سمارٹ موو
عمران خان کا پنڈی میں جلسہ کتنا بڑا تھا، کس قدر لوگ آئے، پی ٹی آئی کی حکمت عملی کیا رہی، لانگ مارچ ختم کیوں ہوا وغیرہ جیسے سوالات سے بحث آگے نکل چکی ہے۔ اب ہر جگہ صوبائی اسمبلیوں سے استعفے پر بات ہو رہی ہے۔ میرے نزدیک عمران خان نے بظاہر ایک بہت مشکل اور پریشان کن صورتحال سے نہ صرف محفوظ طریقے سے نکلنے کا راستہ نکالا بلکہ ہر ایک کو سرپرائز بھی دیا ہے۔ اب اگلے کچھ عرصہ تک سب کچھ اسی سیاسی چال کے گرد ہی گھومتا رہے گا۔ یہ ایسی موو ہے جس نے مخالفوں کو بھونچکا رکھ دیا۔
عمران خان کو ایک کریڈٹ تو دینا چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں کو راز میں رکھنا سیکھ گئے ہیں۔ صرف چند سال پہلے تک عمران خان کے پیٹ میں بات رہتی نہیں تھی، وہ کہیں نہ کہیں اسے اگل دیتے تھے۔ اقتدار سے محرومی نے جہاں خان صاحب کودیگر تلخ حقائق سے روشناس کیا، یہ سمجھ بھی آ گئی کہ ترپ کا پتہ چھپا کر رکھنا چاہیے۔
پاکستانی سیاست میں میاں نواز شریف کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کی خبر کسی کو نہیں ہونے دیتے۔ ان کی عادت ہے کہ وہ ہر ایک سے مشورہ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ انٹرویوز میں سوال پوچھا جائے تو جواب دینے کے بجائے معصومیت سے پوچھ لیتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے؟ صحافی غریب ہکے بکے رہ جاتے ہیں کہ ہائیں ہماری اتنی اہمیت ہے۔ بعض خوش فہم تو جوش وخروش سے میاں صاحب کو صلاح دینے بھی لگ جاتے۔ میاں صاحب چپکے سے ہر ایک کی بات سنا کرتے اور اپنی دل میں ہی رکھتے۔ آج بھی بڑے میاں صاحب کی یہ کوالٹی ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کرتے اور مناسب ترین وقت پر کارڈ شو کرتے ہیں۔
عمران خان نے بھی یہ بات سیکھ لی ہے۔ لانگ مارچ کے اچانک خاتمے اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفے کی بات کو لے لیں، اس کا کسی کو اندازہ تک نہیں ہوسکا۔ میڈیا میں ان کے حوالے سے بے تہاشا لکھا جا رہا تھا، ہر قسم کے مفروضے، اندازے، قیاس آرائیاں۔ کسی نے مگر یہ اندازہ نہیں لگایا کہ وہ اچانک یوں اسمبلیوں سے نکل جانے کا اعلان کر دیں گے۔ مزے کی بات ہے کہ زخمی ہونے کے بعدعمران خان کا قیام زماں پارک لاہور والے گھر میں رہا، انہوں نے اس دوران صحافیوں، ایڈیٹروں، وی لاگرز، یوٹیوبرز وغیرہ سے کئی ملاقاتیں کیں۔ ان میں بہت کھل کر تفصیلی باتیں بھی ہوئیں، یہ نکتہ مگر کہیں پر ہلکا سا بھی بیان نہیں ہوا۔
استعفوں کا اعلان تو ہوگیا، اس کے مضمرات کیا ہوسکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ کہ استعفوں کا کیوں کہا گیا، سیدھا سادا دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا کیوں نہیں کہا؟ بظاہر اس کا یہ جواب سمجھ میں آتا ہے کہ ہوشیار سیاسی لیڈروں کی طرح عمران خان نے بھی اپنی آپشنز اوپن رکھی۔ اگر وہ اسمبلی کی تحلیل کا کہہ دیتے تو پھر ایک محدود دائرے میں پھنس جاتے۔ اب انکے پاس آپشنز ہیں اور وہ مشاورت کر کے کوئی بھی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اسمبلیوں کی تحلیل سے لے کر مرحلہ وار اراکین صوبائی اسمبلی کے استعفوں تک کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے یہ ایک بڑافیصلہ ہے۔ اس وقت دونوں صوبوں میں ان کی حکومت ہے، پولیس انہیں تنگ نہیں کر سکتی۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد منظر بدل جائے گا۔ اگر اسمبلیاں چلی گئیں اور نگران حکومت کاکسی بھی وجہ سے جھکائو وفاقی حکومت کی طرف ہوگیا تو انصافین کارکنوں، رہنمائوں کے لئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ سب انہیں سوچنا ہوگا کہ نگران وزیراعلیٰ کسے بنایا جائے؟ ویسے اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے بعد والے منظرنامہ اور خود قبل از وقت اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن میں جانے والے معاملے میں فرق ہے۔ مدت مکمل ہوجانے کے بعد ساٹھ دن میں الیکشن جبکہ اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد نوے روز میں الیکشن کرانالازمی ہے۔ نگران حکومتوں کا معاملہ بھی کچھ مختلف سا ہے۔
ایک سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ پہلے ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ اس کا جواب تو تحریک انصاف ہی دے سکتی ہے، مگر ظاہر ہے انہوں نے اپنی ترجیحات کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ تیر چلانے کا بھی کوئی وقت ہوتا ہے۔ ایسے ہی بلاوجہ بیٹھے بٹھائے کوئی ہوا میں تیر چلاتا رہے تو ترکش جلد خالی ہوجائے گا۔
میرا خیال ہے کہ عمران خان نے جس طرح لانگ مارچ کا پلان بنایا، اس میں تاخیر کرتے رہے اور پھر نومبر کے تیسرے ہفتے میں دبائوڈالا، مقصد یہ تھا کہ اہم فیصلوں میں بطور سٹیک ہولڈر جگہ بنائی جائے۔ مطلوبہ مقاصد کس حد تک حاصل ہوئے یا نہ ہوئے، اس سے بڑھ کر یہ مسئلہ بھی تھا کہ اتنی ہائپ جو بنائی ہے، اسے کس طرح اچھے منطقی انجام تک پہنچایا جائے؟ پنڈی کے جلسہ کے بعد عمران خان سے کوئی بڑا اعلان متوقع تھا۔ اسلام آباد وہ جانا نہیں چاہتے تھے کہ اب اس کا فائدہ نہیں تھا۔ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان بہرحال ایک بڑا دھماکہ ثابت ہوا اور دور دور سے آئے انصافین کارکن بھی خوش ہو کر واپس گئے کہ چلیں کچھ تونیا ہوا، بات آگے بڑھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا؟ دو ہی آپشنز ہیں۔ تحریک انصاف پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل کر کے صوبائی الیکشن کی طرف چلی جائے۔ ایک نیا فریش مینڈیٹ لینے کے لئے۔ ایسی صورت میں تین ماہ کے اندر یعنی فروری مارچ میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن کرانا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کو قوی امید ہے کہ وہ آسانی سے دونوں صوبائی اسمبلیاں جیت لے گی۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ملے، تب بھی موجودہ دس اراکین کی اکثریت سے توزیادہ نشستیں مل جائیں گی۔ کے پی میں انہیں دوسری بار دو تہائی اکثریت مل سکتی ہے۔
اگر یہ آپشن کامیابی سے بروئے کار لائی گئی تو پی ڈی ایم کے لئے نہایت پریشان کن حالات پیدا ہوجائیں گے۔ پی ڈی ایم اور خاص کر ن لیگ اس وقت پنجاب میں الیکشن نہیں چاہتی۔ اگر صوبائی الیکشن ہوئے تو ن کے لئے بہت ہی بری صورتحال بنے گی۔ ان کے وزرا اور وزیراعظم وغیرہ الیکشن کمیشن کی پابندیوں کی وجہ سے جلسوں سے خطاب بھی نہیں کر سکیں گے۔ انکے پاس بے پناہ مہنگائی کا کوئی جواز نہیں۔ پھر سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ اگر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوگئے تو پھر چند ماہ بعد قومی اسمبلی اور باقی ماندہ دو اسمبلیوں کے الیکشن میں پی ڈی ایم زیادہ سے زیادہ کیا لے سکتی ہے؟ صرف ستائیس کلومیٹر پرپھیلی وفاقی حکومت؟
جب پنجاب میں تحریک انصاف کی منتخب حکومت ہوگی تو جنرل الیکشن میں ن لیگ زبردست سیاسی خسارے سے اپنی کمپین شروع کرے گی۔ ووٹرز کو علم ہوگا کہ سڑکوں، سکول، کالج، ہسپتال وغیرہ سب صوبائی بجٹ سے ملنے ہیں، وہ قومی اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کو ترجیح دے سکتے ہیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ فنڈز مل سکیں۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جب کئی سو صوبائی نشستوں پر الیکشن ہوگا تو پھر جنرل الیکشن کو التوا میں ڈالنا بذات خود ایک عجیب وغریب معاملہ بن جائے گا۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی وجہ سے ن لیگ میں توڑ پھوڑ بھی ہوسکتی ہے، ان کے اراکین اسمبلی پی ٹی آئی کے ٹکٹ کے لئے اس طرف جا سکتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں پورا دھڑا ایک طرف جاتا ہے، ایم پی اے کے ساتھ قومی اسمبلی کے ارکان کاپینل بنتا ہے۔ ن لیگ کے لئے انہیں سنبھالنا بڑا چیلنج ہوگا۔
دوسری آپشن یہ ہے کہ ن لیگ مع پی ڈی ایم جماعتیں کسی بھی طرح" جگاڑ" کر کے یہ سب نہ ہونے دیں۔ اس کے لئے وہ ہر ممکن ہتھیار استعمال کریں گے۔ پی ڈی ایم کی بدقسمتی سے پنجاب اسمبلی کا مسلسل اجلاس جاری ہے، قانون کے مطابق وہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کر سکتے۔ اب تحریک انصاف یہ کر سکتی ہے کہ رات بارہ بجے اجلاس ملتوی ہونے کا اعلان ہو اور بارہ بج کر پانچ منٹ پر اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس گورنر کو بھیج دی جائے۔ وہ اسے لٹکا تو سکتے ہیں، مگرآخر کار ماننا ہی پڑے گا۔
عدالتی جنگ صاف نظر آ رہی ہے۔ ممکن ہے حکمران اتحاد گورنر راج کی کوشش کرے، مگر اس کے لئے کیا قانونی جواز بنایا جائے گا؟ یہ کہ اسمبلی کے لئے فریش مینڈیٹ لینے کی کوشش ہو رہی ہے؟ اس بات پر کون معترض ہوسکتا ہے؟ پی ڈی ایم کے دماغ اکھٹے ہو کر سوچ بچار کر رہے ہوں گے، ان کے پاس بھی یقینی طور پر کوئی پلان ہوگا۔
یہ سیاسی جوڑ توڑ اور اعصاب کی جنگ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا بھی یہ امتحان ہوگا کہ وہ غیر سیاسی ہونے کا اعلان کر چکی ہے، کس حد تک اس پر عمل پیرا ہوتی ہے؟ کم سے کم ایک بات میں تو عمران خان کامیاب ہوگئے کہ میڈیا، تجزیہ کاروں اور سیاسی مخالفین کی توجہ لانگ مارچ کی ناکامی اور بغیر کچھ حاصل کئے منتشر ہوجانے سے ہٹا کرہر ایک کو اسمبلیوں کی تحلیل کی طرف لگا دیا ہے۔ نتیجہ جو بھی نکلے، خان صاحب کا اصل ہدف پورا ہو رہا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی کیفیت رہے اور حکومت ڈگمگاتی رہے۔ کچھ کرنے کے بجائے وہ اپنے آپ کو سنبھالنے میں لگی رہے۔ یہ سب ہو رہا ہے۔ سیاسی اعتبار سے پھر اسے عمران خان کی سمارٹ موو ہی کہیں گے۔