ریپ کی بڑھتی ہوئی شرح اور انفرادی احتیاط
ہمارے ایک صحافی رفیق نے جو وزیراعظم عمران خان کے اقوال اور افعال پر عقابی نظر رکھتے ہیں، ایک فیس بک پوسٹ میں عالمی اخبارات کی سرخیوں کاامیج دیا جس میں خان صاحب کے ایک بیان پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ عمران خان نے چند دن قبل یہ کہا تھا کہ فحاشی کی وجہ سے ریپ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر پاکستان میں بھی لبرل حلقے تنقید کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پربھی ایک حلقہ انہیں ہدف تنقید بنا رہا ہے۔ مغربی میڈیا میں بھی تنقید ہوئی۔ ان سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ وکٹم بلیمنگ ہے یعنی جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اس پر الزام لگانے کے مترادف ہے۔
عمران خان کے بیان کی وضاحت کرنا ان کے ترجمانوں کا کام ہے، وہ یہ کام کر بھی رہے ہیں۔ خان صاحب کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ بہت زیادہ بولتے ہیں اور اکثر مناسب تیاری کے بغیر گفتگو کرنا پسند فرماتے ہیں۔ انہیں یہ شبہ بھی ہے کہ وہ ایک دانشور ہیں اور نہ صرف پاکستانی بلکہ مغربی مشرق ومغرب کے ہر سماج کو درپیش ہر مسئلے کا حل ان کے پاس موجود ہے۔ اسی زعم میں وہ بلاتکان بولتے ہیں اور گاہے الفاظ کا انتخاب مناسب نہیں کر پاتے یا عجز کلام کے باعث وسیع تناظر میں مکمل بات نہیں کہہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ڈھائی برسوں میں متعدد بار ان کے حکومتی اور پارٹی ترجمانوں کو وضاحتیں کرنا پڑیں۔
میں ذاتی طور پر وکٹم بلیمنگ کا سخت مخالف ہوں۔ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو، اس پر الزام لگانے کی کیا تک ہے؟ جس پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اس پرلوگ بھی حملہ آور ہوجائیں تو یہ صریحاً ظلم ہے۔ ویسے بھی وکٹم بلیمنگ (Victim blaming) کے تین بڑے نقصانات ہیں۔ اس سے ملزم کو دلیل مل جاتی ہے، اس کے گناہ، زیادتی کا عذر پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ زیادتی اور ظلم کی غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے۔ کسی بچی، خاتون کے ساتھ ریپ ہوا ہے تو وہ مظلوم ہے اور ریپسٹ ظالم درندہ۔ اس کے علاوہ کوئی اور لفظ یا صورت نہیں بنتی۔ دوسرا ہمارے سماج میں عورت کمزور حیثیت رکھتی ہے، اس کے شفاف دامن پر ہلکا سا چھینٹا بھی مدتوں نہیں دھل پاتا۔ زیادتی کی صورت میں توزندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں لوگ پرائیویسی کا مطلب نہیں سمجھتے۔ نہایت ذاتی نوعیت کے سوال پوچھنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لوگ بھی معمولی بات پر طعنہ، الزام، تنقید، لعن طعن وغیرہ سے باز نہیں آتے۔ اس لئے متاثرہ فریق کے ساتھ مکمل ہمدردی کرنی چاہیے۔ اس کے جسم وروح پر لگنے والے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ وکٹم بلیمنگ زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
تیسرا فیکٹر یہ ہے کہ زیادتی یا کسی بھی واردات (خواہ وہ چوری، سٹریٹ کرائم ہو)کے بعد خاتون عموماً خودکو مورد الزام ٹھیرا رہی ہوتی ہے۔ اگر وہ وہاں نہ جاتی تو یہ نہ ہوتا، فلاں کام نہ کیا ہوتا تو یہ ہولناک واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ ایسی صورت میں اگر وکٹم بلیمنگ ہو تو اس رویے میں شدت آ جاتی ہے جو مہلک ڈپریشن تک جا سکتی ہے، بعض کیسز میں متاثر ہ شخص خودکشی بھی کر لیتا ہے۔ اس لئے وکٹم بلیمنگ کا کوئی جواز نہیں۔
ہم وکٹم بلیمنگ کی بحث سے باہر آ چکے ہیں، اس کی قطعی ممانعت پر صاد کر چکے ہیں۔ اب ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارے سامنے سوال ہے کہ معاشرے میں ریپ کے بڑھتے ہوئے کیسز کس طرح کم کئے جائیں؟ جب اس سوال کا جائزہ لیں گے تو مختلف فیکٹرز اور اسباب سامنے آئیں گے۔ جو بھی شخص ان کا تجزیہ کرے گا، اسے کہیں نہ کہیں خواتین کے لئے ضابطہ اخلاق بھی مقرر کرنا پڑے گا، خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے مشورے اور ٹپس بھی دینے پڑیں گے۔ استدعا ہے کہ ایسا کرنے والے پروکٹم بلیمنگ کا الزام نہ لگا دیجئے گا۔
بات سمجھنے کے لئے ایک مثال لیتے ہیں۔ خدانخواستہ کسی کا بیٹا یا کوئی اور عزیز کسی حادثے کا شکار ہوا، اسے چوٹیں آئیں، مگر اللہ کی رحمت سے بچت ہوگئی۔ لڑکے یا نوجوان کی والدہ بے تابی سے اس سے لپٹے گی، اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد صدقہ خیرات کی جائے گی، عزیز واقارب مبارکباد دینے آئیں گے۔ جب اس کے زخم ٹھیک ہوجائیں اور وہ پھر سے موٹر سائیکل چلانے لگے تو اسے زیادہ محتاط ہونے، لازمی ہیلمٹ پہننے اور کم رفتار سے چلانے کا مشورہ ضرور دیا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ والدین اس سے قسم یا حلف لینے کے بعد ہی گاڑی یا بائیک کی چابی تھمائیں۔ عین ممکن ہے کہ پچھلے حادثے میں اس نوجوان کا کوئی قصور نہ ہو، کسی بدمست ڈرائیور یا رکشہ والے نے اندھا دھند چلاتے ہوئے اسے ٹکر مار دی ہو۔ اس کے باوجود والدین، عزیز واقارب اسے ہی مشورہ دیں گے کہ تم ہیلمٹ لازمی پہن کر بائیک چلانا اور سپیڈ چالیس پچاس سے زیادہ نہ کرنا۔ گاڑی چلا رہا ہے تو سیٹ بیلٹ باندھنے، قوانین کے مطابق ڈرائیو کرنے کا مشورہ ملے گا۔
یہ سب فطری مشورے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہیلمٹ حادثے سے بچانے کی ضمانت نہیں دیتا، اس کے باوجود بھی خطرناک چوٹیں لگ سکتی ہیں، سیٹ بیلٹ باندھنے کے بعد بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہیلمٹ نہیں پہنتے، کار کی سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے، مگر زندگی بھر ان کا حادثہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود ہم اپنے پیاروں کو یہ تمام احتیاطی تدابیر برتنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کرنا خطرے کی شرح کم کر دے گا، اس کے امکانات کچھ حد تک کم ہوجائیں گے۔ اگرچالیس پچاس نہ سہی، بیس تیس فیصد بھی خطرہ کم ہوجائے تو وہ بھی نعمت ہی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے تمام خطرات کم کرنے کی دو سطحیں ہیں۔ ایک انفرادی، دوسری حکومتی یا ریاستی۔ انفرادی سطح پر ہم اپنی سی احتیاط کریں جبکہ حکومت ٹریفک قوانین پر پابندی کرائے، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کو روکے، ٹریفک اشارہ توڑنے والے نشان عبرت بنائے جائیں، وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح جب ہم اپنی بچیوں، بہنوں، بیٹیوں، اپنے محلے کی بچیوں، اپنی شاگرد طالبات وغیرہ کو ریپ کرنے والے درندوں سے بچانے کا سوچتے ہیں تو بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ ضرور دیں گے۔ ان میں سنسان جگہوں پر اکیلے جانے سے گریز، نامناسب (Odd) اوقات میں سفر سے پرہیز کے ساتھ معقول یعنی ساتر لباس پہننے کا مشورہ بھی شامل ہوگا۔ خواتین نے اگر مناسب لباس پہنا ہوا ہو تو یہ بھی خطرے کے تناسب کو(چاہے چند فیصد سہی)کم کر دیتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ لازمی عبایہ پہنا ہو یا نقاب کے ساتھ برقعہ ہو، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شرعی تقاضوں کے مطابق جسم درست طریقے سے ڈھانپا گیا ہو۔ اس کے لئے کوئی بچی عبایہ استعمال کرنا مناسب سمجھتی ہے، کسی کوسیاہ یا کسی اور رنگ کے برقعہ میں آسانی محسوس ہوتی ہے یا کوئی بیٹی بڑی سی چادر سے اپنا جسم اچھے سے ڈھانپنا آسان سمجھے۔ واضح رہے کہ میں مفتی یا عالم دین نہیں، میں کامن سینس والی بات کر رہا ہوں، اسے براہ کرم سخت گیر ضابطوں کے مطابق نہ پرکھیں۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ معاشرے میں اخلاقی روایات تیزی سے نیچے آ رہی ہیں، تذکیہ نفس کی سطح افسوسناک حد تک گر چکی ہے، مردوں کوقرآن یہ ہدایت دیتا ہے کہ اپنی نظریں جھکائو اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو۔ اس شرعی حکم کی پروا نہیں کی جا رہی۔ ادھر ریاستی قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ایسے میں یہ ممکن ہے کہ کوئی خبیث انسان عبایہ میں ملبوس خاتون کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرے۔
ایسے درندے بھی ہیں جو تین چار سالہ بچی کے ساتھ بھی زیادتی کر ڈالتے ہیں، ان معصوم پھولوں کے لباس میں عریانی کا تصور تک نہیں ہوتا۔ ان درندوں میں سے بیشتر ذہنی مریض یا جنونی ہیں، ان کا کوئی علاج نہیں، سوائے اس کے سخت ترین سزائیں ملیں اور ان کے شیطانی وجود سے دنیا پاک ہوجائے۔ بات مگر وہی ہے کہ ہم حادثات نہیں روک سکتے، یہ کہیں بھی، کسی کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں۔ تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی کوئی ناگہانی ٹوٹ پڑتی ہے۔ اس کے باوجود ہم خود بھی حفاظتی اقدامات کرتے، اپنے پیاروں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ یہی صورتحال ریپ اور زیادتی کے کیسز کے حوالے سے ہے۔ خواتین کاگھر سے بلا ضرورت نہ نکلنا، دوردراز کے اکیلے سفر سے گریز، اوقات کا خیال رکھنے جیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور ساتر لباس پہنناخاصی آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ ترغیب آمیز، جسم ظاہر کر دینے والے نیم عریاں یا نامناسب لباس پہننا ان کی مشکلات بڑھائے گا۔ وہ زیادہ Vulnerable ہوجائیں گی۔ یہ واضح رہے کہ انفرادی سطح پر احتیاطیں کرنے سے ریپ ختم نہیں ہوجائیں گے، البتہ یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو بچا لیں۔ معاشرے میں ریپ ختم یا نہایت کم کرنے کے لئے ریاستی اقدامات کا جامع پلان بنانا اور اس پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔ اس پر ان شااللہ اگلی نشست میں بات کرتے ہیں۔