانے میں ہم لوگ پائے کے سالن ہی کو نہاری سمجھ کر کھاتے تھے۔ برسو ں بعد لاہور آکر رہنا پڑا تو پھر پتہ چلا کہ نہاری کیا ہوتی ہے۔ پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاہورمیں بہترین نہاری کے سپاٹ ڈھونڈے اور جی بھر کر مزے لوٹے۔ آپ کو بھی اگر کبھی مزنگ کی مشہور محمد ی نہاری سے فرائی نہاری جس کے اوپر ادرک اور سبز دھنیا وغیرہ چھڑکا ہو، ساتھ نلی اور مغز کی فرائی پلیٹ اورپھر تنور سے تازہ نکلی ہوئی کڑک خمیری روٹیاں کھانے کو ملیں تو زندگی بھر اسے یاد کریں گے۔ اگر یہ سعادت نصیب ہو تو وہاں سے شیرمال یا تافتان بھی ضرور لیجئے گا۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ شیر مال کے قصیدے پرانی قصہ کہانیوں میں کیوں ملتے ہیں؟ہم نے تو ویسے اس نہاری کے بعد اس کا دَف مارنے کے لئے یعنی کائونٹر کرنے کے لئے گجریلا یا گاجر کا حلوہ کھانے کا رواج بھی ڈالا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اس کا سراغ ملا کہ نہاری کے بعد گجریلا کھانا اس کی گرمی کو بیلنس کرتا ہے۔ پتہ نہیں کرتا یا نہیں، مگر یہ ضرور پتہ ہے کہ اس کے بعد گھر جانے کے لئے ٹیکسی ہی کرانی پڑتی ہے۔
لیں جی بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کھانوں کا ذکر ہو تو قلم ایسے ہی بہک جاتا ہے بلکہ نہاری، پائے، ہریسہ کے نام ہی سے مخمور ہو کر لڑکھڑانے لگتا ہے۔ ہر ایک کو اپنی ماں کے کھانے اچھے لگتے ہیں۔ دراصل ہم انہی کھانوں سے ہی بڑے ہوئے ہوتے ہیں، ہماری زندگیوں میں وہ ذائقہ یوں رچ بس جاتا ہے کہ بعد میں زندگی بھر اعلیٰ ترین ہوٹلوں کے کھانے بھی وہ یاد تازہ نہیں کر پاتے۔ ماں کے ہاتھ کی خوشبو، محبت کی چاشنی بھی توایک الگ سے ایک عنصر ہے۔ شیف ذاکر ہو یا کوئی اور ماہر فن، وہ یہ عنصر تو شامل نہیں کر سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہماری امی سردیوں میں خاص طور سے کئی اہتمام کرتیں۔ بھنے تل کے لڈو بنائے جاتے۔ سرسوں کے تیل میں فرائی کی گئی مچھلی۔ کبھی وقت مل جاتا تو گھر میں ہنٹر بیف بناتیں۔ ہنٹر بیف تو آج کل بیکریوں پر بھی میسر نہیں۔ دھڑیوں کے حساب سے گاجریں منگوائی جاتیں اور پھر گجریلابنتا، جسے رات کو دیر تک چمچہ ہلا ہلا کر گاڑھا کیا جاتا۔ صبح صبح اٹھا کر پیالہ پکڑایا جاتا، اسے کھانے کے بعد ابلا ہوا انڈا کھانا لازمی سمجھا جاتا تھا کہ ماں کے خیال میں گاجر کی ٹھنڈک کو بیلنس کرنے کے لئے دیسی انڈا لازمی ہے۔
ابھی گاجروں کا موسم تو نہیں آیا، بھائی صاحب کے گھر البتہ ماں کے محبت بھرے کھانوں، ذائقوں کی خوشبو محسوس ہوئی۔ ہماری بھابھی صاحبہ نے امی جی کے ساتھ خاصا عرصہ گزارا۔ ایک دن انہوں نے دہی ڈال کر بینگن کا سالن بنایا جسے ہمارے گھر میں بُریانی کہا جاتا ہے۔ اسے چاولوں والی بریانی سے مکس نہ کیا جائے۔ یہ ترک سٹائل کی ڈش ہے، چند سال قبل استنبول کی ایک دعوت میں اس سے ملتی جلتی ڈش کھائی تھی۔ معلوم نہیں ہمارے گھر میں رواج کہاں سے آیا، ویسے احمد پور کے دیگرسرائیکی پٹھان گھرانوں میں یہ ڈش مستعمل نہیں۔ بھابھی نے بتایا کہ میرے میکے میں بھی رواج نہیں تھا، شادی کے بعد امی سے یہ بنانا سیکھا۔ اپنی زندگی کے آخری سات آٹھ برسوں میں امی جی ڈیمنشیا کے مرض کے باعث سب کچھ بھول بھال گئی تھیں، کھانا پکانا تو اس سے بھی پہلے چھوڑ دیا تھا۔ طویل عرصے بعد وہی مانوس خوشبو، ذائقہ ملا۔ آنکھیں نم ہوگئیں، مشکل سے ضبط کیا کہ سب گھر والے اداس ہوجاتے۔ مائیں چلی جاتی ہیں، ان کی خوشبوئیں، ان کے ذائقے آخری سانس تک ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ جب تک ہم زندہ ہیں، اس لذت کے تصور سے باہر نہیں آ سکتے۔