وفاقی شرعی عدالت کا تاریخی فیصلہ
وفاقی شرعی عدالت نے چند دن پہلے ایک بڑا تاریخی اور بہت اہم فیصلہ دیا ہے جس سے پاکستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی اور ایل جی بی ٹی کیو (LGBTQ)حلقوں میں شدید تلملاہٹ اور بلبلاہٹ کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے۔ درحقیقت شرعی عدالت کے فاضل ججوں نے وہ بڑا کام کیا ہے جس کی آج شدید ضرورت تھی۔
چند سطروں میں اس فیصلے کا مختصر نچوڑ بیان کرکے آگے بڑھتے ہیں: فیصلے کے مطابق خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے اور جنس کی تبدیلی انسانی محسوسات کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی۔ وراثت میں حصہ جنس کی بنیاد پر مل سکتا ہے اور جنس کا تعلق بائیولوجیکل سیکس سے ہے (یعنی پیدائش بطور میل ہوئی یا فی میل)۔ شریعت کسی کو نامرد ہو کر جنس تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ فیصلے میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے سیکشن 2این، سیکشن 2 ایف، سیکشن تھری اور سیکشن سیون کو خلاف شریعت قرار دیا۔
تاہم فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام میں خواجہ سرائوں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں اور خواجہ سرا آئین میں موجود تمام حقوق پانے کے مستحق ہیں۔ حکومت اس کی پابند ہے کہ خواجہ سرائوں کو طبی، تعلیمی اور معاشی سہولتوں کے ساتھ تمام حقوق فراہم کرے۔ یہ تاریخی فیصلہ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں جسٹس سید محمد انور اورجسٹس خادم حسین نے سنایا ہے۔ یاد رہے کہ وفاقی شرعی عدالت آئین کے تحت وہ مجاز فورم ہے جو شریعت کے منافی کسی بھی قانون پر اپنی رائے دیتا ہے، تاہم اس پر سپریم کورٹ میں اپیل ہوسکتی ہے۔
فیصلے پر ہنگامہ کیوں؟ شرعی عدالت کے فیصلے میں ایک بہت ہی اہم اور بنیادی نوعیت کا کام ہوا ہے، جس سے ٹرانس جینڈر کمیونٹی، ایل جی بی ٹی کیو(لیزبین، گے، بائیوسیکشوئل، ٹرانس جینڈر، کوئیر) لابی کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ وہ ہے جینڈر بیسڈ آئیڈنٹٹی اور" سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی "کے تصور کو پاش پاش کر دیا گیا ہے۔ اس میں واضح کر دیا گیا کہ صرف اپنی خواہشات، جنسی میلان اور نفسیاتی مسائل کی بنا پر کسی مرد کو عورت نہیں بنایا جا سکتا اور نہ عورت کو مرد۔ یہ وہ چیز ہے جو ایک پورے حلقے پر بجلی بن کر گری ہے۔
اس فیصلے کے مطابق یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی مرد کسی مخصوص وجہ کی بنا پر اچانک کہے کہ میرے اندر تو عورت کی روح ہے، مجھے عورت ہونا چاہیے، اس لئے مجھے عورت مانا چاہیے۔ اسے ہی" سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی" کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ سے پاس ہونے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہ تصور بھی ڈالا گیا تھا اور خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر کے تصور کو دانستہ طور پر مکس کر دیا گیا۔
جنس اور صنف کا فرق: اس سے پہلے ہمیشہ سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جنس (Sex)کی بنیادپر شناخت ہوگی، کوئی مرد کا جسم رکھتا ہے تو وہ مرد اور کوئی عورت کا جسم رکھتا ہے تو وہ عورت کہلائے گا۔ یہ فطری اور سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ البتہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مطابق جنس کی بنیاد نہیں بلکہ صنف(Gender)کی بنیاد پریہ طے ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں ایک ڈاڑھی مونچھوں والامرد(جو جسمانی طور پر مکمل مرد ہو)، اگروہ کہے کہ میں تو عورت ہوں تو اسے عورت ہی مانا جائے کیونکہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مطابق اپنے جینڈر کا تعین خود اسی کی سوچ کے مطابق ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اچانک یہ دعوی کرے کہ وہ ذہنی اور جنسی میلان کے طور پر مرد ہے تو اس کا جینڈر اسی حساب سے مانا جائے۔
اس سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے تھے۔ جیسے پاکستان میں ہر جگہ خواتین کے لئے الگ باتھ روم ہوتے ہیں، اب کسی لیڈیز ٹوائلٹ میں مرد خاتون کا حلیہ بنا کر گھس جائے کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ تو دراصل عورت ہے اور غلطی سے مرد کے جسم میں پیدا ہوگیا۔ شرعی عدالت نے یہ سب پاکھنڈ اڑا دیا ہے اور کہا ہے کہ جو جسمانی طو رپر مرد ہے، وہ مرد اور جو جسمانی طور پر عورت ہے وہ عورت۔ عدالتی فیصلے کی رو سے ٹرانس جینڈر ایکٹ میں اب بعض ترامیم کرنا پڑیں گی۔
کیا فیصلے سے خواجہ سرا متاثر ہوں گے؟ پہلے یہ سمجھ لیں کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر میں کیا فرق ہے؟ خواجہ سرا وہ لوگ ہیں جن میں کسی پیدائشی مسئلے یاعارضے یا کسی حادثے وغیرہ کی وجہ سے ان کے تولیدی اعضا مکمل نہ ہوں۔ کوئی بچہ مردانہ جسم اور حلیہ رکھتا ہے مگر طبی مسئلے کی وجہ سے وہ لڑکا نہیں، اس کا جسم عورت کا بھی نہیں۔ یہی بات بچی کے لئے ہے۔ ایسے تمام ادھورے یا نامکمل تولیدی اعضا رکھنے والے بچے خواجہ سرا، خنثیٰ یا انٹرسیکس (Intersex) کہلاتے ہیں، ہمارے ہاں عام طور سے انہیں کھسرا یا زنانہ، چھکا وغیرہ کہا جاتا ہے۔ خواجہ سرا البتہ زیادہ بہتر اور شائستہ لفظ ہے اور یہ لوگ اس اصطلاح کو پسند بھی کرتے ہیں۔
تاریخی طور پر خواجہ سرا کا وجود سینکڑوں، ہزاروں سال پرانا ہے۔ ہندوستان میں بھی قدیم اور مغلیہ دور اور بعد میں بھی بادشاہ، نوابین وغیرہ سزا کے طور پر یا مصلحتاً کسی مرد کو آپریشن کے ذریعے اس کے مردانہ تولیدی اعضا یا خصوصیات سے محروم کر دیتے تھے۔ ان سے پھر حرم وغیرہ کی حفاظت کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ مظلوم کمیونٹی تھی، کیونکہ ان کے ساتھ جبر ہوا۔ یہ سب خواجہ سرا ہیں۔
ٹرانس جینڈر البتہ مغربی تصور ہے۔ اس میں خواجہ سرا کو بھی شامل کیا جاتا ہے یعنی بائیولوجیکل سطح پر مخنث یا انٹرسیکس کو، البتہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو مرد ہوتے ہوئے بھی عورت بن کر رہنا چاہتے ہیں یا عورت ہوتے ہوئے مرد بن کر جینے کے خواہش مند۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے کرنے دیں۔ دو باتوں کی وجہ سے ہمارے ہاں اس کی مخالفت ہے۔
ایک تو یہ کہ صرف چاہنے یا خواہش کی وجہ سے ہم من مانی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اس طرح تو پھر ہم جنس شادیوں کی بھی اجازت دینا پڑے گی، دو لڑکیوں کی آپس میں شادی یا دو لڑکوں کا آپس میں میاں بیوی کے طور پر رہنا۔ اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ کے احکامات اس کے قطعی طور پر مخالف ہیں۔ قوم لوط کا قصہ قرآن میں بیان کیا گیا۔ آج کے حساب سے وہ گے کمیونٹی کے لوگ ہی تھے۔ پھر اگلے مرحلے پر فری سیکس یا دو شادی شدہ لوگوں کی رضامندی سے جنسی تعلق کی بھی اجازت دینا پڑے گی۔ وہاں بھی خواہش اور پسند کا معاملہ ہی ہے۔
دوسرا یہ کہ اس ٹرانس جینڈر اور ایل جی بی ٹی کیو کے تصور نے حرام اور غلط چیز کا تصور ہی اڑا دیا ہے۔ ، جب اس کی قبولیت اور پزیرائی ہوگی تو پھر کوئی اپنے منفی جنسی رجحانات پر قابو پانے کی کوشش بھی نہیں کرے گا۔ ایسا ممکن ہے کہ کسی کے ذہن میں ایسا خیال پیدا ہو، مگر اپنی نفسیاتی تھراپی یا ہارمون تھراپی کرکے وہ اس پر قابو پانے یا ٹھیک کرانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ دراصل یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جسے جینڈر ڈسفوریا (Gender dysphoria) کہتے ہیں، اس کا علاج ہوسکتا ہے۔
شرعی عدالت کے فیصلے سے خواجہ سرا کمیونٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ ان کے حقوق کی تائید اور تاکید کی گئی ہے، اسی وجہ سے بیشتر خواجہ سرا رہنمائوں اورتنظیموں نے فیصلے کا خیرمقدم اور یوم تشکر منایا ہے۔ ٹرانس جینڈر حلقوں میں البتہ صف ماتم بچھی ہے، ڈاکٹر مہرب معیز اعوان اور دیگر نے اس پر بہت سخت بیانات اور پریس کانفرنس وغیرہ کی ہیں جس میں حسب روایت صرف لفاظی اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ اگلے کالم میں ان شااللہ اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔