تبدیلی کی ت
امریکہ کے بارے میں مشہور ہے کہ دنیا کے حوالے سے بیشتر اہم فیصلے وہاں ہوتے ہیں یا ان کے ہونے نہ ہونے میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ کچھ پر امریکہ کا بس نہیں بھی چلتا، حالات یا تاریخ کا جبرکئی جگہوں پر روک دیتا ہے۔ کیوبا کا فیڈل کاسترو امریکہ کے بغل میں بیٹھ کر پچاس سال سپرپاور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہا، امریکی صدور دانت پیسنے کے سواکچھ نہ کر پائے۔ کاسترو پر کئی قاتلانہ حملے کرائے گئے، تختہ الٹنے کی کوششیں ہوئیں، سب ناکام رہیں۔ ایک بڑی وجہ سوویت یونین کا کیوبا کے پیچھے کھڑا ہونا تھا، مگر کاسترو نے بھی اپنے مخالفین کے تمام منصوبے ناکام بنائے۔ اسی طرح اور بھی چند ایک معاملات ایسے ہیں جہاں امریکہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ ویت نام کی جنگ میں اسے شرمناک ہزیمت اٹھانا پڑی، افغانستان میں امریکی شکست کو تو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے وہ طالبان لیڈر جنہیں دہشت گرد کہا جا رہا تھا، انہی سے مذاکرات کرنے پڑرہے ہیں۔ اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ امریکہ آج دنیا کی واحد سپرپاور ہے اور بظاہر اس کی قوت کو خاصے عرصے تک بڑا چیلنج درپیش نہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ امریکہ کیوں اتنے عرصے سے سپرپاور چلا آ رہا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے دوسری بڑی قوتوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس وقت ہم اس نکتے کو نہیں چھیڑ رہے۔
امریکہ کی اتنی اہم عالمی حیثیت اپنی جگہ، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی عوام کا عمومی رویہ متضاد ہے۔ عام امریکی کی ترجیحات اور دلچسپیاں خالصتاً مقامی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ معیشت کے مقامی ایشوز، ٹیکسز، حکومتی رعایتیں، بنکوں کی پالیسیاں وغیرہ ان کا دردسر ہیں۔ ایک طویل عرصہ تک ڈیموکریٹ، ری پبلکن پارٹی کے مابین اسقاط حمل یعنی چوائس (ماں کا یہ حق کہ وہ اپنی مرضی سے خاص مدت تک اسقاط حمل کرا سکے)کا معاملہ بحث کا موضوع بنا رہا۔ امریکی انتخابات میں خارجہ ایشوز پر بھی بات ہوتی ہے، مگر فیصلہ کن عوامل مقامی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا متلون مزاج صدر، امریکہ کے اہم ترین اخبار اور چینلز جس کے شدید مخالف ہیں، ان کے خلاف بے پناہ مواد شائع اور نشر کیا گیا، اس کے باوجود صرف اس بنیاد پرٹرمپ کی عوامی مقبولیت اچھی خاصی ہے کہ اس نے امریکی معیشت کو بہتر کیا اورنوجوانوں کے لئے ملازمتیں میسر ہونے لگی ہیں۔ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ ہماری عالمی حیثیت کیا ہوسکتی ہے؟ آج کل تو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے ہمیں دائیں بائیں کشکول بڑھانا پڑتا ہے۔ صورتحال ایسی ہوچکی کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی بھی مرضی سے نہیں بنا سکتے۔ کسی سربراہ کانفرنس میں شمولیت سے پہلے بھی دوسری طرف سے باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے۔ انکار پر منہ لٹکائے گھر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ہمارے مقامی مسائل اس قدر گمبھیر اور سنگین نوعیت کے ہوچکے کہ اگلے کئی الیکشن انہی پر لڑے جانے چاہئیں۔ سیاستدان اور حکومتیں اپنی تمام تر توجہ صحت، تعلیم، صاف پانی، سستا تیز تر انصاف، روزگار، ماحولیات، امن وامان وغیرہ پر مرکوز رکھیں اورووٹر ان پر نظر رکھیں۔ اس کے برعکس پاکستانی عوام کی خارجہ امور میں دلچسپی غیر معمولی ہے۔ افغانستان تو چلو خطے کا ملک اور پاکستان کا اہم پڑوسی ہے، یار لوگ تو ونزویلا کے انتخابات اور وہاں حکومت کی تبدیلی کی خبریں بھی خشوع وخضوع سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ آئے یا نہ آ سکے، اس کے پاکستان پر اثرات پڑیں یا نہ پڑیں، ہمارے قارئین اور چینلز کے ناظرین کی بریگزٹ کی باریکیوں میں دلچسپی برطانوی عوام سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔ اسی طرح فرانس کے مشکل سے نام والے صدرمیخوں ہوں یا کینیڈا کے وجیہہ وزیراعظم ٹروڈو، ان سب کی سیاست، الیکشن میں پاکستانی حد درجہ دلچسپی لیتے ملیں گے۔ پچھلے سال لاہور کے کتاب میلہ میں جسٹن ٹروڈو کی آپ بیتی کا اردو ترجمہ نظر آیا، جسے دھڑادھڑخریدا جا رہا تھا۔ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں کہ یہ کتاب کیوں پڑھی گئی؟ ہمارے لوگ عالمی لیڈروں، اہم بین الاقوامی واقعات میں بے شک دلچسپی لیں، اخبارات اور چینلز بے شک ایسا مواد نشر کرتے رہیں۔ اسی سال نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات ہونے ہیں، اکثر میڈیا گروپ اپنی ٹیمیں دو تین ہفتے پہلے امریکہ بھجوا دیں گے۔ امریکی انتخابات کی ہمارے ہاں یوں کوریج ہوتی ہے جیسے ہم نے اس میں ووٹ کاسٹ کرنا ہو اور اگر کہیں ذرا کوتاہی ہوئی تو الیکشن ادھورے رہ جائیں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ ہمارے اپنے اہم ترین ایشوز بھی کہیں زیربحث آئیں گے یا ان کے لئے امریکی تھنک ٹینکس کو زحمت کرنا پڑے گی؟ ہمارے چینلز پرسیاسی ڈویلپمنٹ پر بات ہوتی ہے یا حکومت گرانے کی ممکنہ کوششیں زیربحث آ ئیں گی۔ ویسے میں میڈیا کو ذمہ دار ٹھیراتا ہوں، مگر ناظرین کو زیادہ، اس لئے کہ اگر سیاسی پروگراموں کو ریٹنگ ملے اور سنجیدہ پروگرام فلاپ ہوجائیں تو میڈیا ظاہر ہے ریٹنگ کو ترجیح دے گا۔
یہ فکر کسی کو نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم کس حد تک بگڑ چکا ہے، سرکاری سکول اتنے تباہ حال ہوئے کہ پندرہ بیس ہزار ماہانہ آمدنی والے لوگ بھی اپنے بچے سرکاری سکول میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ ہم نے بچوں کوبغیر سوچے سمجھے نمبر لینے کی مشین بنا دیا ہے۔ گیارہ سو میں سے ایک ہزار نوے پچانوے تک نمبر لئے جا رہے ہیں، مگر کیسے؟ کوئی سوال اٹھانے کو تیار نہیں۔ میٹرک کے سائنس مضامین میں پریکٹیکل لازمی ہیں، ان میں مکمل نمبر لئے بغیر کوئی ایک ہزار سے زیادہ نمبر نہیں لے سکتا۔ کسی نے پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ نوے پچانوے فیصد سکولوں میں لیبارٹریاں ہی نہیں یا اگر ہیں تب بھی وہاں بچوں کو پریکٹیکل نہیں کرائے جاتے۔ ایسے میں پھر یہ بچے پریکٹیکل کے لئے مختص تمام ترنمبر کیسے لے رہے ہیں؟ برسوں سے سب کچھ بوگس اور فیک چل رہا ہے۔ کسی کو فرق نہیں پڑتا کہ پریکٹیکل کئے بغیر بچوں کو سائنسی مضامین سمجھ کیسے آئیں گے؟ اگلی زندگی میں کسی نے سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی ہے تو ان کچے پکے تصورات کے ساتھ اس کا کیا بنے گا؟ دنیا میں سکولنگ کے حوالے سے نت نئے منفرد تجربے ہو رہے ہیں۔ فِن لینڈ سکول سسٹم پر دنیا جہاں میں بات ہو رہی ہے، اسے کسی نہ کسی شکل میں اپنے اپنے ممالک میں رائج کرنے پر غور وفکر ہو رہا ہے۔ ہم آج بھی اسی فرسودہ نصاب اور رٹہ سسٹم میں پھنسے ہیں۔ یہاں ہر دو چار سال بعد ایک ہی مشق ہوتی ہے کہ کوئی حکومت پہلی جماعت سے تمام کتابیں انگریزی میں کر دیتی ہے۔ اگلی کسی حکومت کو خیال آتا ہے کہ نہیں تعلیم اردو میں دی جانی چاہیے۔ اچانک ہی سب کچھ اردو ہوجاتا ہے۔ ادھر اردو میں ترجمہ شدہ نصابی مواد کا یہ عالم ہے کہ اس جناتی زبان کو طلبہ بیچاروں نے تو کیا پڑھنا، خود استاد نہیں سمجھ سکتے۔ میری بیٹی ایف اے کی طالبہ ہے، پچھلے دنوں اس کی ایجوکیشن کی کتاب دیکھی اور کچھ مدد کرنے کی کوشش کی۔ اس قدر مشکل، ادق اور گنجلک تحریرکہ چکرا کر رہ گیا۔ صرف ایک شعبہ تعلیم کے حوالے سے بے شمار سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ سنجیدہ، گمبھیر سوال۔ علم وادب کا یہ حال کہ اکادمی ادبیات پاکستان سے لے کر کتنے ہی اہم علمی ادارے ہیں جن کے سربراہ موجود نہیں یاان کی مدت ملازمت ختم ہوگئی۔ اگلے روز علم ہوا کہ پچاس ساٹھ سال سے زائد کی شاندار تاریخ رکھنے والا ادبی پرچہ ماہ نو بند ہوگیا ہے۔ سرکار کے پاس اسے چلانے کے پیسے موجود نہیں، اسے آن لائن کر دیا گیا اور صرف ایک لڑکی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ماہ نو کو ایڈٹ کرے۔ ویب سائٹ کا یہ حال کہ کئی منٹ کی کوشش کے باوجود لنک تک نہ کھل پایا۔ علمی ادبی منصوبوں کے لئے چند لاکھ تک موجود نہیں، جبکہ ناقص منصوبہ بندی سے کئے جانے والے پراجیکٹس میں تیس چالیس ارب کا نقصان معمول ہے۔
تعلیم سے ہٹ کر دوسروں شعبوں کی طرف جائیں تو پریشانی ازحد بڑھ جاتی ہے۔ کبھی کسی ریسرچ جرنل میں پانی کی کمی کے حوالے سے رپورٹ پڑھی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگلے دس پندرہ برسوں تک لاہور میں پینے کے لئے پانی دستیاب نہیں رہے گا۔ زیرزمین پانی اتنا نیچے ہوتا جارہا ہے کہ واسا کا یہ سسٹم شائد جواب دے جائے۔ لاہور پنجاب کا اہم ترین شہر ہے، جس پر کھربوں روپے خرچ ہوتے رہے ہیں۔ کسی حکمران نے پانی کے حوالے سے پلاننگ نہیں کی۔ وہ اقدامات نہیں کئے جو اس بحران کو چند سال کے لئے موخر کر دیں۔ ماہرین تجاویز دیتے رہتے ہیں کہ عوام کی تربیت کی جائے کہ شاور کے بجائے بالٹی سے نہائیں، فرش پائپ لگا کر نہ دھوئیں اور گاڑیاں دھونے کا نظام بھی تبدیل ہو، سب سے اہم کہ استعمال شدہ پانی ری سائیکل کرنے کی ٹیکنالوجی پر ابھی سے کام کیا جائے۔ یہ بنیادی نوعیت کی باتیں ہیں۔ عام آدمی کی زندگی ان سے جڑی ہے۔ بی جے پی جھاڑکنڈ کا الیکشن کیوں ہاری، بورس جانسن بریگزٹ سے نمٹنے کے لئے کیا پالیسی بنائے گا، مشرق وسطیٰ کا بحران کیا شکل اختیار کرے گا؟ ? ان سوالات پر بھی ضرور بات کریں، باخبر رہیں، اپنے ذہن اور تناظر کو کشادہ کریں، مگرجو ایشوز آپ کے ساتھ جڑے ہیں، انہیں ترجیح پر آنا چاہیے۔ ہمارے فیصلہ ساز طبقے، سوچنے سمجھنے والے لوگوں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اور سب سے بڑھ کر عام آدمی کو اپنے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ تبدیلی کسی خاص شخص یا پارٹی کو حکومت سے ہٹانے اور دوسرے کو لانے کا نام نہیں۔ تبدیلی کا آغاز تب ہوگا، جب آپ خود کو، آپنے آس پاس کو تبدیل کرنا چاہیں۔ یہ تبدیلی کا پہلا حرف ہے، ت۔ اگلے سب مراحل اس کے بعد شروع ہوں گے۔