سرخ سویرے کا خواب
جب لال لال لہرائے گا، تب ہوش ٹھکانے آجائے گا، سرخ ہوگا سرخ ہوگا ایشیا سرخ ہوگا? یہ اور اس طرح کے نعرے ہم نے چند دن پہلے لاہور کے فیض امن میلے میں سنے۔ انداز دلچسپ تھا، نوجوانوں کا ایک گروہ ایک نیم دائرہ سا بنا کر کھڑا ہوجاتا، ایک لڑکا گول سے ساز (طبوقہ) پر طبلہ کے انداز میں سنگت دینے لگتا جبکہ باری باری مختلف لڑکے لڑکیاں تالیوں کی تال پر بلند آواز میں نعرے لگاتے۔ فطری طور پر لوگ متوجہ ہوئے، نوجوانوں کا جوش وخروش دیدنی تھا، ان کی باہمی کیمسٹری بھی خوب تھی اور ہم آہنگی کے ساتھ وہ باری باری ایک دوسرے کو اگلے نعرہ کا اشارہ دیتے۔ جن بولوں پر زیادہ جوش دکھایا گیا وہ ناموربھارتی شاعر بسمل فیض آبادی کی مشہور غزل کے اشعار تھے ?
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے باربار
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے
فیض فیسٹول میں اسی گروہ کی ایک رکن عروج اورنگ زیب نے کچھ ایسے ولولے، جذب کے ساتھ یہ اشعار بار بار پڑھے کہ اس کی ویڈیو وائرل ہوگئی اور دیکھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ابتدائی تاثر یہ بنا کہ لاہور کی ایک معروف، مہنگی نجی یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کی ایکٹوٹی ہے۔ اس پر ٹھٹھے بھی لگے، مذاق بھی اڑایا گیا کہ اتنی مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے برگر بچوں نے شوقیہ یا فیشن میں یہ سرگرمی کی ہے۔ عروج اورنگ زیب نے بلیک لیدر جیکٹ پہنی تھی، اس کا بھی مذاق اڑایا گیاکہ دس پندرہ ہزار کی لیدر جیکٹ پہن کر یہ انقلاب لانے نکلے ہیں۔ اگلے چند دنوں میں ان لڑکے لڑکیوں کے کچھ انٹرویوز آئے تو بہت سی چیزیں کلیئر ہوئیں۔ دو چار چیزیں دیکھنے کا موقعہ ملا، نوجوان صحافی فرخ شہباز وڑائچ نے ان میں سے چند طلبہ کا انٹرویو کیا، دلچسپ معلومات ملیں۔ انتیس نومبر کو ان طلبہ اور ان کے دیگر ہم خیال گروپس نے مل کر ایک بڑی ایکٹوٹی کی۔ پروگریسو کلیکٹو کے پلیٹ فارم سے چھبیس کے قریب چھوٹے بڑے گروپوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں اور ایک باقاعدہ قسم کی منظم سرگرمی کی۔ طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کے حوالے سے بھی نعرے، بینر وغیرہ سامنے آئے۔ اس سب کچھ کو دیکھنے، سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔
سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ یہ صرف لمز یا اسی قبیل کی کسی یونیورسٹی کے برگرطلبہ کی سرگرمیاں نہیں ہیں۔ ایسا کہنا حقائق کے منافی ہوگا۔ جو چیز جیسے ہے، ویسے ہی اسے بیان کرنا چاہیے۔ فیض فیسٹول والی ایکٹوٹی میں مختلف یونیورسٹوں کے طلبہ تھے، جن میں پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے بھی موجود تھے۔ سرفروشی کی تمنا والا نعرے جوش وخروش سے لگانے والی لڑکی عروج اورنگ زیب اپنی وائرل ویڈیوز کی بنا پر خاصی مشہور ہوئیں اور آئیکون بن گئیں۔ ان کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے۔ اب وہ فارغ التحصیل ہو کر مختلف ملازمتیں کر رہی ہے۔ ایک انٹرویو میں اسی گروپ کے ایک سرکردہ نوجوان نے بتایا کہ اس کا تعلق دیہات سے ہے اور اس کے والد کی آمدنی پندرہ ہزار ماہانہ سے زیادہ نہیں۔ ان کے بعض دیگر ساتھی بھی بڑھتی ہوئی فیسوں سے نالاں نظر آئے۔ ایک لڑکی نے البتہ بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ میرے بارے میں آ پ کہہ سکتے ہیں کہ ایلیٹ کلاس سے تعلق ہے، مگر میں ذہنی اور فکری طور پر اس کلاس سے نہیں اور حقوق کی اس جنگ میں عام طلبہ کے ساتھ کھڑی ہوں۔ بہت خوب۔ انگریزی محاورے کے مطابق اسے Fair Enough سمجھنا چاہیے۔ ویسے بھی لمز، بیکن ہائوس، گرائمر سکول یا کسی بھی دوسرے نجی تعلیمی ادارے کے طلبہ پر یہ پابندی نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ انقلابی نعرے نہ لگائیں یا انقلابی رومانویت کا شکار نہیں ہوسکتے۔ انہی تعلیمی اداروں کے طلبہ نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی حصہ لیا تھا، اس وقت ہم سب کو یہ خوشگوار لگا تھا۔
یہ خاکسار جو رائٹ ونگ سے تعلق رکھتا ہے، اپنی فیس بک پروفائل میں نظریاتی شناخت "رائٹ آف دی سنٹر" لکھ رکھا ہے، مگر خود کو رائٹسٹ کہلانے میں کوئی باک نہیں۔ مجھے ان نوجوانوں کا جذبہ، سرخ سویرا کا خواب، پرانے سرخوں والے نعرے اچھے لگے۔ کچے منہ سے پکی پکی باتیں سن کرعملی زندگی میں دو ڈھائی عشرے گزار چکنے والے ہم جیسے لوگ مسکراتے ہیں، مگر یہی تو زندگی ہے۔ کسی نے کہا تھا کہ ٹین ایج میں اگر کوئی انقلابی نہیں تو اس پر تف ہے۔ اس پر دوسرے نے گرہ لگائی کہ پینتس چالیس کے بعد بھی اگر وہ انقلاب کے خواب سے نہیں نکل پایا تو تف ہے۔ کوئی انقلابی چاہے تو ان اقوال زریں کے خالق حضرات کے ساتھ بھی یہی سلوک کر سکتا ہے۔ یہ مگر زندگی کے مختلف شیڈز ہیں۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ البتہ انسان میں ماند نہیں پڑنا چاہیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم زیادہ پختہ، عملی اور مختلف رکاوٹوں سے گریز (اعراض) کر کے آگے جانا سیکھ لیتے ہیں۔ تبدیلی کا خواب، سماج میں چیزیں بہتر کرنے کی خواہش اور کنٹری بیوٹ کرنے کا عزم ہی اخری فیصلہ کراتا ہے۔
خوشی اس پر بھی ہے کہ لیفٹ جو عرصہ دراز سے ہمارے ہاں آخری سانسیں لے رہا تھا، اب اس میں زندگی پیدا ہونے کے امکانات تو پیدا ہوئے۔ لاطینی امریکہ میں یہ دوبارہ سے زندہ ہوا، کیپیٹل ازم کے مسکن امریکہ اور برطانیہ میں بھی اہم لیڈر لیفٹسٹ سوچ کے ساتھ نمایاں ہوئے ہیں۔ پاکستانی لیفٹسٹ عرصہ ہوا سب چھوڑ چھاڑ کر امریکہ کی غلامی قبول کر چکے۔ بعض نے اپنی این جی اوز بنا لیں، جسے یہ توفیق نہ مل سکی، اس نے نوکری کر لی۔ کیپیٹل ازم کے ایجنٹ کے طور پر یہ سب پرانے سرخے خوش باش اپنی شامیں مہکاتے ہیں۔ سیکولرازم کی آڑ لے رکھی ہے، اس بہانے مذہب پر طعن بھی ہوجاتا ہے اور فکری دال دلیہ بھی۔ دو نمبر سیکولرسٹوں کی جگہ کلاسیکل لیفٹ کے نظریات والے نوجوان اگر سامنے آ رہے ہیں تو یہ خوشگوار امر ہے۔ رائیٹ اور لیفٹ کی نظریاتی مسابقت نے ہمارے ہاں فکری بھونچال پیدا کیا تھا۔ بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ اب تو ایسا جمود ہے کہ سماج بدبو دار جوہڑ معلوم ہونے لگا۔ کنزیومر معاشرہ پیسہ کمانے والے انسانی روبوٹ ہی پیدا کرتا ہے۔ اس لئے لیفٹ میں بیداری خوش آئند ہے۔ رائٹسٹوں کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہو سکے توکچھ معتدل رائٹسٹ ان کے جلسوں میں چکر بھی لگا آیا کریں تاکہ انقلابیوں کا مورال ہائی رہے۔ ایک بات البتہ سمجھ لینی چاہیے کہ طلبہ یونین کی بحالی ایک الگ معاملہ ہے، اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ انتیس نومبر کو طلبہ کی ریلیوں کے بعد تحریک انصاف کے بعض وزرا نے شدومد سے اس مطالبے کی حمایت کی۔ انہیں چاہیے کہ مزید کچھ کہنے سے پہلے اس معاملے کے قانونی پہلوئوں کا جائزہ لے لیں۔ طلبہ یونین بحال ہونی چاہیے یا نہیں، اس پر تفصیلی بحث درکار ہے۔ اس کے مثبت نکات جس قدر ہیں، ان سے دوگنا منفی باتیں بھی ہیں، جن سے پہلوتہی ممکن نہیں۔ طلبہ کے مسائل البتہ حقیقت ہیں، ان پر بات ہونی چاہیے، آواز بلند کی جائے۔ پروگریسو کلیکٹو یا دیگر ترقی پسند گروپوں کو اس حوالے سے مگر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے پچھلے تین عشروں میں اپنا وجود برقرار رکھا ہے بلکہ طلبہ مسائل کے حوالے سے جدوجہد بھی کی ہے۔ جمعیت کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر طلبہ ایشوز پر رائٹ، لیفٹ سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔
ایک اور بات دیکھی کہ پرانے سرخے اسے آخری مورچہ سمجھ کرنوجوانوں کی ان ایکٹویٹیز میں جوش وخروش سے شامل ہوئے ہیں۔ ضرور ہوں، ان کا میدان ہے، مگراپنی وہ غلطیاں، بلنڈر جن کی وجہ سے پاکستانی سماج نے انہیں مسترد کیا، انہیں نوجوانوں میں منتقل نہ کریں۔ پاکستانی سماج کا بنیادی فیبرک مذہب سے جڑا ہوا ہے۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کی محبت جس میں گندھی ہے، دین کی حمیت، حیا اس تہذیب کا جوہر ہے۔ لیفٹ کے لوگوں نے ماضی میں بھی لوگوں کی مذہبی حساسیت کا اندازہ نہیں کیا تھا۔ دینی شعار کو وہ بلاوجہ نشانہ بناتے رہے، نقصان اٹھایا اور پھر مٹ ہی گئے۔ ان نوجوانوں کو مذہب اور مذہبی شعار سے ٹکرانے کے بجائے محروم طبقات کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ یونین ازم ہر حوالے سے تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ معلوم نہیں اس کی واپسی ہوپاتی ہے یا نہیں، مگر بہرحال اس کی بات ہونی چاہیے۔ کلاس سسٹم کو چیلنج کرنا چاہیے، مزدور، کسانوں کی بات ضرور کی جائے، انسانی حقوق کے حوالے سے بھی کوتاہی نہ برتی جائے۔ یہ احتیاط مگر ضرور کریں کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تو خیر سیاسی موقف ہے، اس کی گنجائش ہے، اسے اینٹی آرمی، اینٹی سٹیٹ کی سطح تک نہیں جانا چاہیے۔ پی ٹی ایم اور شدت پسند قوم پرست کود پڑنے، اسے ہائی جیک کرنے کو تیار ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بدنصیبی ہوگی۔ اس نوزائیدہ لیفٹ کے تھنک ٹینکس کو ان تمام پہلوئوں پرمحتاط اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ خواب ضرور دیکھنے چاہئیں، سرخ سویرے کا خواب دیکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ جب اس پر بات ہوگی تو مختلف پہلو کھلیں گے۔ ممکن ہے یہی نوجوان تب سرخ سے سبز کی طرف آ جائیں۔ فکر کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے، مگر سوچنے سمجھنے کا عمل شروع تو کیا جائے۔ سرخ سویرے کا خواب دیکھنے والوں کا خیر مقدم۔ ہم ان کے فکری مخالف ان کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ بیسٹ آف لک کامریڈز۔