Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Wo Bazi Jo Haar Di Gayi

Wo Bazi Jo Haar Di Gayi

وہ بازی جو ہار دی گئی

آٹھ مارچ کا دن گزر گیا، خواتین مارچ کا قضیہ بھی ایک طرح سے نمٹ گیا۔ اب اگلے سال مارچ کے ابتدائی دنوں میں پھر سے غلغلہ اٹھے گا، خواتین مارچ کے حامی اور مخالف اپنی تلواریں سونت کر میدان میں اتر آئیں گے، میڈیا اور سوشل میڈیا کا سب سے بڑا موضوع یہی ہوگا۔ کیا تب تک حالات پرسکون رہیں گے؟ جس نے جو کچھ کرنا تھا کر لیا، اب وہ آرام سے بیٹھ جائے؟

اصولی طور پر تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین مارچ بذات خود کوئی ایونٹ نہیں، بنیادی طور پر یہ خواتین کے مسائل کو نمایاں کرنے کے لئے کی جانے والی ایک سرگرمی تھی، جس کے دوررس اثرات نکلنے چاہئیں۔ اس کامقصد خواتین کی مشکلات کو ہائی لائٹ کر کے ان کا حل نکالنا تھا۔ سال کے بہت سے دنوں کو کسی نہ کسی مسئلے کے حوالے سے عالمی دن کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس دن مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں، جن میں آگہی واک، مارچ، جلسے، سمینار وغیرہ شامل ہیں۔ دو تین مقاصد ہوتے ہیں۔ لوگوں میں آگہی یا شعور پیدا کرنا اہم ہدف ہے۔ بہت بار عوام کو معاملے کی نزاکت، حساسیت یا خطرے کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں۔ جیسے آج کل دنیا بھر میں بریسٹ کینسر کے حوالے سے پنک ڈے منایا جارہا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے حوالے سے یا تھیلیسمیاجیسی بیماری کے حوالے سے بھی آگہی پھیلانے کے لئے مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ آگہی کے بعد ان مسائل میں کمی کی کوشش کی جاتی ہے۔ قوانین میں تبدیلی کرنا ضروری ہوتو آواز اٹھائی جاتی ہے۔ سماجی بیداری، تعلیمی اداروں میں تربیت اور دیگر پہلوئوں، میڈیا پر پبلک سروس میسج وغیرہ چلانے کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ جیسے ہیپاٹائٹس سی کی ویکسین اب دستیاب ہوگئی ہے تو مسلسل کوششوں کے بعد سرکاری طور پراسے بچوں کی لازمی ویکسین میں شامل کر دیا گیا ہے، یوں اب بچوں میں اس بیماری کا شرح تناسب بہت کم ہوچکا ہے۔

خواتین کا عالمی دن اس اعتبار سے زیادہ اہم، وسیع اور ہم گیر نوعیت کے چیلنجز سے معمور ہے۔ ملک میں خواتین کی تعداد کسی بھی بیماری کے مریضوں سے بہت زیادہ ہے۔ کم سے کم بھی یہ طبقہ کئی کروڑ پر مشتمل ہے۔ اس لئے عالمی یوم خواتین کا سکوپ بہت بڑھ جاتا ہے۔ معاشرے میں ایک طرف خواتین کی تعداد ماشااللہ سے زیادہ ہے، دوسری طرف یہ طبقہ خاصے مسائل کا شکار بھی ہے۔ یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر انسانی معاشرہ، خاص کر ہمارے جیسے ملکوں کا سماج مردوں کا ہے۔ مرد حضرات کو خواتین پر ایک درجہ برتری یا ایڈوانٹیج حاصل ہے۔ طبقاتی طور پر تو غریب مرد بھی استحصال کا شکار ہے، مگر غریب عورت اس معاملے میں بھی زیادہ کمزور اورvulnerable ہے۔ ایک مرد مزدور کا سرمایہ دار، ٹھیکے داروغیرہ کے ہاتھوں استحصال ہوتا ہے۔ مزدوری کم ملے، زیادہ محنت کرائی جائے، چھٹی کرنے پر تنخواہ کاٹ لی جائے، عزت نفس نشانہ بنے، زبانی لعن طعن کا سامنا کرنا پڑے، بیماری میں علاج نہ کرایا جائے وغیرہ وغیرہ۔ اگر اس کی جگہ خاتون مزدورہو تو استحصال کی یہ تمام صورتیں اپنی جگہ ہوں گی، مگر اس کے ساتھ اسے اپنی عزت بچانے کی فکر بھی لاحق ہوگی۔ اکثر صورتوں میں اس کا جسمانی استحصال بھی ہوجاتا ہے۔ ملازمت کرنے والے مردوں میں شائد ہی کسی کو جسمانی یا جنسی استحصال، ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑے۔ پانچ دس لاکھ میں ایک آدھ نوجوان ہی ایسا ہوگا۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد کسی نہ کسی اندازمیں استحصال، ہراسمنٹ یا کم سے کم درجے میں اس خطرے سے پریشان ضروررہتی ہے۔ وہ اپنے کولیگ کے ساتھ ہنس بول بھی نہیں سکتی کہ فوری سکینڈل بن جائے گا۔ گھر سے نکل کر دفتر تک پہنچنے میں خواتین کوہر روز اسے آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بعض معاملات میں غریب یا کمزور مرد ظلم کا نشانہ بنتا ہے، مگر وہاں پر اس کی بیوی، بہن، بیٹی کو بھی ساتھ لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے۔ گائوں، دیہات میں ظالم جاگیردار، چودھری کے سامنے کسی مرد نے سرکشی دکھانے کی کوشش کی، تو اس کے ساتھ گھر کی خواتین کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ مسائل کی ایک نوعیت روزمرہ کی زندگی بھی ہے۔ کم وبیش ہر خاتون زندگی کے ایک مرحلے پر ماں بنتی ہے۔ ایسے میں صحت کی ناکافی سہولت، طبی عملے کا نان پروفیشنل ازم، عطائیوں کی جعل سازیوں اور پھر غربت یا سفید پوشی کے باعث مناسب غذا کا نہ ملنا مسائل میں اضافہ کر دیتا ہے۔ مردبھی بیمارپڑتے ہیں، یہ مسائل انہیں بھی سامنا کرنے پڑتے ہیں، مگر تناسب بہت کم ہے۔ ایک جوان آدمی کو، چالیس پنتالیس یا پچاس سال کی عمر تک شائد ہی کبھی ہسپتال میں داخل ہونے کی نوبت آئے، اس کا آپریشن کرنا پڑے۔ یہ تناسب ایک دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔ خواتین میں یہ تناسب سو فیصد کے قریب ہے۔ بچے کی پیدائش کے لئے اکثر خواتین پچاس سال سے پہلے دوتین یا کئی بار ہسپتال ایڈمٹ رہتی ہیں، آپریشن سے بچہ ہونے کی صورت میں دو یا تین بار سرجری کی تکلیف اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل بھگتنے پڑتے ہیں۔

ہمارے خطے کے سماج میں خواتین کی ایک اور بڑی مشکل اپنا گھر چھوڑ کر سسرال میں شفٹ ہونا ہے۔ مغرب میں اکثریت سنگل فیملی سسٹم پر جا چکی ہے، ہم آج بھی روایتاً، عادتاً، مصلحتاً یا ضرورتاً جوائنٹ فیملی سسٹم کا شکار ہیں۔ کالج، یونیورسٹی سے فارغ التحصیل لڑکی کو جس کا عملی زندگی کا کوئی ایکسپوژر نہیں، اسے اپنا گھر چھوڑ کراچانک ہی کئی اجنبی لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ اب تک وہ پڑھائی میں جتی رہی، ماں سے باقاعدہ قسم کی تربیت نہ پا سکی، بیشتر بچیوں نے کھانا پکانا بھی نہیں سیکھا ہوتا۔ اچانک ہی بغیر کسی تربیت، تجربے کے زندگی کے اتنے بڑے چیلنج سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ ہم اپنے تعلیمی نظام میں، عملی زندگی میں کہیں پر، کسی بھی انداز کی تربیت کا انتظام نہیں کر سکے۔ دنیا جہاں کے موضوعات پر ورکشاپ ہوتی ہیں۔ ایک لڑکی نے شادی کے بعد گھر کیسے سنبھالنا ہے، سسرال کے ساتھ ڈیل کس طرح کرنا ہے، ? ایسے سوالات پر ایک یا دو تین روز کی ورکشاپ نہیں کرائی جاتی۔ چند گھنٹے کے لیکچرز، ٹپس، رہنمائی بھی کچھ نہ کچھ زندگی آسان کر سکتی ہے۔ ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا۔ دور دور تک کوئی امکان بھی نہیں۔

مسائل بہت زیادہ ہیں، ان کی کئی جہتیں، پرتیں ہیں۔ کہیں مردوں کا قصور ہے، بعض جگہوں پر ہمارا سماج ذمہ دار ہے، کسی جگہ پر ریاست کی کمزوری ہے۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جو عورتوں نے بھی نہیں سیکھیں۔ ان کی بعض فطری کمزوریاں بھی رنگ لاتی ہیں۔ وراثت میں حق نہ ملنا تو ریاست کی بھی خامی ہے۔ قوانین میں سقم دور ہونے چاہئیں اور مکانات خاص کر زرعی جائیداد کے انتقال آٹومیٹک انداز میں نادار کی معاونت سے ہوجانے چاہئیں۔ ایسے بدبخت مردجو اپنی بہنوں، بیٹیوں کو جائیداد میں سے حصہ نہیں دینا چاہتے، ان کی سرکوبی ہو اور قانون ان کے گھر کی خواتین کو حق دلوائے۔ خواتین ڈے کے حوالے سے ان تمام معاملات پر بات ہونی چاہیے۔ آگہی بڑھنی چاہیے۔ قوانین کے سقم موضوع بحث بنیں۔ نئی قانون سازی ہو۔ ریلیف کے لئے نئے ادارے بنیں، ان تک رسائی آسان ہو۔ صحت، تعلیم کی سہولتیں بہتر ہوں۔ ملازم پیشہ خواتین کی مشکلات میں کمی ہو۔ گھریلو تشدد کے خلاف سخت سزائیں دی جائیں، فیملی کیسز کے فیصلے جلد ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک طویل سفر ہے، بھرپور جدوجہد کے بعد ہی مسائل میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

دو دن پہلے خواتین ڈے پر ان سب حوالوں سے کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ نہایت مایوس کن، افسوسناک بلکہ مجھے کہنے دیں کہ شرمناک غفلت برتی گئی۔ خواتین کے جینوئن ایشوز کے بجائے چند ایک نمائشی قسم کے نعروں نے توجہ حاصل کی۔ ایسے فضول نعرے عام ہوئے جن کے باعث سماج میں مجموعی طور پر خواتین مارچ، خواتین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں، این جی اوز کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ جی ہاں، نفرت، شدید عوامی نفرت پیدا ہوئی۔ اگر کوئی نہیں جانتا تو پچھلے دو دنوں کی سوشل میڈیاپوسٹیں دیکھ لے۔ سوشل میڈیا عام سماج کا عکس ہے۔ لوگوں کی بہت بڑی اکثریت، نوے پچانوے فیصد کے قریب لوگوں نے خواتین مارچ، ان کے نعرے، ان کے علمبرداروں کو بے رحمی اور حقارت سے مسترد کر دیا۔ خود خواتین کی بڑی تعداد نے اس مارچ اور ان کے نمایاں لوگوں کے خلاف کھل کر لکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اب عالمی یوم خواتین بذات خود نہایت متنازع، بے وقعت اور بے توقیر ہوگیا ہے۔ میڈیا پر بحثوں، لڑائی جھگڑوں کے باعث ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ یہ دن ہائی پروفائل ہوگیا تھا۔ اگر سرگرم خواتین، انہیں لیڈ کرنے والی تنظیمیں عقل مندی سے کام لیتیں تو بہت کچھ حاصل کر سکتی تھیں۔ جینوئن مسائل پر وہ سماج میں اتفاق رائے پیدا کر سکتی تھیں، رائٹ، لیفٹ، لبرل، سیکولر سب کیمپوں کوعورتوں کے مسائل پر یک زبان کر سکتی تھیں۔ اس میں کیا دقت تھی؟ ہر گھر میں خواتین ہیں، ہر معقول شخص ان کے مسائل کو سمجھتا، ہمدردی رکھتا ہے، صرف لائحہ عمل بنا کر زبان خلق کو منظم بنانے کی ضرورت تھی۔ افسوس کہ ماروی سرمد اور ان جیسی دیگر خواتین نے ویمن ڈے کو اپنے لبرل، الٹرالبرل، سیکولر ایجنڈے کی نذر کر دیا۔ اسے بدنامی کہیں، منفی شہرت یا میڈیا پر جگہ، ماروی سرمد نے وہ تو حاصل کر لی، مگر خواتین کاذ کو شدید نقصان پہنچایا۔ افسوس کہ خواتین کے مسائل کے لئے جو کچھ ہو سکتا تھا، وہ ویمن ڈے پرگنوا دیا گیا۔ بازی ہار دی گئی اور ہارنے والے خواتین کے بظاہر ہمدرد ہی ہیں۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir