سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں
ملک میں کورونا کی صورتحال جس قدر بگڑ گئی ہے، جس تیزی سے روزانہ ہزاروں لوگ شکار ہو رہے ہیں، اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے، اس کے بعد ملک میں سیاسی اجتماعات کا کوئی جواز نہیں۔ کوروناکا ہمارے ہاں بہت لوگ مذاق بھی اڑاتے رہے ہیں، ایسی کئی مثالیں دیکھیں کہ جو ایسا کرتے تھے، وہی بعد میں نشانہ بنے۔ غیر سنجیدہ رویہ رکھنے والے بعض لوگ دنیا سے رخصت بھی ہوگئے۔ اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے، مگراتنے خطرناک حالات میں آخر ہماری سیاست قیادت کیوں اتنا غیر سنجیدہ، غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ہے؟
صرف پی ڈی ایم ہی کیوں، جو سیاسی جماعت آج کل جلسے کر رہی ہے، سیاسی اجتماعات یا کارکنوں کے کنونشن منعقد ہو رہے ہیں، ان سب کو فوری طور پر رک جانا چاہیے۔ دو دن قبل جماعت اسلامی نے دیر میں جلسہ کیا۔ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ دیر، بونیر کے اضلاع جماعت اسلامی کا گڑھ رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے وہاں سے قومی اسمبلی کی تین نشستیں جیتیں، صوبائی اسمبلی سے بھی انہیں سیٹیں ملیں۔ یوں اُس پانچ سالہ دور میں جماعت اسلامی کی تمام تر پارلیمانی سیاست دیر، بونیر کی مرہون منت تھی۔ حالیہ الیکشن میں البتہ جماعت اسلامی دیر، بونیرسے نشستیں ہار گئیں۔ جماعت کا دعویٰ ہے کہ ایم ایم اے میں شامل ہونے کی وجہ سے دیر میں جماعت اسلامی کو ہرایا گیا، ورنہ ان کی کم از کم ایک سیٹ پکی تھی۔ ویسے اس شکست میں بڑا فیکٹر مقامی سطح پر تنظیمی اختلافات تھے۔ دیر کے بعض مقامی رہنمائوں نے صوبائی نظم کی جانب سے کئے فیصلے مسترد کئے اور اچھا خاصا تماشا بنا۔ جماعت اسلامی کے حوالے سے ایسا بہت کم منظر عام پر آتا ہے۔ دیر میں مگر ایسا ہوا۔
آج کل جماعت اسلامی اپنی سیاسی پاکٹس میں تنظیم سازی کی مہم چلا رہی ہے۔ امیر جماعت کا دیر میں جلسہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ کورونا کی تباہ کاری کے پی میں خاصی شدید ہے۔ عمومی طور پر پٹھان کلچر میں کورونا ایس اوپیز پر عمل مشکل ہے۔ مصافحہ بلکہ معانقہ پشتون کلچر کا حصہ ہے، سادہ دل لوگوں کو اس سے روکنا بڑا مشکل ہے۔ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ لوگوں کے چھوٹے اجتماع بھی نہ ہونے دئیے جائیں، کجا یہ کہ ہزاروں لوگ جمع ہوں۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو یہ جلسہ روکنا چاہیے تھا، سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے اس کی کمپین چل رہی تھی۔ پی ڈی ایم نے جب یہ طعنہ دیا کہ جماعت کو کیوں جلسہ کرنے دیا، اس پر شبلی فراز نے ایک بڑی پھیکی سی جگت کرنے کی ناکام کوشش کی، کہا کہ جماعت کے جلسوں میں سو دو سو لوگ آتے ہیں۔ اگر وہ دیر جلسہ میں ہزاروں شرکا کی تصویر دیکھ لیتے تو ان کا خیال بدل جاتا۔ تاہم جماعت اسلامی نے جلسہ کر کے غلطی کی۔ انہیں ازخود ہی رک جانا چاہیے تھا۔ خوش آئند یہ ہے کہ تنقید پر جماعت نے اپنی سیاسی سرگرمیاں اور آئندہ جلسوں کا پروگرام کچھ دنوں کے لئے ملتوی کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم کا رویہ مگر نہایت مایوس کن اور قابل مذمت ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کورونا کی اس وبا کے ہنگام وہ ملتان میں جلسہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے تھے؟ اسے زندگی موت کا مسئلہ کس لئے بنا دیا گیا؟ اس جلسہ کو ہر حال میں کرانے کی کوشش کیوں کی گئی؟ اگر وہ اس جلسے کو تین چار ہفتوں کے لئے ملتوی کر دیتے تو کیا ہوجاتا؟ پی ڈی ایم کے پچھلے جلسوں سے کیا فرق پڑا؟ اگر وہ ملتان کے سٹیڈیم میں بڑا جلسہ کر لیتے، تب بھی کیا ہوجاتا؟ گھنٹہ گھر میں اجتماع کر کے ملتان شہر کو بلاک کرنے اور شہریوں کوتنگ کرنے سے بھی کیا حاصل ہوا؟ پشاور جلسے کے بعد بلاول بھٹو اور ثمر بلور صاحبہ کورونا کا شکار ہوئے، اللہ نہ کرے اس بار بھی کوئی لیڈر یا کارکن متاثر ہو تو کون اس کی ذمہ داری قبول کرے گا؟
ویسے پنجاب کی صوبائی حکومت کار ویہ بھی عجیب وغریب اور بچکانہ سا رہا۔ جلسے کی اجازت نہیں دی۔ گیلانی صاحب کے بیٹوں اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا، کنٹینر کھڑے کردیے۔ پھر اچانک جلسے کی اجازت دے دی اور وہ بھی گھنٹہ گھر جیسی تنگ اور گنجان جگہ پر، جہاں پانچ چھ ہزارسے زیادہ لوگ جمع ہی نہیں ہوسکتے۔ دو طریقے تھے، اپوزیشن سے مذاکرات کرتے، انہیں سمجھاتے، نہ ماننے پر جلسے کی اجازت دیتے اور اعلان کر دیتے کہ ہم مجبوراً ایسا کرنے دے رہے ہیں، مگر لوگ اپنے رسک پر وہاں جائیں۔ اس سے حکومت کی اخلاقی برتری قائم ہوتی۔ دوسری صورت میں پابندی لگائی تھی تو پھر اس پر عمل درآمدکراتے اوراجتماع کسی بھی صورت نہ ہونے دیتے۔ انہوں نے کمزور طرزعمل دکھایا اور آخری وقت پر اجازت دے دی۔ یہ اجازت دینا ہی تھی تو قلعہ کہنہ ملتان میں جلسہ ہونے دیتے، جہاں بھیڑ کم لگتی اور ایس اوپیز پر کچھ نہ کچھ عمل تو ہوجاتا۔ اپوزیشن کے لئے گرائونڈ بھرنا بھی تب چیلنج بن جاتا۔
چند سال پہلے عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دے رہے تھے، ، تب آج کی اپوزیشن جماعتیں حکمران ن لیگ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ عمران خان نے اپنے دھرنوں کے ذریعے اسلام آباد کو بلاک کر دیا، کئی ماہ تک ہزاروں، لاکھوں شہری ذلیل وخوار ہوئے، بے شمار صلواتیں خان صاحب کو غائبانہ سنائی جاتیں۔ عمران خان کا طرزعمل غلط تھا۔ میرے جیسے اخبار نویس عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود ان کے لانگ مارچ اور دھرنے کو غلط کہہ رہے تھے۔ تب عمران خان غلط تھے، آج وہی کام ن لیگ، پیپلزپارٹی، مولانا فضل الرحمن، اے این پی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں کر رہی ہیں۔ آج وہ غلط ہیں۔ اِن کا رویہ مگر زیادہ افسوسناک اور قابل مذمت ہے کہ ماضی میں یہ رہنما عمران خان کے عمل کو غلط، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور جمہوریت کے منافی قرار دے رہے تھے۔ اپوزیشن رہنمائوں نے ثابت کر دیا کہ ان کے ماضی کے بیانات کسی اصول یا نظریے کی بنیاد پر نہیں تھے، وہ صرف سیاسی جوڑ توڑ اور جتھہ بندی کے پیش نظر دئیے گئے۔ تب وہ نوازشریف کے سیاسی اتحادی بنے تھے اور اپوزیشن رہنما عمران خان کی مذمت کر رہے تھے۔ آج وہ اسی نواز شریف کے سیاسی اتحادی بنے ہیں اور حکمران عمران خان کے خلاف ہیں۔ ان کا پچھلا موقف مگر آج کے موقف کے برعکس ہے۔ واضح ہوا کہ بات موقف کی نہیں، ٹائمنگ کی ہے۔ وقت بدلنے پر ان کے موقف بھی بدل جاتے ہیں۔
مریم نواز صاحبہ کا جارحانہ رویہ قابل فہم ہے۔ اپنی اسی عجلت، شعلہ بیانی اور جارحیت کی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کی حکومت ختم کرائی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونے اور اس پر نازل ہونے والے مصائب کی سب سے بڑی وجہ مریم صاحبہ اور ان کے تھنک ٹینک کی ٹکرائو کی سیاست رہی ہے۔ اگر ن لیگ تب شہباز شریف کے مشوروں پر عمل پیرا ہوتی تو شائد آج وہ حکومت میں ہوتی۔ پیپلزپارٹی کا رویہ بھی سمجھ میں آتا ہے، وہ سندھ حکومت بچانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے ایک خاص حد سے آگے نہیں جا رہے، زرداری صاحب مگر اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر اپنے بچوں کو سیاسی تربیت دلانا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں بلاول کو دو تین ہفتوں کے لئے بھیجنے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے، ورنہ جی بی کے الیکشن کو کبھی پیپلزپارٹی نے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ اس الیکشن سے قومی سیاست پر کچھ اثر پڑنا تھا۔ ملتان کے جلسہ میں آصفہ بھٹو کی رونمائی کے پیچھے بھی یہی مقصد کارفرما ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا رویہ البتہ ناقابل فہم ہے۔ مولانا ایک تجربہ کار گرم سرد چشیدہ سیاستدان ہیں۔ ان کے مداحین ان کی سیاسی فراست کا بڑا چرچا کرتے ہیں۔ افسوس لگتا ہے کہ مولانا اپنے مشہور سیاسی ٹچ سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی وہ روایتی مسکراہٹ، ٹھنڈے دماغ سے صحافیوں کو دئیے گئے جوابات کا جادو بھی ماند پڑ گیا۔ اب وہ معمولی سے تیکھے سوال پر برہم ہوجاتے، ان کی تیوریاں چڑھی رہتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا طرز عمل کسی مغلوب الغضب، منتقم مذاج، ناپختہ سیاستدان کا سا ہے۔ ایسے بچے کی طرح جواپنا پسندیدہ کھلونا نہ ملنے پر غصے میں آ کرکھلونوں کی دکان ہی برباد کرنے پر تل جائے۔ مولانا فضل الرحمن کے دوستوں، سمجھدارکارکنوں کو چاہیے کہ وہ مولانا کو اپنے رویے پر نظرثانی کے لئے آمادہ کریں۔
آج کل کسی بھی قسم کے جلسے یا سیاسی اجتماع کی کوشش غلط ہے، خواہ وہ حکومتی جماعت کرے یا کوئی اور۔ سول سوسائٹی کو سیاسی پسند ناپسند سے ماورا ہو کر یہ بات کہنی چاہیے۔ اسد عمر کی جانب سے سندھ میں کارکنوں کے کنونشن بھی غلط تھے، ماضی میں خود خان صاحب بھی ایسی غلطیاں کرتے رہے، آج کل وہ محتاط ہوگئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان وہی کاٹ رہے ہیں جو انہوں نے خود کاشت کیا تھا۔ ان کا شکوہ نہیں بنتا؟ عوامی حلقوں اور سیاسی کارکنوں کو البتہ اپوزیشن کی جماعتوں کو سمجھانا چاہیے کہ خان صاحب نے بھی ماضی میں غلط کیا، آپ بھی وہی کریں گے تو فرق کیا رہے گا؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان جلسوں اور اجتماعات کی وجہ سے اگر کورونا خطرناک حد تک پھیل جائے تو کون ذمہ دار ہوگا؟